اگر قرآن مجید فرقان حمید اور احادیث مبارکہ کا مطالعہ کیا جائے تو سینکڑوں مقامات پر خداوند لایزال کے پاک کلام اور احادیث مبارکہﷺ میں عدل اور انصاف کا ذکر کیا گیا ہے ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کابہت مشہور و معروف فرمان ہے کہ ملک کفر سے چل سکتی ہے مگر انصاف کے بغیر نہیں چل سکتی۔انگریزی کا ایک ضرب المثل ہے Justic delayed justice deniedکہ انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار کے مترادف ہے۔اس وقت پاکستان کو بہت سارے اندرونی اور بیرونی مسائل کے ساتھ ساتھ عوام کو انصاف کی فراہمی میں سستی اور کاہلی کا مسئلہ بھی درپیش ہے ۔ میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا مگر پھر بھی ٹرانسپرنسی انٹر نیشنل کے مطابق وطن عزیز میں کرپشن اور بد عنوانی میں پولیس سر فہرست اور عدلیہ دوسرے نمبر پر ہے ۔ دوسرے عالمی سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان انصاف کی فراہمی میں دنیا کے 180 ممالک میں 120 ویں نمبر پر ہے ۔ فی الوقت عدالتوں میں تقریباً 21 لاکھ کیسز زیر التوا ہیں جس میں سپریم کورٹ میں تقریباً 51138 کیسز التوا کا شکار ہیں۔خیبر پختون خوا میں کل زیر التوا کیسوں کی تعداد 2 لاکھ 40 ہزار اور 43 ہے انصاف کی راہ میں اس قسم کی سست رفتاری سے عوام کا اعتماد عدلیہ سے اُٹھتا جا رہا ہے۔جو نہ صرف ملک کے 22 کروڑ عوام بلکہ معزز عدلیہ کے حق میں بھی نہیں۔اس سے معزز عدلیہ کی تضحیک اور توہین ہو رہی ہوتی ہے۔ اور آئے دن عدلیہ کی استحکام و سلامتی یعنیSolidarity & Integrity پر تابڑ توڑ حملے اور انصاف کی راہ میں رکاوٹوں پر ببحث مبا حثے ہو رہے ہوتے ہیں۔معزز سپریم کو رٹ نے مختلف کیسوں کو شفافیت اور انصاف سے حل کرنے کے لئے 2009 کی جو جوڈیشل پالیسی بنائی ہے اسی پالیسی کے مطابق ہر قسم کے عدالتی کیسوں کے حل کرنے کے لئے ٹائم فریم یعنی وقت مقرر ہے ۔ مثلاً دیوانی مقدمات کے حل کے لئے معزز سپریم کورٹ نے ایک سال کا وقت مقرر کیا ہے۔فیملی مقدمات کیس فیصلہ کرنے کے لئے 6 ماہ وقت مقرر ہے۔کرایہ داری کیسز کے لئے ٹائم فریم یا وقت مقررہ 4 ماہ ، تعزیرات پاکستان میں 7سال تک سزا پانے والوں کو کیسز کے لئے مقررہ وقت 6 ماہ، سات7 سال سے اوپر سزاﺅں والے کیسز میں فیصلہ کرنے کے لئے ٹائم فریم ایک سال، سول کیسز میں حکم امتناعی درخواست فیصلہ کرنے کے لئے 15 دن ، منشیات کیس کےلئے ٹائم فریم 6 مہینے، غیر قانونی بے دخلی کے لئے کیس کے لئے ٹائم فریم 60 دن، ضنمانت درخواست فیصلہ کرنے کےلئے جوڈیشل مجسٹریٹ کے لئے ٹائم فریم 3 دن ، سیشن اور ایڈیشنل ججز کے لئے اسی کیس میں ٹائم فریم 5 دن اور ہائی کورٹ کے لئے ضنمانت درخواست فیصلہ کرنے کے لئے 15 دن مقرر ہیں۔اگر ہم سپریم کو رٹ کے مندرجہ بالا واضح اخکاما ت پر نظر ڈالیں تو بد قسمتی سے ما تخت عدلیہ سپریم کو رٹ کے اخکامات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں خاطر خوا کامیابی حا صل نہ کرسکی۔ اس میں صرف عدلیہ کا قصور نہیں بلکہ ساتھ ساتھ وکلا ، ریڈر حضرات بھی اس میں برابر کے قصوروار ہیں ۔ اگر دیکھا جائے تو ریڈر حضرات اس لیول کے نہیں ہوتے جس لیول اور معیاری فیصلہ سازی کے لئے سکل اور تجربے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ریڈرحضرات کم ازکم قانون کا گریجوئیٹ ہونا چاہئے۔ تاکہ وہ سپریم کو رٹ اور لا کمیشن کی قومی پالیسیوں کو سمجھ سکیں اور ججز کے ساتھ باہم ملکر اسکو احسن طریقے سے Translate اورنا فذ کرنے میں مدد دے سکیں ۔ بد قسمتی سے وہ سائلین کو بغیر کسی لاجک کے تاریخ پہ تاریخ دے رہے ہوتے ہیں اور آخر میںوہ ملک کے سست عدالتی نظام سے تنگ آکر قانون خود اپنے ہاتھوں میں لیتے ہیں۔معزز ہائی کورٹ سے استد عاہے کہ وہ ما تخت عدالتوں کے وقتاً بوقتاً وزٹ کریں ۔ علاوہ ازیں ججز حضرات کی استعداد کارمیں کمی بیشی کو بھی ریفریشر کورسس سے دور کیا جائے ۔معزز ججز حضرات کو کیسز وائنڈنگ اپ کرنے یعنی منطقی انجام تک پہنچانے، فیصلہ سازی قوت بڑھانے اور کیس ڈرافٹنگ میں کافی مشکلات پیش آتی ہیں ۔ جس کے لئے ضروری ہے کہ انکے اس قسم کے پیشہ ورانہ کمزوریوں کوCapacity Enhancing measures سے دور کیا جائے۔ میں ایک سینیٹر کے اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ وکلا بار کونسل کے قوانین تبدیلی لانی چاہئے اور انکو قانوناً اس بات کا پابند بنانا چاہئے کہ بار بھی مختلف کیسوں میں مقررہ وقت پر پیشی کریں اور مختلف بہانے نہ بنائیں۔ محترم سینیٹر کی یہ بات بھی بجا ہے کہ ججز کی تعداد بڑھانی چاہئے اور ججز حضرات کی جو 1048 خالی آسامیاں ہیں انکو پر کرنی چاہئے۔انکا دوسرے شفٹ کے بارے میں اور جو ڈیشل کیسز میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ویڈیولنک کی تجاویز انتہائی اہم ہیں۔اور جو کیسز گذشتہ 5 سال سے لیکر 15 سال تک التواکا شکار ہیں وہ حل ہوجائیں گے۔کسی بھی معاشرے میں انصاف کی فراہمی کا انتہائی اہم اور کلیدی کردار ہوتا ہے ۔ اگر عوام کے مسائل ہونگے تو وہ عدلیہ کو دعائیںدیں گے ۔کیونکہ بروقت انصاف نہ ملنے کی وجہ عوام اور سائلین عدم تحفظ کا شکار ہوتے ہیں، پسماندہ اور کمزور طبقات الیٹ اور اشرافیہ کے ظلم اور بربریے کا شکار ہو تے ہیں۔ آج کل جو جس بھی کسی کے لئے بھی دعا دیتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اللہ تھانے ، ہسپتال اور عدالتوں سے بچائیں حالانکہ یہ وہ ادارے ہیں جو انصاف کے حصول، علاج معالجے اور تحفظ فراہم کرنے کے لئے بنائے ہوتے ہیں ۔ بد قسمتی سے غریب سائلین سالہا سال انصاف کے حصول کے لئے ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر دنیا فانی سے کو چ کرجاتے ہیںاور یہی وجہ ہے کہ آج کل لوگ قتل اور دوسرے کیسوں کے رپورٹ درج نہیں کرتے کیونکہ وہ سوچتے ہیں کہ ریاست اور عدلیہ سے مسائل ہوتے نہیں جسکی وجہ سے وہ قانوں کو خود اپنے ہاتھوں لیتے ہیں۔