جب ذات پات اور مذہبی منافرت ایک معاشرے کو قابو کر لیں تو وہاں جمہوریت محض کاغذی رہ جاتی ہے۔ وہاں پر آمریت اور تشدد کا راج ہوتا ہے۔ بھارتی ریاست اڑیسہ کے گاؤں کندیجوری میں تین ستمبر 2025 کو ایک دلت 35 سالہ کشور چمار اپنے ساتھی گوتم نائک کے ہمراہ مردہ گائے کی کھال اتار کر گوشت کاٹ رہے تھے کہ ہندو ہجوم نے وحشیانہ طور پر قتل کر دیا۔ یہ بھارت میں نظامی ذات پات کے تشدد، تقسیم، بے حسی اور پسماندہ طبقات کی حفاظت میں ریاست کی ناکامی کو بے نقاب کرتا ہے۔کشور چمار نے ہجوم کے سامنے وضاحت اور اپیل کی لیکن ہجوم نے ان کی کوئی بات سنے بغیر قصوروار قرار دے دیا۔ زمین پر گھسیٹا اور بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس کا ساتھی نائک بمشکل اپنی جان بچا سکا۔
یہ گائے ویجلینٹزم نہیں بلکہ ایک وحشیانہ یاد دہانی تھی کہ ذات پات ہی تشدد کی بنیاد ہے۔ نچلی ذات کے ہندوؤں کے ساتھ متعصبانہ رویہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ شائننگ انڈیا میں اقلیتیں محفوظ نہیں۔ مودی سرکار نے گاؤ رکشک کے نام پر پولیس سرپرستی میں اپنے کارکنوں اور حامیوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے کہ کسی کو بھی مشتبہ ٹھہرا کر زمین پر گھسیٹیں، لاٹھیوں اور پتھروں سے ماریں اور پھر نعرے لگاتے ہوئے جشن منائیں۔یہ سوال اٹھتا ہے کہ یہ وہی بھارت ہے جو دنیا کو سب سے بڑی جمہوریت کا سرٹیفیکیٹ بانٹتا ہے یا وہ بھارت جو ذات پات اور مذہبی جنون کا حامی اور قیدی ہے؟ کشور چمار کے ساتھ واقعہ حادثہ نہیں بلکہ یاد دہانی ہے کہ بھارت میں ذات پات ہی اصل ہے، دلت ہونا ہی جرم ہے۔ اس قتل پر کانگرس کے سینئر رہنما نیرن جن پٹنا نے بی جے پی سرکار کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ مودی حکومت پسماندہ طبقات کے تحفظ میں ناکام ہو چکی ہے۔ دلت مصنف لوکیش باگ نے زیادہ سیدھی بات کہی کہ یہ گائے کا تنازع نہیں بلکہ ذات پات کا وحشیانہ تشدد ہے۔ ان کے الفاظ ایک وارننگ ہیں کہ قتل سے ذلت تک خاموشی بھی جرم ہے۔کندیجوری میں وہی کچھ ہوا جس کی پیش گوئی برسوں پہلیڈاکٹر امبیڈکر نے کی تھیکہ ذات پات کا زہربھارت کی جمہوریت کو کھا جائے گا۔بھارت میں اقلیتوں کے حق میں بولناجرات ہے کیونکہ وہاں خاموش رہنا ہی محفوظ سمجھا جاتا ہے۔نہ جانے کتنے لوکیش باگ ابھرتے رہیں گیاور کتنے کشور چمارزمین پر گھسیٹتے گھسیٹتے دم توڑتے رہیں گے۔اڑیسہ کا حالیہ واقعہ ایک تاریک نظامی پیٹرن کا حصہ ہے۔
بھارت کے 20 کروڑ دلت جو مجموعی آبادی کا تقریباً 17 فیصد بنتے ہیں، ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں مسلسل ذلت، حملے اور موت کے خطرے میں زندگی گزار رہے ہیں۔این سی آر بی کی 2023 کی رپورٹ کے مطابق 2022 میں دلتوں کے خلاف 57 ہزار سے زائد مقدمات درج ہوئے یعنی اوسطاً یومیہ 156 کیسز رجسٹرڈ کیے گئے۔ یہ تعداد دہشت گردی کے واقعات سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ سِٹیزن فار جسٹس اینڈ پیس کے مطابق اپریل تا جون 2025 میں بھارت کی نو ریاستوں میں دلتوں پر 30 بڑے مظالم ریکارڈ کیے گئے جن میں قتل، جنسی زیادتی اور سماجی بائیکاٹ شامل ہیں۔ یہ محض اعداد و شمار نہیں بلکہ ثبوت ہیں کہ بھارت دلتوں کے انسانی حقوق یقینی بنانے میں ناکام رہا ہے۔ذات پات کی دہشت کے ساتھ بھارت جمہوری ریاست نہیں ہو سکتا۔ جب ہجوم لاٹھی، پتھر اور بے حسی کے ساتھ ذات پات کا نظام نافذ کرتا ہے تو ہر اقدام آئین کو کھوکھلا کرتا ہے۔ بھارت ایک فاشسٹ ملک بن چکا ہے۔بھارت کا آئین یکساں حقوق کا وعدہ کرتا ہے لیکن جب ہجوم قانون ہاتھ میں لے اور پولیس تماشائی کا کردار ادا کرے تو سب سمجھ لیں کہ آئین صرف کتاب تک محدود ہے اور جمہوریت کا ڈھونگ دراصل فاشزم کی حکمرانی کو پوشیدہ رکھنے کی کوشش ہے۔انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر عالمی اداروں کو بھارت کا محاسبہ کرنا چاہیے۔ ذات پات کے خلاف قانونی و سماجی اصلاحات کیے بغیر بھارت جمہوریت کا لبادہ اوڑھنے کا اہل نہیں۔بھارت کی تاریخ میں ہجومی تشدد کی وارداتیں عرصہ قدیم سے چلی آرہی ہیں۔ ان واقعات کی وجوہات ہر دور میں مختلف رہیں ہیں۔ چوں کہ بھارت کی سرزمین پر ایک ایسا تکثیری معاشرہ آباد رہا ہے جس میں ذات پات اور چھوت چھات کے نظام کو اہل مذہب کی پشت پناہی حاصل رہی، لہٰذا اعلیٰ ذات کے اشخاص یا شرفا چھوٹی امت کے افراد کو ان کی معمولی لغزشوں کی بنا پر بے جا تشدد کا نشانہ بناتے اور انھیں سخت زدوکوب کرتے آئے ہیں۔ بسا اوقات یہ معمولی لغزشیں کوئی غلطی نہیں بلکہ ایک انسانی عمل ہوتا جس کی پاداش میں مبینہ ملزم کو پیٹ پیٹ کر ابدی نیند سْلا دیا جاتا۔ ہجومی تشدد کی کچھ وجوہات قدیم زمانے سے چلی آ رہی ہیں اور بعض جدید دور میں سیاسی مفادات کے تحت سامنے آئی ہیں۔ قدیم وارداتوں میں توہمات یا سماجی روایتوں کے زیر اثر اور مخصوص انداز میں کسی گروہ کے تشدد پر اتر آنے کے واقعات ملتے ہیں جبکہ موجودہ دور میں بچوں کے اغواء یا ان کی چوری، سماج کے مختلف طبقوں کے بیچ پائی جانے والی یا پھیلی ہوئی نفرت، ناجائز جنسی تعلقات، مذہبی عداوت اور اسی قسم کی دیگر فرضی خبروں کی سماجی ذرائع ابلاغ پر نشر و اشاعت سے برپا ہونے والے تشدد کے واقعات زیادہ ہیں۔ نیز موجودہ دور کے بھارت میں کسی ایک مخصوص برادری کے افراد پر مزعومہ گاؤ کشی یا گایوں کی خرید و فروخت کا الزام عائد کرکے انھیں وحشیانہ ہجومی تشدد کے ذریعہ موت کے گھاٹ اتارنے کی سیکڑوں وارداتیں بھی سامنے آئی ہیں۔
کالم
اڑیسہ میں ہجوم کے ہاتھوں دلت کا قتل
- by web desk
- اکتوبر 13, 2025
- 0 Comments
- Less than a minute
- 130 Views
- 2 مہینے ago

