لیفٹیننٹ جنرل (ر)فیض حمید کو کورٹ مارشل کے بعدچودہ سال قید با مشقت سزا دے دی گئی ہے۔ ایسی سزائیں ان کے ساتھی کرداروں کو بھی دیں تانکہ انصاف ہوتا ہوا دکھائی دے۔ کورٹ مارشل کرنے کا واقعہ تاریخی اہمیت رکھتا ہے۔ فیض حمید پہلے پاکستانی فوجی افسر نہیں جن کا کورٹ مارشل ہوا ہے ۔ لیکن وہ پہلے سابق ڈی جی آئی ایس آئی ہیں جنہیں کورٹ مارشل کے بعد قید کی سزا ہونی ہے۔ فیض حمید کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت کیس چلایا گیا۔ ان کے خلاف سنگین الزامات تھے ۔یہ الزامات ثابت ہونے پر فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے انہیں 14 سال قیدِ با مشقت کی سزا سنائی ہے۔ فیض حمید پر کیس کا پس منظر اور الزامات کی تفصیل کچھ یوں بتائی جاتی ہے کہ ان کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی 12 اگست 2024 کو شروع ہوئی اور 15 ماہ تک جاری رہنے کے بعد یہ سزا اب انہیں سنا دی گئی ہے۔ اس سزا کے بعد انہیں اب اپیل کا حق حاصل ہے۔ الزامات جو ثابت ہو چکے ہیں اتنے سنگین نوعیت کے ہیں کہ اپیل منظور ہونے کی امید نہیں دکھائی دیتی۔کہا جاتا ہے فیض حمید نے سروس کے دوران استعفیٰ دیا تھا۔
اس کیس میں کہا جاتا ہے جو الزامات ثابت ہوئے ہیں وہ یہ ہیں۔سروس کے دوران اور سروس کے فوری بعد سیاست میں اپنا رول ادا کرتے رہے جبکہ ان کا سیاسی سرگرمیوں میں ملوث رہنا فوجی قوانین کے برخلاف اور سیاسی معاملات میں مداخلت تھی ایسا کر کے آفیشل سیکرٹس ایکٹ کی انہوں نے خلاف فرضی کی۔ ریاست کی سلامتی اور مفاد کے خلاف خفیہ معلومات کا غلط استعمال کیا۔ ایک نجی سوسائٹی کے مالک نے اس کے خلاف سپریم کورٹ میں کیس کیا تھا کہ اس نے اپنے عہدے کا ناجائز فائدہ اٹھا کر ہمیں تشدد کا نہ صرف نشانہ بنایا بلکہ گھریلو زیورات اور کرنسی کی لوٹ مار کی۔پیپروں پر زبردستی دستخط کرا کر پلاٹ اپنی مرضی سے دوسروں کینام کروائے۔ جس پر کورٹ نے ان کے ادارے کو فوجی ایکٹ کے تحت ان پر مقدمہ چلانے کا حکم صادر کیا۔ جس کے بعد فیض حمید کے خلاف کورٹ مارشل کی کاروائی شروع ہوئی۔ اس کیس میں یہ ثابت ہوا کہ انہوں نے اختیارات اور سرکاری وسائل کا بھی غلط استعمال کیا۔کہا جاتا ہے ان پر یہ بھی الزام ہے کہ فیض حمید نے جوڈیشری سے غلط فیصلے کرا کر نوازشریف کو وزیر اعظم سے گھر بھیجا تھا ۔سروس کے دوران سیاست دانوں بزنس مینوں کو مالی نقصان پہنچایاکرتے تھے۔نو مئی کے واقع میں بھی ملوث ہیں۔ یہ سب ثابت ہونے پر اب کورٹ مارشل نے انہیں مجرم قرار دے کر 14سال قیدِ با مشقت کی سزا سنائی ہے۔یہ پاکستان کی تاریخ کا ڈی جی آئی ایس آئی کا پہلا کورٹ مارشل کیا گیا ہے۔ جس میں کسی سابق ڈی جی آئی ایس آئی چیف کو کورٹ مارشل کے ذریعے سزا سنائی ہوئی ہے ۔کہا جارہا ہے اس کے بعد اس کیس کی لپیٹ میں مزید مگرمچھ بھی آئیں گے۔ ان میں سپریم کورٹ کے وہ ججز بھی شامل ہیں جنھوں نے فیض حمید کے کہنے پر سیاسی فیصلے لکھے ۔ ان کے خلاف بھی گیرا تنگ ہو رہا ہے۔ ایسے ججز کی مراحات پنشن اور بنائی گئی جائدادیں واپس لے لی جائیں گیں۔
یہ بھی امید کی جا رہی ہے اس کیس میں جنرل باجوہ سمیت وہ جرلز بھی ائیں گے جنھوں نے عمران خان کو سیاسی لیڈر بنایا جتایا اور وزیراعظم بنوایا۔ عمران خان کو فیض حمید جیسوں نے استعمال کیا اور استعمال ہوئے ۔ عمران خان سیاستدان نہیں ہے۔لہٰذا اسے سزا نہ دی جائے۔سزا انہیں دی جائے جنھوں نے اس کو اس کام پر لگایا مال بنایا اس میں عمران خان کی بیگم بشری شامل ہے جس نے فیض حمید کے ساتھ مل کر جنات کا ڈرامہ رچاتے رہے۔ عمران خان کو بے وقوف بناتے رہے۔ دنیا بھر میں جرنیلوں کے کورٹ مارشل کی مثالیں تو ہیں مگر پاکستان میں فیض حمید کا کیس تاریخی ہے،پاکستان میں اعلیٰ عسکری افسران کے خلاف کورٹ مارشل یا فوجی ماضی میں ٹرائلز ہوتے رہے ہیں۔ فوجی قانون و عسکری نظم و ضبط کے تحت اعلیٰ افسران کے خلاف کارروائی کرنے کی قانون اجازت دیتا ہے۔ فیض حمید کو فیلڈ جنرل کورٹ مارشل میں سیاسی سرگرمیوں، سرکاری رازوں کی خلاف ورزی، اختیارات کے غلط استعمال اورنقصان پہنچانے کے الزامات پر سزا دی گئی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں ایک غیر معمولی اور نادر واقعہ ہے، خاص طور پر ایک سابق ڈی جی آئی ایس آئی چیف کے خلاف یہ پہلا کیس ہے۔
اس سے پہلے پاکستان نیوی کے سابق سربراہ ایڈمرل منصورالحق کا مشہور اسکینڈل سامنے ا چکا ہے ۔ یہ پاکستان کی عسکری تاریخ کے بڑے کرپشن کیسز میں شمار ہوتا ہے۔ ایڈمرل منصورالحق چیف آف نیول اسٹاف 1994تا 1997کے عرصہ تک رہے۔ وہ پاکستان نیوی کے سربراہ تھے اور بعد ازاں ایک بڑے مالی اسکینڈل میں ملوث پائے گئے یہ کیس فرانس سے آبدوزوں کی خریداری سے متعلق تھا۔رشوت لینے کا الزام ایڈمرل منصورالحق پر یہ تھا کہ انہوں نے فرانسیسی دفاعی کمپنیوں سے کروڑوں ڈالر کے رشوت لی یہ رشوت آبدوزوں کے معاہدے کو منظور کرانے کے بدلے دی گئی ۔ رشوت کی رقم مختلف رپورٹس کے مطابق تقریبا 7 سے 8 ملین امریکی ڈالر تھی یہ رقم غیر ملکی بینک اکانٹس میں جمع کروائی گئی ۔پھر یہ رقم سمیت خود بھی امریکہ میں شفٹ ہو گئے۔ وہاں انہوں نے بادشاہ بن کر لگژری گاڑیاں نوکر چاکر فارم ہاؤس میں رہنا شروع کر دیا ۔ اگر یہ پاکستان میں ہی رہتے تو یہ رشوت کا مال ہضم کر چکے ہوتے اور کوئی انہیں پوچھتا نہ مگر امریکہ میں ایسے لوگ پکڑے جاتے ہیں ۔یہ وہاں کا شہری نہیں تھا۔ جس پر انکے خلاف منی لانڈرنگ کا کیس بنااور اسے حراست میں لے لیاگیا تھا۔وہاں عام قیدیوں کیساتھ اسے جیل میں رکھا گیا۔ امریکن قانون اس کی اجازت دیتا ہے کہ اگر ملزم چاہے تو یہ جس ملک کا شہری ہو اسے اس ملک میں واپس بھیجا جا سکتا ہے اگر امریکا میں چاہے تو اس کا کیس یہاں امریکہ کے قانون کے مطابق چلے گا۔ملزم نے کہا کہ میرا کیس پاکستان میں چلایا جائے۔لہٰذا انہیں ہتھکڑی لگا کر پاکستان کیلئے جہاز میں بٹھایا گیا۔ جب جہاز پاکستانی حدود میں داخل ہوا تو اس کو چیف نیول جیسا سلوک کرنا شروع کر دیا۔ لگژری گاڑیاں کے ساتھ لگژری جگہ پر مہمان بنا کر انہیں رکھا گیا۔ کہا گیا کہ اس کے خلاف سول میں کیس نیب میں چلے گا۔ وہاں پہلے سے پری بارگین کا قانون موجود تھا۔ اسکے تحت اس نے کچھ رقم نیب کو دے کر آزادی حاصل کر لی۔
یہ کیس اس لیے تاریخی تھا کیونکہ پہلی بار کسی چیف آف نیول اسٹاف پر بین الاقوامی سطح پررشوت اور منی لانڈرنگ ثابت ہوئی ۔ اس اسکینڈل کی بعد فرانس میں بھی تحقیقات ہونی رشوت دینے والوں کو سزائیں ہوئیں۔فیض حمید کو پہلی بار سزا اس ملک کے قانون نے دی ہے ۔ اس سے پہلے یہاں کے اس جیسے بڑوں کو سزائیں یہاں کے قانون نے نہیں اللہ تعالیٰ دیں۔کہا جاتا ہے اب اس سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے باجوہ، پنکی اور ججز کو بھی سزائیں دی جائیں گی ۔کہا جاتا ہے بشری بی بی اور فیض نے ملکر عمران خان پر جادو کا ڈرامہ رچایا کرتے تھے۔ یہ کوئی جنات یا جادو نہیں تھا۔ فیض پہلے سے بشری بی بی کو بتا دیتا تھا اور پھر یہ جادو کا ڈرامہ رچا کر عمران خان کو متاثر کرتی تھی۔لہذا ان کے خلاف بھی مقدمات چلائے جائیں گے۔ ان کو بھی لپیٹ میں لیا جائے گا جو عمران کو لیڈر وزیر اعظم بناتے رہے اور نو مئی کے خوفناک ڈرامہ رچاتے رہے۔ ان ججز کے خلاف جو سیاسی فیصلے فیض حمید کے کہنے پر کرتے رہے ان کی مراحات پنشن جائیدادیں ضبط کی جائیں گی یہی انصاف کا تقاضا بھی ہے۔
کالم
انصاف ہوتا ہوا دکھائی دے
- by web desk
- دسمبر 15, 2025
- 0 Comments
- Less than a minute
- 123 Views
- 2 ہفتے ago

