Site icon Daily Pakistan

بجلی بحران اورمتبادل ذرائع

ajaz-ahmed

اگر ہم غور کریں تو اس وقت بجلی اور سوئی گیس کی انتہائی لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے ۔صبح سے لیکر شام تک بجلی اور سوئی گیس دونوں غائب ہوتے رہتی ہیں۔ بےشک ماضی قریب میں عمران خان حکومت کے کئی خامیوں پر انگلی اُٹھائی جا سکتی ہے مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ اسکے خیبر پختون خوا کے 9 سالہ دور حکومت اور وفاق میں 4 سالہ دور اقتدار میں کبھی بھی اتنی لوڈ شیڈنگ نہیں ہوئی جتنی شہبازشریف کے موجودہ دور میں ہو رہی ہے۔ علاوہ ازیں موجو دہ دور حکومت میں بجلی ، گیس ، خوراکی تیل ، ڈیزل اور پٹرول کے قیمتوں میں بے تحاشا اور ریکارڈ اضافہ ہوا۔ بجلی اور سوئی گیس کے بل اتنے زیادہ آتے ہیں کہ بل ادائیگی کاانتظام کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے ۔پاکستان میں11 کروڑ پاکستانیوں کی آمدن 250 روپے سے کم ہے اور مہنگائی کے اس دور میں انکے لئے اپنی دوسری ضروریات کے ساتھ ساتھ بجلی اور گیسوں کی بھاری بلیں برداشت کرنا انتہائی مشکل اور کٹھن کام ہے۔ ایک مزدور کی دیہاڑی 700 روپے ہے وہ کیسے اپنے گھر کا بجٹ ان 700 روپے میں ایڈجسٹ کر سکتا ہے ۔مہنگائی ، بے روز گاری، بجلی، تیل ، گیس اور دوائیوں کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے چوری، جسم پروشی ، اعوا برائے تاوان ،بجلی چوری اور دوسرے سماجی بُرائیوں میں اضا فہ ہورہاہے۔ اگر ہم غور کرلیں پاکستان میں 21 ویں صدی میں بجلی کا فی کس خرچ 40 واٹ ہے جو نہ ہونے کے برابر ہے۔جبکہ اسکے بر عکس آئر لینڈ میں بجلی کا فی کس خرچہ یا استعمال 5777 واٹ ، ناروے میں فی کس خرچہ 2750 واٹ اور کنیڈا کا فی کس بجلی کا خرچہ 2500 واٹ ہے مگر وہاں پھر بھی بجلی سستی اور لوگوں کی استطاعت میںہے ۔ جبکہ پاکستان میں بھاری بھر بلیں ادا کرنا کسی کے بس میں نہیں۔اگر ہم مزید تجزیہ کریں تو پاکستان میں بجلی سے پانی سے ایک لاکھ میگا واٹ، ہوا سے 50 ہزار میگا واٹ ، کوئلہ سے 2 لاکھ میگا واٹ دو سو سال کےلئے اور ایک مربع میٹر پر ایک کلوواٹ توانائی پڑتی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی جو وطن عزیز پر1977سے اقتدار پر براجمان ہیں مگر اسکے باوجود ملکی توانائی کی ضرورتیں پوری کرنے پر توجہ نہیں دی نتیجتاً بجلی صارفین اشرافیہ آئی پی پیز کی مہنگی ذرائع توانائی لینے پڑتی ہے۔ نہ پاکستان مسلم لیگ نے اور نہ پیپلز پارٹی نے ڈیمیں بنائیں اور نہ ان دونوں نے لمبے اقتدار میں رہنے کے باوجود توانائی کے دوسرے ذرائع سے استفادہ کیا۔ شہباز شریف حکومت بار بار اس بار کا اعادہ کر رہے ہیں کہ بیرون ممالک سے سرمایہ کار وطن عزیز میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کریں گے ۔ کارخانے اور صنعتیں بجلی اور گیس سے چلتی ہیں اور جس ملک میں بجلی اور گیس اتنی مہنگی اور ساتھ ساتھ اسکا ملنا بھی مشکل ہو وہاں بیرون ممالک سے سرمایہ کار کیسے سرمایہ کاری کریں گے ۔بلکہ بدقسمتی سے پاکستان سے سرمایہ کار بنگلہ دیش، دوبئی ، ملائیشیاءاور دوسرے ممالک بھاگ رہے ہیں۔ اگر ہم اسکے ریٹس پر غور کرلیں تو وہ بھی کم ہیں۔ مثلاً ہوا سے بجلی پیدا کرنے کی کی فی کلوواٹ فی گھنٹہ قیمت 0.044ڈالر(5 روپے یونٹ) ، شمسی سیلوں اور پینلز فی کلو واٹ فی گھنٹہ بجلی پیدا کرنے کی قیمت 0.058 ڈالر(8روپے)،سولر تھرمل سے فی کلوواٹ فی گھنٹہ بجلی پیدا کرنے کی قیمت 0.0184ڈالر ( ۲ روپے ) ہے۔ جبکہ پانی سے بجلی پیدا کرنے کی فی کلواٹ فی گھنٹہ 0.064 ڈالر (9 روپے) جبکہ بائیو ماس سے فی گھنٹہ فی کلوواٹ 0.098ڈالر(13 روپے) ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ دنیا میں زیادہ تر ممالک اور بالخصوص ہما را پڑوسی ملک بھارت متبادل توانائی پر زور دے رہے ہیں ۔ جیسا کہ ہم بار بار ڈیموں کے بارے میں بات کرتے ہیں ۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں ڈیموں کے ساتھ ساتھ متبادل ذرائع توانائی اور خاص طور پر شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنی چاہئے کیونکہ دنیا میں شمسی توانائی کے سیلوں کی قیمتوں میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اور آئندہ چند سالوں میں سولر پینلز کے قیمتیں انتہائی کم ہوجائیں گی ۔ میں تمام پاکستانیوں سے بھی یہ استد عا کرتا ہوں کہ اپنی بجلی کی ضروریات پوری کرنے کےلئے شمسی توانائی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کریں اور ساتھ ساتھ ڈی سی پنکھوں، موٹروں ، پنکھوں کو استعمال کرنا چاہئے۔ گھر میں پانی موٹر فرج کو واپڈا بجلی سے چلانا چاہئے جبکہ ٹیوب لائٹ ، پنکھوں کو شمسی توانائی سے چلانا چاہئے۔ ابھی تو بازار میں شمسی ائر کنڈیشنرز او فرج بھی دستیاب ہیں اگر کسی کی استطاعت میں ہو تو وہ استعمال کرنے چاہئے ۔ یا ان چیزوں کو اپنے بجٹ کے مطابق لگا نا چاہئے۔ ڈی سی پنکھوں ، ٹیوب لائٹ اور ڈی سی بجلی سے چلنے والے دوسرے چیزوں کی بجلی کی کھپت کم ہوتی ہے۔ آئندہ وقتوں میں شمسی پینلوں کی قیمتیں اتنی کم ہوجائیں گی اور عوام میں اسکا استعمال بڑھے گا ۔ پھر ہمیں واپڈا کا مختاج نہیں ہونا پڑے گا۔ اب جبکہ اسکی فی یونٹ قیمت 9 روپے ہے اور آئندہ وقتوں میں اسکی قیمت میں مزید کمی آسکتی ہے۔ لہٰذا ہمیں زیادہ سے زیادہ شمسی پینلوں کو استعمال کرنا چاہئے۔

Exit mobile version