بھارت میں بی جے پی کے زیر اقتدار ریاست اتر پردیش میں ایک ہندوتوا تنظیم کے ارکان نے مسلمان بادشاہوں خاص طور پر ممتاز مغل بادشاہوں اورنگ زیب اور بابر کی تصاویر عوامی بیت الخلاﺅں اور پیشاب خانوں میں لگادی ہیں۔ یہ واقعات ضلع ہاپوڑ کے قصبے پلکھوا میں پیش آئے۔ زعفرانی اسکارف پہنے ہوئے انتہا پسند گروپ نے اس کارروائی کی فلم بندی کی اور فوٹیج سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر دی۔ویڈیو میں یہ گروپ مغل سلطنت کے بانی بابر اور سب سے طویل عرصے تک حکومت کرنے والے مغل بادشاہ اورنگ زیب کی تصاویر عوامی بیت الخلاﺅں کی دیواروںپر چسپاں کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ گروپ کے ارکان تصاویر لگانے کے بعد جوتوں سے مار کر تصاویر کی بے حرمتی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم نے سہولیات کا نام تبدیل کر دیا ہے۔چند دن پہلے اسی طرح کا ایک واقعہ دہلی میں پیش آیاجہاں ایک ہندوتوا تنظیم کے ارکان نے اکبر روڈ کے سائن بورڈ پر تھوکا اور پیشاب کیا۔یہ کارروائیاں ہندوتوا تنظیموں اور انتہا پسند سیاست دانوں کی زیر قیادت ایک وسیع تراور مربوط مہم کا حصہ ہیں۔ گزشتہ چند سالوں میں ان تنظیموں نے مغل دور کے تاریخی مقامات کے نام تبدیل کرنے کی کوششیں تیز کر دی ہیں جن میں شہروں۔ سڑکوں۔ اداروں اور یہاں تک کہ ا سکولوں کے نصاب میں شامل مغل سلطنت کے بارے میں ابواب بھی شامل ہیں۔اس مہم نے خاص طور پر بالی ووڈ کی فلم” چھاوا ”کی ریلیز کے بعد زور پکڑ لیا ہے جس میں اورنگ زیب کو ایک ولن کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ ان کارروائیوں سے فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافے اور نفرت پر مبنی حملوں کے خدشات پیدا ہوئے ہیں۔صرف مغل بادشاہوں کے ہی نہیں بھارت میں مسلم نام والے شہروں کے نام بھی تبدیل کیے جا رہے ہیں۔ مودی کے ہندوستان میں اب شہر بھی غیرمحفوظ مقبوضہ جموں و کشمیر اوربھارت میں مسلمانوں سے منسوب شہروں کے نام تبدیل کرنے کا کام تیز کر دیا گیا ہے۔بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ سنگم لال گپتا نے لکھنو کا نام لکشمن پور تبدیل کرنے کیلئے وزیر اعظم نریندر مودی کو مکتوب ارسال کردیا۔ مودی سرکار برصغیر کی تاریخ مسخ کرنے پر ت±ل گئی۔ ہندوتوا کے پیروکاروں نے نفرت کی آگ میں شہروں کو بھی نہ بخشا۔بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ سنگم لال گپتا نے یوگی ادیا ناتھ، ہوم منسٹر امت شاہ اور بھارتی وزیر اعظم مودی کو خط لکھ دیا۔لکھنوکا نام تبدیل کر کے لکشمن پور یا لکھن پور رکھنے کی تجویز دیدی۔28لاکھ کے شہر میں 29 فیصد مسلمان اور دیگر اقلیتیں ہیں۔600 سال پرانے شہر کا نام تبدیل کرنے کیلئے ہندوتوا کے پیروکاروں کی طرف سے مظاہرے بھی کیے جارہے ہیں۔شہروں کے نام تبدیل کرنے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ ماضی میں بھی مودی سرکار کئی شہروں کے نام ہندو طرز پر تبدیل کر چکی ہے۔ 2018میں الٰہ آباد کا نام پرایا گراج۔ 2021میں ہوشنک آباد کا نام نرمدہ پورم اور 2022میں عثمان آباد کا نام دراشیو رکھ دیا گیا۔ہندو انتہا پسند رہنماوو¿ں کی غازی پور کا نام وشوا مترا نگر اوربہرائچ کا نام سلدیو نگر رکھنے کی بھی تجویز دیدی۔ ریاستی وزیر اعلیٰ یوگی ادتیاناتھ اور ان کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی، جس سے تعلق رکھنے والے نریندر مودی نئی دہلی میں مرکزی حکومت کے سربراہ ہیں، نے ان تبدیلیوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ان شہروں کے نام بدل کر انہیں کوئی نئے نام نہیں دیے گئے، بلکہ ان کے محض پرانے اور تاریخی نام بحال کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کا موقف ہے کہ ان بھارتی شہروں کو یہ نام، جو اب بدل دیے گئے ہیں، ان مسلمان حکمرانوں نے دیے تھے، جو 1857ء میں برطانوی نوآبادیاتی دور کے آغاز تک بھارت پر حکمران رہے تھے۔ اسی تناظر میں فیض آباد کا نام ایودھیہ رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ یوگی ادتیاناتھ کا کہنا تھا، ”ایودھیہ ہمارے لیے عزت، فخر اور تکریم کی علامت ہے۔“اس کے علاوہ مغربی ریاست گجرات میں بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت میں ریاستی حکومت اس بارے میں غور کر رہی ہے کہ احمد آباد کا نام بدل کر ’کارن وتی‘ رکھ دیا جائے۔ یہی نہیں بلکہ جنوبی ریاست تلنگانہ میں وزیر اعظم نریندر مودی کی جماعت ہی سے تعلق رکھنے والے ایک رکن پارلیمان راجہ سنگھ نے بھی حال ہی میں یہ تجویز پیش کر دی تھی کہ ریاستی دارالحکومت حیدر آباد کا نام بدل کر بھاگیا نگر رکھ دیا جائے۔اسی طرح شمالی ریاست بہار میں بے جے پی کے ایک رکن پارلیمان گری راج کشور نے یہ مطالبہ کر دیا کہ بختیار پور کا نام بھی بدل دیا جائے۔ اسی طرح یہ کوششیں بھی کی جا چکی ہیں کہ دنیا بھر میں اپنے ہاں واقع تاج محل کی وجہ سے مشہور شہر آگرہ کا نام بھی بدل کر آگراوان یا اگراوال رکھ دیا جائے۔ مزید یہ کہ نئی دہلی میں حکمران ہندو قوم پرست جماعت ہی سے تعلق رکھنے والے ایک رکن پارلیمان سنگیت سوم کی بھی یہ خواہش ہے کہ شہر مظفر نگر کا نام بھی بدل کر لکشمی نگر کر دیا جائے ۔ بھارت میں مختلف شہروں، ہوائی اڈوں اور مشہور سڑکوں تک کے نام تبدیل کیے جانے کی یہ سوچ صرف اتر پردیش تک ہی محدود نہیں۔ ایسے متعدد فیصلے بھارت کی ان دیگر ریاستوں میں بھی کیے جا چکے ہیں، جہاں ریاستی حکومتی سربراہان کا تعلق بی جے پی سے ہے۔ سوال اٹھتا ہے کیا نفرت کی اس اندھی آگ میں بھارتی اقلیتیں اپنے آپ کو محفوظ تصور کرتی ہیں؟کیا مسلم تشخص مسخ کرنے سے برصغیر کی تاریخ ختم کی جاسکتی ہے؟عالمی میڈیا سوال اٹھا رہا ہے کہ کیا ہندو انتہا پسندی کہیں ختم ہو گی بھی یا نہیں؟