کالم

اقبال کا نظریہ تعلیم

انتخابی منشور۔

کلام اقبال میں تعلیم کے بارے میں براہ راست بہت کم اشعار ملتے ہیں بالخصوص ان کی شاعری کے پہلے اور دوسرے دور میں تو انہوں نے اس موضوع پر کچھ بھی نہیں لکھا البتہ تیسرے دور میں انھوں نے واضح طور پر اپنے خیالات پیش کیے ہیں ضرب کلیم میں تعلیم و تربیت کا ایک مستقل عنوان ہے نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کے بارے میں انہوں نے جابجا اشارے کئے ہیں اور نئی اور پرانی تعلیم کے بارے میں اپنی رائے ظاہر کی ہے ان اشارات اور خاکوں سے اقبال کے فلسفہ تعلیم کو بخوبی سمجھا جاسکتا ہے یہ درست ہے کہ انھوں نے ایک ماہر تعلیم کی طرح مربوط انداز میں اپنی تعلیمی نظریات پیش نہیں کیے لیکن ایک شاعر سے اس قسم کی توقع بھی بےجا ہے بقول ڈاکٹر سید عبداللہ ”اقبال نے تعلیم کے عملی پہلو¶ں پر کچھ زیادہ نہیں لکھا مگر ان کے افکار سے ایک تصور تعلیم ضرور پیدا ہوتا ہے جس کو اگر مرتب کرلیا جائے تو اس پر ایک مدرسہ تعلیم کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے” افراد و ملل کی زندگی میں تعلیم و تربیت کے جو اہمیت ہے وہ سب پر روشن ہے ہر قوم اپنے نصب العین،مقاصد حیات،تہذیب و تمدن اور اخلاق و معاشرت سے پہچانی جاتی ہے اور تمام چیزیں اس کے تعلیمی فلسفے کی پیداوار ہوتی ہیں اقبال جیسا بڑا مفکر اور شاعر ہوں قوم کی زندگی کے اس اہم عنصر سے کیسے غافل رہ سکتا تھا یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی پختہ فکری کے زمانے میں ملت اسلامیہ کے لیے ایک ایسا نظریہ تعلیم پیش کیا جس کی بنیاد پر ایک زندہ اور جاندار قوم کی تخلیق ممکن ہوسکتی ہے اقبال کے زمانے میں ہندوستان میں مسلمانوں کو دو قسم کے نظام ہائے تعلیم سے واسطہ پڑ رہا تھا یہ دونوں نظام ایک دوسرے کے متوازی چل رہے تھے اور مخصوص قسم کی نئی نسل پیدا کر رہے تھے ایک نظام قدیم دینی مدارس کا تھا جہاں صرف دینی علوم کی تعلیم دی جاتی تھی اور یہی کافی سمجھی جاتی تھی دوسرا نظام انگریزوں کی پیداوار تھا جس کا مقصد انگریزی انتظامی مشینری کے لیے کل پرزے ڈھا لنا تھا مغربی تعلیم کیا یہ نظام لارڈ میکالے نے تخلیق کیا تھا اس کا مقصد صرف اتنا تھا کہ یہ نوجوانوں کو حصول معاش میں مدد دے سکے اقبال کو ان دونوں تعلیمی نظاموں کی خرابیوں کا احساس تھا چنانچہ انہوں نے ان کے مضر اثرات پر نکتہ چینی کی ہے اقبال مغربی تعلیم کے اسی لئے خلاف ہیں کہ یہ مذہب سے بیزاری سکھاتی ہے ان کے خیال میں ملت اسلامیہ میں اتحاد پیدا کرنے کے لیے مذہب اسلام ہی واحد وسیلہ ہے اگر اسے بھلا دیا جائے یا اس کی روحانی تعلیمات سے روگردانی سکھائی جائے تو پھر امت کا شیرازہ منتشر ہوجائے گا جدید تعلیم جو انگریزی مدارس کی پیداوار ہے اس نے مسلمانوں سے ان کی اعلی اقدار چھین لی اور انہیں تن پروری، لاپرواہی، تعیش و آرام اور فیشن پرستی میں مبتلا کردیا اس نے عقل پرستی سکھا کر مسلمان نوجوانوں کے عقائد متزلزل کر دیئے اور انہیں اندھیروں میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیا اس نظام تعلیم نے انہیں احساس کمتری میں مبتلا کیا اور مغربی تہذیب و تمدن کی اندھی تقلید سکھائی
اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غمناک
نہ زندگی، نہ محبت، نہ معرفت، نہ نگاہ
قوم کیا چیز ہے قوموں کی امامت کیا ہے
اس کو کیا سمجھیں یہ بیچارے دو رکعت کے امام
گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے تیرا
کہاں سے آئے صدا لا الہ ا الا اللہ
شکایت ہے مجھے یارب خداوندان مکتب سے
سبق شاہین بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا
گرچہ مکتب کا جواں زندہ نظر آتا ہے
مردہ ہے مانگ کے لایا ہے فرنگی کا نفس
اقبال اس تعلیم کے سخت خلاف ہیں جس کا مقصد محض حصول معاش ہو انگریزی نظام تعلیم نے انسان کو روپیہ کمانے اور دنیاوی لذتوں سے لطف اندوز ہونے کے علاوہ کسی کام کے لیے نہیں چھوڑا موجودہ طریقہ تعلیم صرف معاش کا ایک ذریعہ ہے اور اسی چیز نے پوری قوم کو غلام بنا رکھا ہے اقبال کا فلسفہ تعلیم ان کے فلسفہ خودی کے تابع ہے تربیت خودی کے لیے وہ جس قسم کی تعلیم کہتے ہیں وہی دراصل ان کے فلسفہ تعلیم میں مرکزی کردار ادا کرتی ہے اقبال دنیاوی علوم کے حصول کے خلاف نہیں وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ یہ علوم دینی اقدار کے تابع رہیں اقبال کے نزدیک گویا علم کی دو شاخیں ہیں ایک طاغوتی علم جو انسان کو سرکشی اور خود سری سکھاتا ہے اور دوسرا لاہوتی علم جو اسے غلط راستے سے بچاتا ہے علم اگر باعشق ہو یعنی اس کی بنیاد روحانیت پر ہو اور اس کا مقصد انسانیت کی فلاح و بہبود ہو تو مفید ہے اور اگر علم روحانیت سے بیگانہ ہو تو بے فائدہ ہے کیونکہ انسانیت کی کوئی خدمت نہیں کرتا ایک نظریے میں ایک علم کی بنیاد عقل و حواس پر ہے اور دوسرے میں ایمان وجدان پر اقبال کے نزدیک یہ دونوں نظریے باہم متصادم نہیں ہونے چاہییں بلکہ ان کو آپس میں ملانا ضروری ہے یعنی وہ علم جو حواس ظاہری اور عقل کی مدد سے حاصل ہوتا ہے اور وہ علم جو روحانی قوت کی دین ہے دونوں کے ارتباط سے ہی صحیح قسم کا نظام تعلیم مرتب ہو سکتا ہے بس ظاہرہوا اقبال کے نزدیک دینی تعلیم بھی ضروری ہے اور دنیاوی تعلیم بھی اور ان کا آپس میں گہرا تعلق بھی ہونا چاہیے اقبال ایک ایسے نظام تعلیم کے خواہاں تھے جہاں معاش کے ساتھ اقدار کو جوڑا جاسکے
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ
اور یہ اہل کلیسا کا نظام تعلیم
ایک سازش ہے فقط دین و مروّت کے خلاف
وہ علم نہیں زہر ہے احرار کے حق میں
جس علم کا حاصل ہے جہاں میں دو کفِ جو
اقبال کا فلسفہ تعلیم کیونکہ ان کے فلسفہ خودی کے تابع ہے اس لیے وہ ہر اس شے کے حق میں ہیں جو تربیت خودی میں مدد دے اور ہر اس چیز کے خلاف ہیں جو خودی کو ضعیف کرے چنانچہ اقبال اسی تعلیم کے حق میں ہے جو خودی کی تربیت کرے اور اسے استحکام بخشے جو تعلیم یہ فریضہ انجام نہ دے سکے وہ اقبال کے نزدیک بے کار بلکہ مضر ہے اقبال کے تصور تعلیم میں بلند نصب العین کا بھی ایک خاص مقام ہے وہ چاہتے ہیں کہ نوجوانوں کے سامنے بلند عزائم اور اعلی وبرتر مقاصد ہو جن کے حصول کے لیے وہ اپنی زندگی وقف کر دیں ان کی نظر میں انسان وہی ہے جو ضمیر پاک و نگاہ بلند اور مستی شوق رکھے،چنانچہ وہ مسلمانوں کے لئے ایسے نظام تعلیم کو پسند کرتے ہیں جو ان کی آرزو¶ں اور حوصلے ہمیشہ جوان رکھے اور انہیں خوب سے خوب تر کی تلاش میں سرگرداں رکھے اگر تعلیم یہ ذوق و شوق پیدا نہیں کرسکتی تو وہ بیکار ہے
تعلیم کے تیزاب میں ڈال اپنی خودی کو
ہو جائے ملائم تو جدھر چاہے ادھر پھیر
وہی جوان ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا
شباب جس کا ہے بے داغ ضرب ہے کاری
ہم دیکھتے ہیں کہ اقبال نے جن دو مکاتب فکر پر بحث کی تھی وہ اب بھی کچھ شکلیں تبدیل کر کے موجود ہیں اور اقبال کو جس بات پر اعتراض تھا وہ بھی اسی طرح آج بھی موجود ہے مغربی نظام تعلیم آج پرائیویٹ اور انگلش میڈیم اسکول کے سسٹم میں موجود ہے جبکہ دینی حلقوں میں اسی طرح آج بھی تعلیم دی جا رہی ہے بلکہ ان کا حال پہلے سے بھی بدتر ہو چکا ہے لہذا اقبال جس نظام کی بات کرتے ہیں وہ نظام ابھی تک بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں رائج نہیں ہوسکا ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri