Site icon Daily Pakistan

بلدیاتی ادارے ۔۔۔!

بلدیاتی ادارے کسی بھی ریاست کی جمہوری، انتظامی اور سماجی ساخت کی وہ بنیاد ہیں جن پر عوامی فلاح، شفاف حکمرانی اور پائیدار ترقی کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ یہ ادارے شہریوں اور ریاست کے درمیان پہلا اور سب سے مضبوط رابطہ ہوتے ہیں۔ روزمرہ زندگی کے مسائل، گلی محلوں کی صفائی، پانی کی فراہمی، نکاسی آب، بنیادی صحت، ابتدائی تعلیم، مقامی سڑکیں، پارک، بازار، ٹرانسپورٹ اور شہری نظم و ضبط جیسے معاملات کا براہِ راست تعلق بلدیاتی نظام سے جڑا ہوتا ہے۔ جہاں یہ نظام مضبوط، بااختیار اور تسلسل کے ساتھ فعال ہو، وہاں ریاست کا مجموعی انتظام بہتر، عوام مطمئن اور وسائل کا استعمال زیادہ شفاف نظر آتا ہے۔ جہاں یہ نظام کمزور ہو یا محض نمائشی سطح تک محدود رکھا جائے، وہاں بڑے بڑے منصوبوں کے باوجود عوامی زندگی میں بہتری کا احساس پیدا نہیں ہو پاتا۔دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے بلدیاتی اداروں کو محض ایک انتظامی اکائی نہیں بلکہ جمہوریت کی نرسری کے طور پر فروغ دیا ہے۔ امریکہ میں مقامی حکومتیں ریاستی آئین کے تحت قائم ہوتی ہیں اور انہیں وسیع مالی اور انتظامی اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔ کانٹی، سٹی اور ٹان شپ کی سطح پر منتخب نمائندے ٹیکس وصولی، بجٹ سازی، پولیس، فائر بریگیڈ، اسکول بورڈز، صحت اور انفراسٹرکچر کے معاملات سنبھالتے ہیں۔مقامی ٹیکسوں کی وصولی اور اخراجات کا براہِ راست تعلق مقامی آبادی کی ضروریات سے ہوتا ہے، اس لیے جوابدہی کا عمل مضبوط رہتا ہے۔ شہری اپنے منتخب نمائندوں تک آسانی سے رسائی رکھتے ہیں، جس کے باعث شکایات اور تجاویز فوری طور پر انتظامیہ تک پہنچتی ہیں۔ اس نظام نے نہ صرف شہروں کی منصوبہ بندی کو بہتر بنایا بلکہ شہریوں میں شہری ذمہ داری اور شراکت داری کے شعور کو بھی فروغ دیا۔روس میں بلدیاتی اداروں کی ساخت تاریخی اور سیاسی پس منظر کی عکاس ہے۔ سوویت دور کے بعد مقامی خود حکمرانی کے تصور کو آئینی حیثیت دی گئی۔ بلدیاتی کونسلیں اور میئرز شہری سہولیات، مقامی معیشت اور سماجی خدمات کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ اگرچہ مرکزی حکومت کا اثر اب بھی نمایاں ہے تاہم مقامی سطح پر بجٹ اور ترقیاتی منصوبوں میں بلدیاتی اداروں کا کردار بڑھایا گیا ہے۔ روسی ماڈل میں نظم و ضبط، بیوروکریسی اور مقامی نمائندگی کا امتزاج دکھائی دیتا ہے جس کے ذریعے بڑے جغرافیائی علاقوں میں بنیادی سہولیات کی فراہمی کو ممکن بنایا گیا ہے۔ یہ نظام بتدریج مضبوط ہو رہا ہے اور شہری سطح پر خدمات کی بہتری میں اس کے اثرات نمایاں ہوتے جا رہے ہیں۔برطانیہ کا بلدیاتی نظام صدیوں پر محیط ارتقا کا نتیجہ ہے۔ مقامی کونسلیں تعلیم، سماجی خدمات، ہائوسنگ، ویسٹ مینجمنٹ، ٹرانسپورٹ اور شہری منصوبہ بندی جیسے امور انجام دیتی ہیں۔ کونسل ٹیکس کے ذریعے مالی وسائل جمع کیے جاتے ہیں جبکہ مرکزی حکومت سے گرانٹس بھی ملتی ہیں۔برطانیہ میں بلدیاتی ادارے عوامی مشاورت کو اہمیت دیتے ہیں، جس سے پالیسی سازی میں شہریوں کی آواز شامل ہوتی ہے۔ اس نظام نے شہری سہولیات کے معیار کو بلند رکھا اور مقامی سطح پر سماجی ہم آہنگی کو فروغ دیا۔فرانس میں بلدیاتی نظام مضبوط انتظامی ڈھانچے کے ساتھ قائم ہے۔ کمیون، ڈیپارٹمنٹ اور ریجن کی سطح پر مقامی حکومتیں موجود ہیں۔ میئر کا کردار نہایت اہم ہوتا ہے جو مقامی انتظامیہ، ترقیاتی منصوبوں اور شہری خدمات کا نگران ہوتا ہے۔ فرانس میں مقامی حکومتوں کو مالی خودمختاری حاصل ہے اور وہ مقامی ٹیکسوں کے ذریعے ترقیاتی سرگرمیاں انجام دیتی ہیں۔ ریاستی نگرانی کے ساتھ مقامی خودمختاری کا یہ امتزاج انتظامی توازن قائم رکھتا ہے۔ اس نظام نے دیہی اور شہری دونوں علاقوں میں ترقی کے عمل کو متوازن رکھنے میں مدد دی ہے۔ ان ممالک کے تجربات اس حقیقت کی طرف واضح اشارہ کرتے ہیں کہ بلدیاتی ادارے محض صفائی یا سڑکوں کی مرمت تک محدود نہیں بلکہ یہ جمہوری تربیت، قیادت سازی اور سماجی ترقی کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ مقامی سطح پر فیصلے ہونے سے مسائل کی نوعیت بہتر طور پر سمجھی جاتی ہے اور وسائل کا ضیاع کم ہوتا ہے۔ شفافیت، احتساب اور عوامی شمولیت جیسے اصول اسی سطح پر زیادہ موثر ثابت ہوتے ہیں۔پاکستان میں بلدیاتی اداروں کی تاریخ نشیب و فراز سے بھرپور ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد مختلف ادوار میں بلدیاتی نظام متعارف کروایا گیا مگر تسلسل برقرار نہ رہ سکا۔ کبھی ڈکٹیٹرز حکومتوں نے اسے سیاسی حمایت کیلئے استعمال کیا اور کبھی جمہوری حکومتوں نے صوبائی مفادات کے تحت اسے کمزور رکھا۔ نتیجتاً بلدیاتی ادارے عوامی اعتماد حاصل نہ کر سکے۔ اختیارات اور وسائل کی عدم منتقلی، بیوروکریسی کی بالا دستی اور سیاسی عدم استحکام نے اس نظام کو مثر کردار ادا کرنے سے روکے رکھا۔پاکستان کے شہروں اور دیہی علاقوں میں آبادی کے بڑھتے ہوئے دبا، شہری پھیلا، ماحولیاتی مسائل اور بنیادی سہولیات کی کمی نے بلدیاتی نظام کی ضرورت کو مزید اجاگر کر دیا ہے۔ بلدیاتی اداروں کی بحالی سے پاکستان میں جمہوری عمل کو نچلی سطح تک فروغ مل سکتا ہے۔ نوجوان قیادت کو سامنے آنے کے مواقع میسر آ سکتے ہیں۔ مقامی سطح پر شفافیت اور احتساب کا نظام قائم ہو سکتا ہے۔ اگر مالی وسائل اور اختیارات واقعی نچلی سطح تک منتقل کیے جائیں تو ترقیاتی منصوبے سیاسی نعرے نہیں بلکہ عملی ضرورت بن سکتے ہیں۔ پاکستان کو ایک ایسے بلدیاتی نظام کی ضرورت ہے جو آئینی تحفظ کے ساتھ قائم ہو، جسے بار بار معطل نہ کیا جا سکے، جس میں اختیارات، وسائل اور ذمہ داریوں کی واضح تقسیم ہو۔ مقامی نمائندوں کی تربیت، مالی نظم و ضبط اور عوامی نگرانی کو یقینی بنایا جائے۔ یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ مضبوط بلدیاتی اداروں کے بغیر نہ تو شہروں کو قابل رہائش بنایا جا سکتا ہے اور نہ ہی دیہی علاقوں کو ترقی کی دوڑ میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ ترقی یافتہ دنیا کے تجربات اور پاکستان کی زمینی حقیقت دونوں یہی بتاتے ہیں کہ بلدیاتی اداروں اور عوام کی شمولیت کے بغیر پائیدار ترقی ایک خواب ہی رہے گی۔ بلدیاتی ادارے ریاست کی وہ مضبوط جڑیں ہیں جن سے پورا نظام توانائی حاصل کرتا ہے۔جب یہ جڑیں مضبوط ہوں گی تو شاخیں بھی سرسبز ہوں گی اور قوم ترقی کی راہ پر اعتماد کے ساتھ آگے بڑھ سکے گی۔

Exit mobile version