انسانی سمگلنگ، ایک ایسا غیر انسانی اور سفاک جرم ہے جس کی جڑیں معاشرتی، معاشی اور انتظامی کمزوریوں میں پیوست ہیں۔ یہ محض قانونی یا سیکیورٹی چیلنج نہیں بلکہ ایک اخلاقی، سماجی اور انسانی المیہ ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان ان ممالک کی فہرست میں شامل ہے جہاں سے ہزاروں افراد ہر سال بہتر مستقبل کے خواب لیے غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے کی کوشش کرتے ہیں اور اکثر سمندر کی بے رحم موجوں، صحرائوں کی سنگدلی اور انسانی سمگلروں کی درندگی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ پاکستان سے ہزاروں افراد غیر قانونی طور پر بیرون ملک گئے۔ ان میں اکثریت نوجوانوں کی تھی جو غربت، بیروزگاری اور بہتر زندگی کی خواہش میں انسانی سمگلروں کا آسان شکار بنے۔ یہ سمگلر نہ صرف بحری اور بری راستوں سے انسانوں کو غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک منتقل کرتے ہیں، بلکہ عورتوں اور بچوں کو جنسی استحصال کیلئے جبکہ مردوں کو جبری مشقت اور غلامی جیسے حالات میں جھونک دیتے ہیں۔پاکستان سے یورپ جانے کے روایتی راستے بند ہونے کے بعد انسانی سمگلنگ کے نیٹ ورک اب افریقی ممالک جیسے لیبیا، مراکش اور تیونس کے ذریعے یورپ میں داخلے کی راہیں تلاش کر رہے ہیں۔ کشتی حادثات جن میں سینکڑوں پاکستانی نوجوان لقمہ اجل بنے، اس غیر انسانی کاروبار کی ہولناکی کا ثبوت ہیں ۔ حکومتِ پاکستان نے حالیہ برسوں میں انسانی سمگلنگ کیخلاف کئی اہم اقدامات کیے ہیں۔ سینیٹ میں تین اہم ترامیمی بل پیش کیے گئے جن میں انسانی ٹریفکنگ کی روک تھام کا ترمیمی بل اور مہاجرین کی سمگلنگ کی روک تھام کا ترمیمی بل شامل ہے ان قوانین کے تحت انسانی سمگلنگ میں ملوث افراد کو 14 سال تک قید اور 20 لاکھ روپے تک جرمانے کی سزا تجویز کی گئی ۔ جعلی دستاویزات بنانیوالوں اور غیر قانونی امیگریشن میں معاونت کرنے والوں کو بھی سخت سزائیں دی جائیں گی ۔ ایک اور اہم پیش رفت یہ ہے کہ حکومت نے اسلام آباد ایئرپورٹ پر ایک جدیدآرٹیفیشل انٹیلیجنس ایپ کا پائلٹ پروجیکٹ شروع کیا ہے۔ یہ ایپ مسافروں کے ڈیٹا کا تجزیہ کرے گی اور مشکوک افراد کی شناخت میں مدد دے گی۔ اس اقدام کا مقصد نہ صرف انسانی سمگلنگ کی بروقت شناخت ہے بلکہ مستقبل میں اس کا مکمل خاتمہ ہے۔ان اقدامات کے ساتھ ساتھ ایف آئی اے میں موجود "کالی بھیڑوں” کے خلاف کارروائی بھی خوش آئند ہے۔ حکومت نے سمگلروں کے سہولت کاروں کیخلاف انکوائریاں شروع کی ہیں اور بعض اہلکاروں کو سزائیں بھی سنائی جا چکی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وزیرِاعظم نے انسانی سمگلروں کی گرفتاری میں کردار ادا کرنے والے اہلکاروں کے لیے انعامات کا اعلان بھی کیا ہے، جو حوصلہ افزائی کی ایک بہتر صورت ہے۔ نئے قوانین میں بچوں اور خواتین کی جنسی سمگلنگ کو الگ سے جرم قرار دیا گیا ہے۔ اگر کوئی فرد کسی خاتون یا بچے کو جنسی استحصال کیلئے بھرتی، پناہ، یا منتقل کرتا ہے تو اسے 14 سال قید اور 20 لاکھ روپے تک جرمانے کی سزا دی جائے گی۔ یہ ترمیم اس حساس اور سنگین جرم کی روک تھام کی جانب ایک مضبوط قدم ہے۔ حکومت اور متعلقہ ادارے اگرچہ اپنی سی کوشش کر رہے ہیں، لیکن زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ یہ اقدامات ابھی ناکافی ہیں۔ موجودہ قوانین پر موثر عمل درآمد اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی استعداد میں اضافہ ناگزیر ہے۔ ان میں کرپشن کی روک تھام اور احتساب کا مضبوط نظام بھی شامل ہے۔ سرحدوں ، ژخاص طور پر ایران، بلوچستان، اور دیگر حساس مقامات پر نگرانی کا نظام مزید بہتر بنانا ہوگا۔ ایف آئی اے اور دیگر اداروں کو عالمی سطح پر مربوط کرنے کیلئے نادرا سمیت 12 ممالک کے ساتھ آن لائن ڈیٹا شیئرنگ کا جامع پلان خوش آئند ہے لیکن اس پر مکمل اور عملی عمل درآمد ضروری ہے ۔ سمگلنگ کے مسئلے کی جڑ غربت اور معاشی عدم استحکام ہے۔ جب تک ملک میں روزگار کے مواقع پیدا نہیں ہوں گے، انسانی سمگلنگ کیلئے مارکیٹ موجود رہے گی۔ حکومت کو چاہیے کہ نوجوانوں میں آگاہی پیدا کرے اور میڈیا کے ذریعے غیر قانونی سفر کے خطرناک نتائج سے عوام کو باخبر کرے۔انسانی سمگلنگ عالمی مسئلہ ہے لیکن اس کا حل قومی سطح پر موثر، مسلسل اور غیر جانبدار اقدامات میں ہے۔ ہمیں نہ صرف قانون کو سخت کرنا ہے بلکہ اسے عمل درآمد کی سطح پر بھی ایمانداری سے نافذ کرنا ہے۔ جب تک ہر مجرم کو انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا جاتااور ہر متاثرہ فرد کو تحفظ، انصاف اور بحالی نہیں ملتی، تب تک یہ جنگ ادھوری رہے گی۔
انسانی سمگلنگ عالمی مسئلہ، قومی ذمے داری
