Site icon Daily Pakistan

بزنس سوچ۔۔۔!

دنیا کی تاریخ پر اگر ایک سنجیدہ اور باریک بینی سے نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ وہ قومیں جو اپنے وسائل اور وقت کو لڑائی جھگڑوں میں ضائع کرتی رہیں، وہ کبھی بھی پائیدار ترقی نہ کر سکیں۔ طاقت کے زعم میں یا مذہبی، نسلی، لسانی یا علاقائی اختلافات کی بنیاد پر جن معاشروں نے اپنا بیشتر وقت ایک دوسرے کو نیچا دکھانے، لڑنے جھگڑنے اور سازشیں کرنے میں گزار دیا، وہ آہستہ آہستہ پسماندگی کی دلدل میں دھنستے گئے۔ اس کے برعکس وہ قومیں جنہوں نے اپنی اجتماعی سوچ کو معاشی سرگرمیوں، سائنسی ترقی، تعلیم اور کاروباری دنیا میں مصروف رکھا، وہ دیکھتے ہی دیکھتے ترقی کی منازل طے کرتی گئیں۔ تاریخ کے جھروکوں سے جھانک کر دیکھا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ طاقت اور دولت کبھی بھی جنگوں سے پیدا نہیں ہوتیں بلکہ امن، محنت، جدوجہد، علم اور کاروبار سے وجود میں آتی ہیں۔ یہی بنیادی نکتہ ہے جس پر ہر فرد، ہر خاندان اور ہر معاشرہ اگر توجہ دے تو اپنی تقدیر بدل سکتا ہے۔اگر ہم آج کی دنیا پر غور کریں تو سب سے بڑی مثال چین کی سامنے آتی ہے۔ چین ایک ایسا ملک ہے جو کئی دہائیوں تک غربت، افلاس، خانہ جنگی اور بیرونی حملہ آوروں کے ظلم و ستم کا شکار رہا مگر بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں چین نے ایک فیصلہ کن موڑ لیا۔ اس نے اپنی پالیسیوں کو جنگوں اور لڑائی جھگڑوں سے نکال کر بزنس، صنعت، تجارت اور تحقیق کی طرف موڑ دیا۔ آج کا چین ایک جیتی جاگتی تصویر ہے کہ کس طرح ایک قوم اپنی سوچ کو بدل کر دنیا کا معاشی پاور ہاس بن سکتی ہے۔ آج دنیا کا کوئی بازار ایسا نہیں جہاں میڈ اِن چائناکی مصنوعات موجود نہ ہوں۔ کھلونے ہوں یا موبائل فون، کپڑے ہوں یا جوتے، فرنیچر ہو یا الیکٹرانکس، ہر جگہ چینی مصنوعات نے اپنی جگہ بنائی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ چین نے بزنس سوچ اپنائی، لڑائیوں کو پیچھے چھوڑا اور اپنے لوگوں کو کام، محنت اور کاروبار میں مصروف کر دیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ اربوں کی آبادی رکھنے والا ملک آج دنیا کی سب سے تیز رفتار ترقی کرنے والی معیشت ہے۔اسی طرح جاپان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔دوسری جنگ عظیم میں امریکہ نے جاپان پر ایٹمی بم برسائے، لاکھوں لوگ مارے گئے، شہر کھنڈرات میں بدل گئے اور دنیا یہ سمجھنے لگی کہ جاپان اب کبھی کھڑا نہیں ہو سکے گا مگر جاپانی قوم نے اپنی سوچ بدلی، اپنی ترجیحات کو جنگ سے ہٹا کر بزنس، صنعت، ٹیکنالوجی اور تعلیم پر مرکوز کیا۔ انہوں نے لڑائی کے زخم سہنے کے باوجود دل برداشتہ نہیں ہوئے بلکہ ایک اجتماعی شعور کے ساتھ اپنی معیشت کو مضبوط کیا۔ آج جاپان دنیا کے طاقتور ترین معاشی ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔ جاپانی مصنوعات معیار کی پہچان سمجھی جاتی ہیں، چاہے وہ گاڑیاں ہوں، الیکٹرانکس ہوں یا روبوٹکس۔ جاپان نے بزنس سوچ اپنا کر دنیا کو بتایا کہ تباہی کے بعد بھی ایک قوم اگر اپنی سوچ کو صحیح سمت میں لے آئے تو نئی تاریخ رقم کر سکتی ہے۔ہمارے خطے کی اگر بات کی جائے تو یہاں کے مسائل کی سب سے بڑی جڑ یہی ہے کہ ہم نے بزنس سوچ اپنانے کے بجائے لڑائی جھگڑوں کو اپنی ترجیح بنایا۔ کبھی مذہب کے نام پر، کبھی زبان کے نام پر، کبھی علاقے کے نام پر ہم نے اپنی توانائیاں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں صرف کیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے نوجوان اپنی صلاحیتوں کو ضائع کر رہے ہیں، بے روزگاری بڑھ رہی ہے، غربت بڑھ رہی ہے، تعلیم اور صحت جیسے شعبے پسماندگی کا شکار ہیں۔ اگر ہم اپنی سوچ کو بدلیں اور انفرادی و اجتماعی طور پر بزنس سوچ اپنائیں تو نہ صرف ہم اپنے خاندان کو خوشحال بنا سکتے ہیں بلکہ اپنے ملک کو بھی ترقی کی راہوں پر ڈال سکتے ہیں۔بزنس سوچ دراصل صرف کاروبار کرنے کا نام نہیں ہے، یہ ایک طرزِ فکر ہے۔ بزنس سوچ رکھنے والا شخص ہمیشہ مسائل کو مواقع میں بدلتا ہے۔ وہ منفی سوچ کے بجائے مثبت پہلو تلاش کرتا ہے۔ وہ لوگوں کو نقصان پہنچانے کے بجائے فائدہ دینے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ اگر میں کامیاب ہوں تو میرے ساتھ جڑے ہوئے لوگ بھی کامیاب ہوں گے۔ بزنس سوچ انسان میں برداشت، صبر، محنت، تحقیق، جدوجہد اور دوسروں کو فائدہ دینے کی عادت پیدا کرتی ہے۔ یہی وہ اصول ہیں جو کسی بھی فرد کو کامیابی کی طرف لے جاتے ہیں۔دنیا میں جتنی بھی بڑی بڑی کمپنیاں ہیں، وہ سب اسی سوچ کا نتیجہ ہیں۔ مائیکروسافٹ، ایپل، گوگل، علی بابا، ایمیزون، یہ سب کاروباری سوچ رکھنے والے افراد کی کاوشیں ہیں۔ ان لوگوں نے کبھی دوسروں سے لڑنے کے بجائے اپنے وقت اور توانائی کو کاروباری مواقع پیدا کرنے پر لگایا۔ انہوں نے ایک ایسا نظام بنایا جس سے نہ صرف وہ خود بلکہ کروڑوں لوگ روزگار کما رہے ہیں۔ یہ سوچ ہر انسان اپنا سکتا ہے، چاہے وہ چھوٹا دکاندار ہو یا بڑا سرمایہ کار۔ہمارے معاشروں میں اگر یہ سوچ عام ہو جائے کہ ہمیں لڑائی جھگڑوں کے بجائے کاروبار کو ترجیح دینی ہے، تو بہت سی معاشرتی برائیاں خود بخود ختم ہو جائیں۔ بے روزگاری کم ہو، غربت کم ہو، تعلیم اور صحت بہتر ہو، لوگ خوشحال ہوں، معاشرے میں سکون اور امن ہو۔ بزنس سوچ رکھنے والا شخص دوسروں کو بھی ساتھ لے کر چلتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ کاروبار تبھی کامیاب ہوتا ہے جب آپ دوسروں کو بھی فائدہ پہنچائیں۔ یہی وجہ ہے کہ بزنس کو اکثر "ون ون گیم” کہا جاتا ہے، یعنی اس میں جیت دونوں کی ہوتی ہے، خریدار کو بھی فائدہ اور بیچنے والے کو بھی فائدہ۔یہ سوچ صرف کاروباری دنیا تک محدود نہیں رہتی بلکہ یہ انسان کی پوری شخصیت کا حصہ بن جاتی ہے۔ بزنس سوچ رکھنے والا انسان اپنے تعلقات میں بھی بہتر ہوتا ہے، وہ دوسروں کو نقصان نہیں پہنچاتابلکہ ان کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ اپنے دوستوں، رشتہ داروں اور ہمسایوں کو سہولت دینے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی سوچ اگر پورے معاشرے میں پھیل جائے تو ایک مضبوط اور مستحکم معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔اگر ہم اپنی نوجوان نسل کو دیکھیں تو ان کے پاس بے پناہ صلاحیتیں ہیں مگر بدقسمتی سے ان صلاحیتوں کو صحیح سمت دینے والا کوئی نہیں۔ ہمارے تعلیمی ادارے زیادہ تر نوکری پیشہ ذہنیت پیدا کرتے ہیں حالانکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو بزنس سوچ کی تربیت دیں۔ انہیں یہ سکھائیں کہ وہ چھوٹے چھوٹے کاروبار شروع کریں، نئے آئیڈیاز پر کام کریں، محنت اور تحقیق کو اپنا ہتھیار بنائیں۔ یہ ضروری نہیں کہ ہر کاروبار بڑا ہو، چھوٹے کاروبار بھی اگر صحیح نیت اور منصوبہ بندی سے کیے جائیں تو آہستہ آہستہ ترقی کرتے ہوئے بڑے کاروبار میں بدل جاتے ہیں۔ہمارے مذہب اسلام میں بھی بزنس کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ پیغمبر اسلام ۖ خود تاجر تھے اور ان کی سچائی اور دیانتداری نے انہیں "امین” کا لقب دلوایا۔ اسلام نے ہمیشہ کاروبار کو پسند کیا ہے کیونکہ یہ دوسروں کو فائدہ دینے کا ذریعہ بنتا ہے۔ اس میں حسد، نفرت اور دشمنی کے بجائے محبت، تعاون اور خوشحالی پیدا ہوتی ہے۔ اگر ہم اپنی مذہبی تعلیمات کو دیکھیں تو یہ بھی ہمیں بزنس سوچ اپنانے کی طرف ہی لے جاتی ہیں۔اس وقت دنیا ایک عالمی گاں بن چکی ہے۔ بزنس کے مواقع پہلے سے کہیں زیادہ ہیں۔ انٹرنیٹ، ای کامرس، ڈیجیٹل پلیٹ فارمز، فری لانسنگ، سٹارٹ اپس، یہ سب ایسے ذرائع ہیں جنہیں استعمال کر کے کوئی بھی شخص اپنے لیے روزگار کے دروازے کھول سکتا ہے مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی سوچ کو بدلیں، لڑائی جھگڑوں اور منفی بحثوں میں وقت ضائع کرنے کے بجائے اپنی توانائی کو بزنس سوچ پر لگائیں۔ہمارے لیے یہ وقت ہے کہ ہم اپنے بچوں کو بزنس کی تعلیم دیں، انہیں یہ سکھائیں کہ وہ اپنے وسائل کو کس طرح بہتر استعمال کر سکتے ہیں۔ ہمیں یہ سوچ اپنانی ہوگی کہ ہم انفرادی طور پر بھی بزنس کریں اور اجتماعی طور پر بھی۔ جب ایک خاندان خوشحال ہوگا تو پورا معاشرہ خوشحال ہوگا۔ جب معاشرہ خوشحال ہوگا تو پورا ملک ترقی کرے گا۔ہمیں اپنے گردوپیش دیکھنا چاہیے کہ دنیا کس تیزی سے بدل رہی ہے۔ اگر ہم نے اپنی سوچ نہ بدلی تو ہم مزید پیچھے رہ جائیں گے۔ اگر ہم نے بزنس سوچ اپنالی تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم بھی ترقی یافتہ قوموں کی صف میں شامل نہ ہو جائیں ۔ یہ سفر مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔ صرف ہمیں یہ طے کرنا ہے کہ ہمیں لڑائیوں میں اپنا وقت ضائع نہیں کرنا بلکہ بزنس میں اپنی توانائی لگانی ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جو ہمیں کامیابی اور خوشحالی کی طرف لے کر جا سکتا ہے۔

Exit mobile version