کالم

بجلی گیس نہ آٹاپھر بھی ہے سناٹا

نہ بجلی ،نہ پانی ،نہ گیس ،نہ آٹا اوربڑھتا جارہا ہے سناٹااور بس یہی پوچھنا تھا کہ اتنا ہی کافی ہے یا اور چاہیے پرانا پاکستان کیونکہ جب ہم نے ہوش سنبھالی تو اس وقت پاکستان کی یہی صورتحال تھی سر ے شام ہی لالٹین ،دیوے اور موم بتیوں کے انتظام کے ساتھ ساتھ لالٹین کی چمنی صاف کرنابھی ضروری ہوتا تھا گذشتہ روز موم بتیاں اور لالٹن خریدنے والوں کا دوکانوں پر رش دیکھا تو پرانا پاکستان یاد آگیا اور ابھی تو پیٹرول کی قیمتیں جب بڑھیں گی تو سائیکل بھی سڑکوں پر نظر آئیں گے جو نئے پاکستان میںغائب ہو چکے تھے ان جھٹکوں اور دھچکوں سے ہمیں نجات دلانے والی حکمران سیاسی جماعتوں کی جانب سے ملکی معیشت کو سنبھالنے کے دعوے دھوکہ ثابت ہوئے کیونکہ اس وقت عوام اور معیشت بستر مرگ پر ہے اورمعیشت کی تباہی میں حکمران اشرافیہ نے بنیادی کردار ادا کیا ہے جنہوںنے خوشحال ملک کو دیوالیہ کر ڈالا ہے اور وہ اب بھی حکمران اپنی ترجیحات بدل لیں تو پاکستان ترقی اور لوگ خوشحالی کے راستے پر چل پڑیں گے اور اس کے لیے ہمیں اپنی زراعت پر توجہ دینی پڑے گی ہمارے دیہی علاقوں میں تقریبا 68 فیصد آبادی خوراک اور معاش کے لیے زراعت پرانحصار ہے اس وقت ہماری زراعت کے ساتھ ساتھ معیشت بھی کمزور ہے ملک کو اس صورتحال سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے جہاں زراعت معاشی ترقی میں سب سے زیادہ معاون ہے اس لیے پاکستان کو اپنی معاشی پالیسیاں موجودہ حالات اور عالمی نظام کے مطابق بنانا ہوں گی پاکستان کے پاس بہت سارے وسائل اور زرخیز سرزمین ہے ہماری آبادی کا ایک بڑا حصہ بالواسطہ یا بلاواسطہ زراعت سے وابستہ ہے زراعت ہماری معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور غذائی تحفظ میں اہم کردار ادا کرتی ہے جو جی ڈی پی کا بائیس فیصد ہے اس وقت ہماری صورتحال یہ ے کہ ہم ہمارے پاس قرضے واپس کرنے کے لیے پیسے نہیں ہیں اور ان پر سود ادا کرنے کے لیے ہم اپنی اشیا گروی رکھوا رہے ہیں رواں مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران قرضوں پر واجب الادا سود کے اخراجات2.57 ٹریلین روپے تک بڑھ گئے جو کہ قرضوں کی ادائیگی کے سالانہ بجٹ کے 65 فیصد کے برابر ہے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا تھا کہ رواں مالی سال میں قرض کی ادائیگی کا حجم تقریبا 5 ٹریلین روپے تک بڑھ سکتا ہے جو اس سال کے 9.6 ٹریلین روپے کے کل بجٹ کے نصف سے زائد ہوگا اوریہ گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 118 ارب روپے یا تقریبا 23 فیصد زیادہ ہے جو وفاقی حکومت کی خالص آمدنی کے 128 فیصد کے برابر ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان قرضوں کے جال میں ہی پھنسا رہے گا رواں مالی سال جولائی تا دسمبر کل اخراجات کا 69% صرف قرضوں پر سود کی ادائیگی اور دفاع کی مد میں خرچ ہوا جس کے نتیجے میں عوام کی فلاح و بہبود اور ملکی ترقی پر خرچ کرنے کے لیے بہت کم فنڈز حکومت کے پاس بچے اعدادوشمار کے مطابق قرضوں کی ادائیگی اور دفاع پر 3200ارب روپے کے خطیر اخراجات کے مقابلے میں ترقیاتی کاموں پر صرف 147 ارب روپے خرچ ہوئے ترقیاتی اخراجات پچھلے مالی سال کے مقابلے میں 141 ارب روپے یا 49 فیصد کم رہے ایک طرف تو ہماری معاشی صورتحال اتنیخراب ہو چکی ہے تو دوسری طرف ملک میں عام انتخابات کا راستہ روکنے کی ابھی سے تیاریاں شروع کردی گئی ہیںاور صرف دو صوبوں میں الیکشن مسائل کا حل نہیں اس سے استحکام نہیں آئے گا پورے ملک میں بیک وقت انتخابات ہوں جس کے لیے باقی صوبوں سمیت مرکز میں بھی نگران سیٹ اپ تشکیل دیا جائے اور اس کے لیے تمام سیاسی جماعتیں مذاکرات کا آغاز کریں اس وقت 22کروڑ عوام مہنگائی، بدامنی اور بے روزگاری کی چکی میں پس رہے ہیں غربت اتنی زیادہ ہے کہ لوگوں کے پاس ایک وقت کا راشن نہیں ہے ڈالر غائب ہے اور اس کی قدر میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے پڑھے لکھے نوجوان مستقبل سے مایوس ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں عوام آٹے کی لائنوںمیں کھڑے ہیں بنیادی اشیائے خورونوش کی قیمتیں غریب اور سفید پوش طبقہ کی پہنچ سے مکمل دور ہو گئیں لوگوں کے لیے ایک وقت کی روٹی کا انتظام مشکل ہو گیا صحت اور تعلیم کا نظام بیٹھ گیاڈھائی کروڑ بچے غربت کی وجہ سے سکولوں سے باہر ہیں 80فیصد سے زائد عوام کو پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں ہمیں اس حال تک پہنچانے والے ہمارے اپنے حکمران ہیں جنہوں نے اپنی جائدادیں بنائیں آف شورکمپنیاں بناکر بچوں کوبیرون ملک اور خود یہاں ایکڑوں پر محیط محلات میں رہایش پذیر ہیں اور عوام بنیادی ضروریات کے لیے ترس رہے ہیں ایسا لگتا ہے کہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت سب نے مل کر ملک کو سیاسی، سماجی اور معاشی لحاظ سے دیوالیہ کر دیا جتنا انکے باس میں تھا وہ انہوں نے کردیا اب باری عوام کی ہے کہ وہ ملک کو معاشی لحاظ سے تباہ کرنے والوں کاووٹ کی طاقت سے احتساب کرے ورنہ حالات سب کے سامنے ہیں اور پرانے پاکستان کا دروازہ بھی کھل چکا ہے جبکہ گذشتہ روز ہونے والا شٹ ڈاﺅن گزشتہ تین ماہ کے دوران دوسرا ملک گیر بریک ڈاﺅن تھا جس سے پہلے سے ہی تباہ حال معیشت کو اربوں کا نقصان ہوا رہی بات نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی سے امید ہے وہ عوام پر رحم فرماتے ہوئے اپنی مختصر سی کابینہ تشکیل دیکر غریب لوگوں پر اخرجات کا مزید بوجھ نہیں ڈالیں گے بلکہ اپنے تجربے اور قابلیت سے پنجاب میں ایک مثال قائم بن کر اپنے اداروں کی طرح پنجاب کے اداروں کو بھی مضبوط کریں باالخصوص ڈی جی پی آر کے دھندلے آئینے کو صاف کریں جو پنجاب میں انکے کاموں کو عوام تک پہنچائے گا اس کے لیے ضروری ہے کہ باہر سے ڈی جی پی آر لگانے کی بجائے اسی ادارے کے سینئر افسر کو اس ادارے کا سربراہ لگا دیا جائے جو اپنے ادارے کو بھی جانتا ہو ادارے والوں کو بھی سمجھتا ہو اور میڈیا والوں سے بھی دوستی رکھتا ہوتاکہ یہ ادارہ بھی اپنے پاﺅں پر کھڑا ہوسکے۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri