اسلامی جمہوریہ پاکستان دنیا کی واحد نظریاتی ریاست کہلانے کی دعویدار ہے جس کا قیام دوقومی نظریئے کے بنیاد پر معرض وجود میں آیا اور نظریہ تھا کہ اس قوم کا نظریہ اسلام کے ساتھ وابستہ ہے اس لئے برصغیر کے مسلمانوں کو اپنے دینی عقائد کے مطابق زندگی گزارنے کیلئے ایک الگ ملک کی ضرورت ہے جس کے اندر رہتے ہوئے وہ اپنے زندگیوں کو دین اسلام کے مطابق گزار سکے ، کاش ایسا ہوتا مگر بدقسمتی سے گزشتہ 75سالوں میں ہم نے اسلام اور جمہوریت کے نام پر ایک تماشہ لگا رکھا ہے ، نصف صدی سے زائد جمہوری تماشے کے نام پر کبھی پارلیمانی نظام ، کبھی صدارتی نظام اور کبھی عسکری نظام کے تجربے آزمائے جاتے رہے،75سالوں میں سیاستدان عوام کو جمہوریت کے نام پر لوٹتے چلے آئے ، ان 75سالوں میں غریب غریب تر اور امیر امیرترین ہوتا چلا گیا ، احتساب کسی کا نہ ہوا ، نہ کسی نے احتساب کرنے کی ضرورت محسوس کی گوکہ احتساب کے نام پر ادارے بہت سارے بنے ، اقتدار کی اس کشمکش میںقائد اعظم کے بنائے ہوئے اس نظریاتی ملک کو دو لخت کردیا ، 16دسمبر 1971کو بھارت کی حکمران اندرا گاندھی نے پاکستانی حکمرانوں پر پھبتی کستے ہوئے کہا تھا ” ہم نے دو قومی نظریئے کو خلیجی بنگال میں غرق کردیا ہے “ اگر پاکستانی حکمرانوں میں غیرت کا کوئی مادہ ہوتا تو اسی ایک جملے پر و ہ اپنا احتساب کرسکتے تھے مگر انہیں پھر بھی ہوش نہ آئی اور وہ جمہوری تماشے کے نام پر ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے رہے اور پاکستان کی قیمتیں دولت کو بیرون ممالک منتقل کرتے رہے ، سوال یہ ہے کہ قائد اعظم کا بنا ہو اپاکستان دو لخت کیوں ہوا ، حالانکہ بنگالی ہم سے اچھے مسلمان اور اچھے پاکستاتی تھے پھر کیا وجہ تھی کہ یکدم انہوں نے اپنے نظریات سے انحراف کرتے ہوئے ہم سے جدا ہونے میں عافیت سمجھی ، صحافت کے ایک ادنیٰ طالبعلم ہونے کے ناطے جہاں تک میں سمجھ رہا ہوں اس کی وجہ ملک پر قابض سرمایہ دار اور جاگیر دار ٹولہ تھا جو اپنے بنگالی بھائیوں کو حقیر تر سمجھتا تھا اور انہیں اپنا مفتوحہ قرار دیتا تھا اور اسلام کے مطابق ان کو ان کے حقوق دینے پر آمادہ نہیں تھا ، ذوالفقار علی بھٹو نے عوام کے نام پر پارٹی بنائی ، غریب عوام اس کے گرد جمع ہوئی اور اس ہجوم کو اپنے ارد گرد دیکھ کر انہوں نے سوشلزم کا نعرہ بلند کردیا اور پھر اس سوشلزم کو بعد میں آنے والے فوجی حکمران نے دفن کرنے میں ہی عافیت سمجھی ، پاکستانی آئین کے مطابق ملک میں مقامی حکومتوں کا نظام رائج ہے جس کے تحت عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے کیلئے مقامی سطح پر اپنی قیادت کا چناو¿ کیا جاتا ہے ، پاکستان میں یہ نظام فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے رائج کیا تھا ، اس نظام پر بھی بہت سارے تجربات ہوتے رہے ، کبھی ڈسٹرکٹ بورڈ کا نظام آیا توکبھی ضلع کونسل ، تو کبھی ضلعی نظامت کا نظام سامنے آگیا ، کبھی سیاسی بنیادوں پر بلدیاتی الیکشن کرائے جاتے رہے تو کبھی اسے غیر سیاسی بنیادوں پر یہ الیکشن کرائے جاتے رہے مگر دکھ کے ساتھ یہ کہنا پڑرہا ہے کہ اس نظام کے تحت منتخب ہونے والوں نے بھی غریب کو دھوکہ دیا ، لوٹ کسوٹ اور مکر فریب کا نظام جاری و ساری ہے ، ان دنوں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد بلدیاتی انتخاب کی آمد آمد ہے ، 31دسمبر کو مقامی نمائندے چننے کیلئے چناو¿ ہوگا جس میں شرکت کیلئے دو بڑی پارٹیاں اپنے اپنے سیاسی قائدین کی تصاویر لگاکر میدان میں اتری ہوئی ہے ، ان دونوں کے مقابلے میں ایک اللہ کے نام لیوا اور اللہ کی جماعت بھی میدان عمل میں ہے ، اس کی ہار اور جیت کے متعلق کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا مگر یہ اپنی صدا بلند کئے ہوئے ہیں ، قرآن پاک فرماتا ہے ” کہ تم سے میں ایک ایسا گروہ لازم ہونا چاہیے جو لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف بلاتا رہے “ میری مراد جماعت اسلامی کی طرف ہے ، یہ جماعت پورے زور وشور کے ساتھ میدان عمل میں اتری ہوئی ہے اور اپنی کامیابی کیلئے پرامید ہے ، اس جماعت کی قیادت سابق رکن اسمبلی میاں اسلم کررہے ہیں جو ممکنہ طور پر اسلام آباد کے میئر کے امید وار بھی ہوسکتے ہیں ، جماعت اسلامی کی ایک پوری تاریخ میری نظر کے سامنے ہے ، یہ واحد جماعت ہے جو پاکستان کے علاوہ بنگلہ دیش، بھارت ، ترکیہ اور کئی دیگر ممالک میں بھی قائم ہے ، اس جماعت کے سرفروش اپنے زندگیوں کو اسلام کیلئے وقف کئے ہوئے ہیں اور یہ اللہ کے نام پر اللہ کے دین کی طرف بلانے پر مامور ہے ، سانحہ مشرقی پاکستان کے موقع پر اسی جماعت کے دو ونگز البدر اور الشمس نے جو خدمات سرانجام دیں وہ اب تاریخ کا حصہ بن چکی ہے ، اس جماعت کے دو میئر ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کی خدمت کرچکے ہیں اوروہاں کے لوگ اب بھی ان کی مثالی دیتے نہیں تھکتے ، گزشتہ 75سالوں میں ہم نے بہت سارے نظام دیکھے ، بہت ساری سیاسی جماعتوںکو آزمایا ، کیا یہ اچھا ہو کہ اس بار ہم جماعت اسلامی کو آزمائے ، وفاقی دارالحکومت ملک کے باقی شہروں کیلئے ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے ، یہاں کا نظام بھی مثالی ہونا چاہیے ، میاں اسلم ہمارے دیکھے بھالے اور آزمائے ہوئے وہ اس شہر سے ایک بار رکن اسمبلی بھی منتخب ہوچکے ہیںاور اپنے دور میں انہوں نے عوام کی بے مثال خدمت کی ، میئر بننے کے بعد یقینا وہ اس شہر کے نقشے میں کچھ نہ کچھ تبدیلی لائیں گے ، اسلام آباد کے شہریوں کو میرا یہ مشورہ ہے کہ ایک بار اسلام کے نام پر ووٹ دے کر دیکھیں ، یہ آپ کیلئے کار خیر ہوگا اور یقینا روز محشر آپ کو اس کا اجر بھی ملے گا۔