کالم

بحران دربحران

مہنگائی کا عفریت عوام کیلئے ایک عذاب بن گیا ہے اور غریب عوام جن کی کمر پہلے مہنگائی کے وجہ سے جھکی ہوئی تھی اور روٹی کی تلاش میں وہ سرگردا ں رہتے تھے اب لگتا ہے کہ روٹی بھی ان کیلئے ناپید ہوتی جارہی ہے اور وہ اپنی قسمت کو رور ہے ہیں ، اپنے آپ کو کوس رہے ہوتے ہیں کہ کاش ہم ہی نہ ہوتے اور نہ روٹی کا یہ غم ہوتا ۔جو بھی بحران آتا ہے کہاجاتا ہے کہ یہ مصنوعی ہے ، حکومتی حلقے یہی گردان رٹ رہے ہیں اور حقیقت بھی یہ ہے کہ یہاں جو بھی بحران ہوتا ہے وہ مصنوعی ہوتا ہے جو پیدا کیا جاتا ہے در اصل یہ سرمایہ داروں کا کھیل ہے جو یہ عناصر باری باری کھیلتے ہیں کبھی آٹے کا بحران پیدا کیا جاتا ہے اور کبھی سیمنٹ اور سریا اور کبھی چینی اور گھی کا بحران پیدا کیا جاتا ہے ۔ہمیں سابق وزیر اعظم میاں نوازشریف کا دور یاد آرہا ہے جب ملک میں آٹا ناپید ہوگیا تھا آٹے کی تلاش میں لوگ مارے مارے پھرتے تھے اور یہی حال ق لیگ کے حکومت کے دوران بھی تھااور آ ج جس طرح یوٹیلٹی سٹوروں کے سامنے لوگوں کی قطاریں نظرآرہی ہیں کچھ تو آتے پر اپنی جان ہی قربان کردیتے تھے اور جن کی قسمت اچھی ہوتی تھی وہ خون میں لت پت اپنے گھر کو واپس آتے تھے جہاں ان کے پنجرا نما قسم کے بچے ان کا انتظار کرتے تھے اور آج بھی یہ کیفیت ہے ۔بلاشبہ روٹی کا مسئلہ بڑا سنگین ہے اور غریبی آج کے دور کا سب سے بڑا عفریت ہے جس نے عوام کو اپنے لپیٹ میں لے رکھا ہے مہنگائی کی آگ ہے کہ بجھنے کا نام ہی نہیںلیتی ہے اور ڈور سلجھنے کی بجائے الجھے چلی جارہی ہے اور غریب عوام کی مفلوک الحالی میں مزیداضافہ ہو رہا ہے اور ان کی پریشانی بھی بڑھ رہی ہے ۔ اقتدار کے مزے لوٹنے والے حکمران اور اور اپوزایشن کہلانے والے سیاستدان سب نے عوام کو مایوس کیا ہے ان کے پاس عوام کے مسائل کا کوئی حل نہیں ہے اور نہ وہ عوامی مسائل حل کرنا چاہتے ہیں ان کو تو بس اقتدار اور کرسی اور وردی کی فکر پڑی ہے کوئی ایک طبقہ بھی ایسا نہیں ہے جو عوام کے سامنے اپنی صفائی پیش کرسکے پاکستان کے جاگیردار ہو یا سرمایہ داران اور بیوروکریٹ ہوں یا مذہبی سیاسی رہنماں سب کے ہاتھ قومی مفادات کے خون سے رنگے ہوئے ہیںاین آر او کے تحت جاری کردہ فہرست اس کی دلیل ہے۔ قوم کے جو حقیقی لیڈر ور عوام کے صحیح نمائندے تھے طاقتور مفاد پرست عناصر نے انہیں ملک اور قوم کیلئے انہیں سیکورٹی رسک قراردیکر قتل کراوادیا اور یا وہ زمانے کی ٹھوکروں کی نظر ہوگئے اور ان کی جگہ دو نمبر کی سیاستدانوں لے لی جو مفادات کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے لگے اور ملک میں آٹے کا بحران ہو اور یا یا چینی کا یہ سب کچھ ان مفاد پرستوں کا کیا دہرا ہوتا ہے اور قرائن بتارہے ہیں کہ اگر مفاد پرستی کا یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا تو آنے والے سالوں میں ملک کے حالات مزید ابتر ہونگے،ماں باپ کیلئے اپنے بچوں کا پالنا مشکل ہوجائگا اور خودکشیوں کی شرح میں اضافہ ہوجایگا ۔سرمایہ دارانہ نظام کسی بھی صورت میں قابل اصلاح نہیں ہے یہ نہیں ہوسکتا کہ اس کی مرمت کر کے اسکی اصلاح کی جائے موجودہ دور کی تباہ کاریوں کی بنیادسرمایہ دارانہ نظام اس نظام کی بقا جنگوں جنگوں کے ساتھ وابستہ ہے دنیا میں جنگ ہوگی اور ممالک آپس میں جنگ پر آمادہ ہونگے تو اس نظام کی چکی چلتی رہیگی اسلئے یہ نظام دنیا میں امن نہیں چاہتا ہے۔ اس وقت سرمایہ دارانہ نظام کا سرخیل امریکہ ہے اور اگر دیکھا جائے تو اس کی جڑی اندر سے کھوکھلی ہیں اور یہ حالت نزع کی آخری ہچکیاں لے رہا ہے روس چین اور دوسرے علاقائی ممالک کا ایک دوسرے کے قریب آنے سے امرکی نظام کی نیندیں حرام ہوگئی ہیں اور اسی بنا پر وہ پیچ وتاب کھارہا ہے اسلحہ کا بیوپاری اب تنہا ہوتا جارہا اور اب دہشت گردی کے خلاف موثر آپریشن بھی اس کیلئے گلے کی ہڈی ثابت ہورہا ہے یہ اب کوئی راز نہیں کہ دہشت گرد کس کے پیدا کردہ ہیں اور ان کو اسلحہ کون دے رہا ہے؟ ۔ اس وقت ہر پاکستانی ذہنی کرب میں مبتلا ہے اور باشعور حلقے یہ سوال اٹھارہے ہیں کہ کیا الیکشن سے تبدیلی ممکن ہے؟ پاکستان کے بہادر عوام ہیں اور نہایت غیور ہیں لیکن وہ جس نظام کے زیر اثر ہیں وہ سرمایہ دارانہ ہے اور سرمایہ پرستی کے جراثیم نے ہر چیز کو آلودہ کر دیا ہے اب ضرورت ہے اس نظام سے نجات کی ہے یہاں تو چہروں کی تبدیلی ہوتی ہے ایک کی جگہ دوسرا مسلط ہوجاتا ہے سرمایہ دارانہ نظام میں شخصیات کے آنے جانے سے کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی ہے بلکہ ہر آنے والا دوسرے سے بدتر ہوتا ہے ۔ اس وقت جدوجہد کسی شخصیات اور افراد کے آنے جانے کےلئے جدو جہد نہیں ہونی چائیے بلکہ ملک عزیز میں سب جد وجہد سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ہونا چائیے کیونکہ یہ نظام انسانیت کا دشمن ہے اور یہ نظام نہ انسان کے اخلاق خراب کر کے اسے خدا پرستی سے دور کر کے سرمایہ پرستی میں مبتلا کر دیتا ہے بلکہ یہ نظام انسان دوستی کا بھی دشمن نظام ہے چونکہ اس نظام کی بقاءظلم سے وابستہ ہے اور یہ نظام فساد اور طبقات پیدا کرتا ہے اس لیئے ساری جدوجہد اس نظام کیخلاف ہونی چائیے کیونکہ خرابی نظام میں ہے!۔ سرمایہ دار کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتا کہ غریبوں گزر اوقات کس طرح ہوتاہے اور ان کے گھر کا چولہا کس طرح جلتا ہے اور ماں بھوکے بچوں کو کھانادینے کی بجائے لوریا اور جھوٹے کہانیا ں سناتی ہیں جن کے کردار شہزادہ اور شہزادی ہوتے ہیں اور یہی سے ان بچوں کی ذہن سازی ہوتی ہے اوروہ کیپٹل ازم کی وباءکا شکار ہوجاتے ہیںکہ دنیا کے مزے اور عیاشیاں تو ان کیلئے ہیں اور ہمارا کام ان کی خدمت ہے اور ملک میں جب آٹے جیسا بحران پیدا کیا جاتا ہے تو وہ سمجھتے ہیں کہ ہماری قسمت ہی خراب ہے اور سرمایہ دار ہمارے ساتھ جو کھیل کھیل رہے ہیں یہ ہماری قسمت ہے ورنہ ہم پر مسلط طبقہ تو بھرپور کوشش کررہا ہے لیکن ہماری قسمت آڑے آجاتی ہے لیکن ان معصوموں کو نہیں معلوم کہ جن کو وہ رہبر سمجھتے ہیں یہ اصل میں راہزن ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri