کالم

اقبال کا شاہےن اور آج کا پاکستان

پاکستان اےک نظرےاتی ملک تھا ،کچھ اسباب ،کچھ مطالبات ،کچھ تقاضے اور کچھ ضرورتےں تھےں جن کی تکمےل کےلئے ہمارے بزرگوں نے پاکستان ہمےں لےکر دےا تھا کہ اسے اےک مثالی فلاحی رےاست قائم کر کے دنےا کےلئے نمونہ بنا دےا جائے لےکن افسوس آج کا پاکستان نہ تو اسلامی ہے اور نہ نظرےاتی اور نہ ہی کوئی ترقی ےافتہ سےکولر ملک ۔اسے رشوت خوروں ،بد قماشوں ،بدمعاشوں ،چوروں اور ڈاکوﺅں کا ملک بنا دےا گےا ہے اور کبھی اسے جمہوری اور کبھی آمرانہ ملک بنا کر اس سے کھےلتے رہے ہےں ۔دہشت گرد گروہ اس ملک مےں منظم ہوتے رہے ۔ےہ سب کےلئے لمحہ فکرےہ ہونا چاہئےے تھا کہ ہم نے ماحول کو تبدےل کرنے کےلئے حرکت کےوں نہےں کی ؟ کس کا انتظار کرتے رہے ؟ اےک سول سوسائٹی نام ہے اےک دوسرے کی فکر رکھنے کا ،اےک دوسرے کے درد جاننے کا اور اس کی دوا ڈھونڈنے کا ،جس مےں سب کو تحفظ ملتا ہو مگر افسوس ہمارے ملک مےں لا تعلقی کی وبا عام ہو چکی ہے ۔کےا ہم قومی حےثےت سے وہ صلاحےتےں کھو چکے ہےں جو مسائل کی پہلے سے چھان پھٹک کر کے انہےں حل دےنے مےں مدد دےتی ہےں ؟ کےا اس سے ہمارے نوجوانوں مےں خےال پےدا نہےں ہوتا کہ وہ اےسے معاشرے مےں پےدا ہوئے ہےں جو تنازعات طے کرنے کی استعداد نہےں رکھتا ،اس کا نتےجہ ےہ ہے کہ معاشرے مےں ماےوسی عام ہو چکی ہے ۔ہماری نوجوان نسل بے نشان منزلوں کے راہی اور ڈےپرےشن کا شکار ہو چکے ہےں ۔آج کے نوجوان عرےانی اقدار کی ثقافت پر عمل پےرا ہےں ۔آج کا نوجوان مےدان سےاست مےں بھی اپنے حقوق کےلئے غےر مہذب ،بےہودگی ِہڑبونگ اور غےر شائستہ حرکات و عمل کا پےروکار ،ہنگامہ آرائی اور اودھم کا اسےر بنا دےا گےا ہے ۔اگر کوئی ان لغوےات کے خلاف لب کشائی کی جسارت کرتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ رہنے دو ےہ اگلے زمانے کے لوگ ہےں ،ان کی بات پر کان نہ دھرو ،انہےں اپنے حال مےں مست رہنے دو ،ان کے قدےم اور بوسےدہ خےالات کی وجہ سے ہی پاکستان ترقی نہےں کر سکا ۔
معزز قارئےن ےہ کےسی ترقی ہے ،ےہ کےسا تغےر ہے ،ےہ کےسی تبدےلی ہے ۔ےہ جدےد و قدےم کا چکر کےا ہے ۔کےا ساری ترقی کا انحصار اسی ہلڑ بازی مےں پنہاں ہے ۔آج جب مانگے کی دانش ہمارے نوجوان طبقے کو ےہ سمجھانے مےں مصروف ہےں کہ ”نہ چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی “تو مجھے اقبالؒ ےاد آتے ہےں جنہےں اس حقےقت کا ادراک تھا کہ ہوا کسی بھی وقت رخ تبدےل کر سکتی ہے ۔چنانچہ وہ خےال کی اےسی قوت سے مالا مال تھے جو زمےنی حقائق بدل دےنے پر قدرت رکھتے تھے ۔
ہوا گو تےز و تند ہے لےکن چراغ اپنا جلا رہا ہے
وہ مرد دروےش جس کو دےے ہےں حق نے انداز خسروانہ
ےہ بات اظہر من الشمس ہے کہ وہی قوم اپنا مطمع نظر آسانی سے حاصل کر سکتی ہے جس کی نوجوان نسل تن آسان نہ ہو ،جس کے نوجون پھولوں کی بجائے کانٹوں سے کھےلتے ہوں ۔زندگی کا اصل مزہ فقط ان کے نصےب مےں ہوتا ہے جو اپنے لئے جےنے کی بجائے دوسروں کےلئے مرنا سخاوت سمجھتے ہےں ،جو کسی اےک پھول کو اپنی آنکھوں کےلئے سامان تسکےن و راحت بنانے کی بجائے اپنے خون دل سے پورے گلشن کو سےراب کرتے ہےں ۔اقبالؒ کو شدت سے احساس تھا کہ قوم کا سب سے حساس اورفعال حصہ نوجوان ہوتے ہےں ۔ان مےں جوش ہوتا ہے ،جلدی متاثر ہو جاتے ہےں ،ان کو رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے ۔اگر گہری نظر سے جائزہ لےا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اقبالؒ کا پےغام ،اقبالؒ کی شاعری نوجوان کے ہی نام ہے ۔ساقی نامہ مےں وہ اپنے اﷲ سے دعا کرتے ہےں کہ وہ ان کا سارا سوز و ساز نوجوانوں کے دلوں کو منتقل کر دے ۔
مےرے دےدہ تر کی بے خوابےاں
مےرے دل کی پوشےدہ بے تابےاں
مرے نالہ نےم شب کا نےاز
مرے خلوت و انجمن کا گداز
امنگےں مری آرزﺅئےں مری
امےدےں مری جستجوئےں مری
مری فطرت آئےنہ روزگار
غزالاں افکار کا مر غزار
مرا دل مری رزم گاہ حےات
گمانوں کے لشکر ےقےں کا ثبات
ےہی کچھ ہے ساقی متاع فقےر
اسی سے فقےری مےں مےں ہو ں امےر
مرے قافلے مےں لٹا دے اسے
لٹا دے ٹھکانے لگا دے اسے
آج ہم حالات کے گرداب مےں چکر کھا رہے ہےں تو نہ صرف ملکی بلکہ بےن الاقوامی سطح پر جو حالات مسلم امہ کو درپےش ہےں وہ گھمبےر اور نازک ہےں ۔اکےسوےں صدی کے چےلنجز ہمارے سامنے کھڑے ہےں ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے نوجوان طبقہ کو کوئی پلےٹ فارم مہےا کےا جائے جو ان کے فکری شعور کو نکھار دے اور ان پر عمل اور جدوجہد کی نئی راہےں کھول دے کےونکہ نوجوان طبقہ ہی ہے جو ہماری کشتی کو با حفاظت کامےابی کے ساحل سے ہمکنار کر سکتا ہے اور ہماری آئندہ والی نسلوں کےلئے اےک تابندہ اور درخشاں پاکستان کی ضمانت بن سکتا ہے ۔Let the fire of youth mingle with the fire of fatale in order to enhance the glow of life and to create a new world of actions for our future genrations.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri