کالم

تاجروں کے بےنک قرضوں کی بلاجواز معافےاں

وزےر اعظم شہباز شرےف نے کامےاب ےوتھ پروگرام کے تحت قرضہ حاصل کرنے والے نوجوانوں سے توقع کی کہ وہ قرضہ حاصل کر کے اپنے کاروبار کو فروغ دےں گے اور ملکی معاشی ترقی مےں اہم کردار ادا کرےں گے ۔انہوں نے کہا کہ وہ مشکل معاشی صورتحال کے باوجود نوجوانوں کو سہولےات فراہم کرنے کےلئے پر عزم ہےں ۔وزےر اعظم کا کہنا تھاکہ نوجوانوں کےلئے گزشتہ قرضہ سکےموں مےں رےکوری کی شرح 99فےصد رہی جبکہ ماضی مےں امراء،اشرافےہ اور تاجروں نے اربوں روپے کے قرضے معاف کروائے۔وزےر اعظم کی جانب سے اشرافےہ کے قرضوں کی معافےاں اےک اےسا سچ ہے جس مےں کوئی دوسری رائے نہےں کہ ملک کی معےشت کو آج اس نہج پر پہنچانے مےں کلےدی کردار انہی افراد کا ہے ۔تےن دہائےوں سے عوام ان چند بڑے سےاسی گھرانوں اور بڑے کاروباری اداروں کے بےنک قرضوں کی معافی کا بھگتان بھگت رہے ہےں ۔
معزز قارئےن چور صرف وہ نہےں جو گھروں مےں اشےاءچوری کرتے ہےں بلکہ اربوں روپے کے قرضے لےکر کاروبار کے دےوالےہ ہونے کے نام پر قرضوں کی معافی بھی چوری ہے ۔قرضے معاف کرانے کی بہتی گنگا مےں ہاتھ دھونے والوں مےں سےاستدان ،فوجی افسران ،بےوروکرےٹس اور صنعتکار بھی شامل ہےں ۔ کون نہےں جانتا کہ بےنکوں کے قرضے کس طرح ملی بھگت سے معاف کرائے جاتے ہےں ۔ قرض کا تعلق تو غربت سے ہوتا ہے ۔اگر انسان صاحب استطاعت ہو تو کبھی قرض لےکر نادہندہ کہلانا پسند نہےں کرتا ۔مرزا غالب نے کہا تھا ۔
قرض کی پےتے تھے مے اور سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی اےک دن
کوئی زمانہ تھا کہ ہندو بنےا کسانوں اور ہارےوں کو سود در سود کے شکنجے مےں اےسا جکڑتا کہ ان کی پشتےں قرض اتارتے گزار دےتےں لےکن قرض نہ اترتا ۔قرض دراصل غربت کی اےک مجبوری کا نام ہے لےکن ہمارے ہاں قرض کا اےک نےا تصور سامنے آےا کہ قرض لو اور موج اڑاﺅ کےونکہ قرض کی واپسی کا بھی کوئی خدشہ نہےں ۔راقم سوچتا ہے کہ اگر کسی سے دس بےس ہزار کا ہی قرض لےا ہو تو عام آدمی کی راتوں کی نےندےں غارت ہو جاتی ہےں اور رہ رہ کر ےہی خےال پرےشان کرتا ہے کہ قرض خواہ کے تقاضے سے قبل ہی ےہ قرض کسی صورت ادا ہو جائے لےکن ہمارے وطن عزےز کے ےہ کےسے قائدےن ہےںکہ جن کا غربت سے دوردور تک کسی طرح کا تعلق نہےں اور دس بےس ہزار نہےں کروڑوں کا قرض پلک جھپکتے مےں معاف کروا لےتے ہےں ۔تارےخ اس حقےقت پر شاہد ہے کہ قےام پاکستان کے شروع کے چند برسوں کو چھوڑ کر پاکستان پر حکمرانی کرنےوالے اسے ان نظرےات پر نہ ڈھال سکے جن کے تحت ےہ ملک حاصل کےا گےا تھا ۔ہر آنے والا حکمران عوام کی ترقی و خوشحالی ،بے روزگاری کے خاتمے اور غربت کو ختم کرنے کے نعرے لےکر آےا لےکن ان پر عمل نہ ہو سکا۔قےام پاکستان کا سب سے بڑا فائدہ اقتدار سے وابستہ لوگوں کو ہوا جنہوں نے قومی بےنکوں کو گھر کی لونڈی سمجھ کر اربوں روپے کے قرض لئے اور پھر معاف بھی کروا لئے ۔ےہ استحصالی طبقہ جب بھی کرسی اقتدار پر مسند نشےن ہوتا رہا مزےد قرضوں کے حصول کی تگ و دو مےں جت جاتا رہا ۔پچھلے قرضے معاف ہو جاتے اور نئے قرضوں کی لسٹ پسندےدہ بےنک کے حوالے کر دی جاتی ۔بےنک بھی پچھلے پانچ سال سے زائد مدت کے دےے ہوئے قرضوں کو معاف کر کے سٹےٹ بےنک سے سرخرو ہو جاتا اور اپنی بےلنس شےٹ کو بہتر شکل مےں لے آتا ۔کئی دفعہ حکومتی بےنچوں اور حزب اختلاف کے درمےان قرضوں کی بلا جواز اور سےاسی اثرو نفوذ رکھنے والوں کےلئے معافی اےک طوےل بحث کا باعث بھی بنتی رہی ۔بلآخر اےسے معاملات کو مجلس قائمہ کے سپرد کر دےا جاتا اور وقت گزرنے پر ےہ معاملہ دب جاتا ۔اتنی بڑی رقوم کو معاف کر دےنا کسی پہلو سے بھی قابل ستائش عمل نہےں تھا ۔سےاسی مصلحتوں کے تحت مخصوص افراد اور گھرانوں ےا کاروباری اداروں کے قرضوں کی معافی کا جنرل ضےاءالحق کے دور اقتدار سے ےہ سلسلہ شروع ہوا ۔سرکاری بےنکوں سے قرضوں کی معافی کے کام مےں وسعت نواز شرےف حکومت نے دی ےعنی اپنی بقاءکےلئے قرض اور قرض بھی اتنا بھاری کہ واپس ہی نہ ہو سکے اور نہ ہی واپس کرنے کو جی چاہے ۔ماضی مےں مالےاتی اداروں کے سربراہان کی تعےناتی ان کی قابلےت اور بےنک مےں شاندار خدمات کی مرہون منت ہوتی تھی لےکن بعد ازاں اب ےہ پوسٹےں سےاسی بےک گراﺅنڈ کے حامل افراد کو ملتی ہےں ۔زرعی بےنک سے جو چھوٹے کسان پچاس ہزار تک کے زرعی قرضے لےتے ہےں اور غرےب عوام جو ہاﺅس بلڈنگ فنانس کارپورےشن اور دےگر مالےاتی اداروں سے قرض لےتے ہےں نادہندہ ہونے کی صورت مےں ان کو جےل کی ہوا کھانا پڑتی ہے اور قرض کی ادائےگی ہونے پر ہی جان خلاصی ہوتی ہے ۔مگر اب تو اربوں روپے کی معافی اےک رواےت بن گئی ہے ۔کسی بھی بےنک کی بےلنس شےٹ اٹھا کر دےکھ لےں ،قرضے معاف کرانے والوں کے اسم گرامی دےکھ کر حےرانی ہوتی ہے کہ ان لوگوں نے اےسی کون سی تجارت شروع کی تھی کہ وہ عوام کے پےسے کے ساتھ ساتھ بےنکوں کی رقوم بھی ادا نہ کر سکے اور بلآخر قرضے معاف کرانے کی ضرورت پےش آ گئی ۔دراصل ابتداءسے ہی ےہ لوگ اس خےال سے قرض لےتے کہ ان کے پےش روﺅں نے اربوں روپے ہضم کر لےے تو وہ بہتی گنگا مےں ہاتھ کےوں نہ دھوئےں ۔چشم کشا اعدادو شمار کے مطابق 1971ءسے1991ءتک 3.2 ارب روپے ،1991ءسے 2009ءتک 84.6ارب روپے اور 2009ءسے 2015ءتک 345.4ارب روپے معاف کروائے گئے ۔1990ءسے 2015ءتک سےنٹ مےں پےش کی گئی فہرست کے مطابق گزشتہ25سالوں مےں 988سے زائد کمپنےوں اور شخصےات نے 4کھرب 30 ارب 6کروڑ روپے کے قرضے معاف کرائے۔ان مےں 19کمپنےوں ےا افراد نے اےک ارب روپے سے زائد کا قرضہ معاف کرواےا ۔سےنٹ مےں پےش کی جانے والی دستاوےز کے مطابق 2015ءمےں اےک نجی کمپنی عبداﷲ اپےرےلز پرائےوےٹ لمےٹد نے 154ارب روپے کا قرضہ معاف کراےا ۔رےکسنز انجنئےر ز نے 53ارب روپے سے زائد کا قرض معاف کراےا ۔دستاوےز کے مطابق سال 2002ءمےں 5کروڑ سے زائد کا قرض معاف کرانے والی صادق آباد ٹےکسٹائل ملز کے ڈائرےکٹرزمےں شےرےں مزاری کا نام بھی شامل ہے ۔تحرےک انصاف کے نااہل ہونے والے سےکرٹری جنرل جہانگےر ترےن کی تاندلےانوالہ شوگر ملز نے 2005ءمےں 10کروڑ روپے سے زائد کا قرض معاف کراےا ۔سےنٹ مےں جو قرضہ معافی کی فہرست پےش کی گئی تھی دراصل کرپشن کی دےگ کے ےہ چند دانے تھے جن کی مالےت کم از کم پانچ کروڑ سے زےادہ تھی اگر پانچ کروڑ سے کم مالےت والے معاف شدہ قرضہ جات کی فہرست بھی تےار کر لی جائے تو معاف کی اور کرائی جانے والی رقم کی مالےت 2ہزار ارب سے بھی کہےں زےادہ بنتی ہے ۔حقےقت ےہ ہے کہ خےانت کے اس کاروبار مےں بےشتر سےاستدانوں اور کرپٹ سرماےہ داروں کے ہاتھ رنگے ہوئے نظر آتے ہےں ۔اےسی مثالےں صرف ہمارے ملک مےں دےکھنے کو ملتی ہےں ۔جنرل منٹگمری کی جنگ عظےم دوم مےں شاندار خدمات پر حکومت برطانےہ نے انہےں اعلیٰ سول اور فوجی تمغے دےے تھے ۔دوران جنگ اس جری جرنےل کے گھر کی دےوار بمباری کی وجہ سے مسمار ہو گئی تھی ۔جنرل منٹگمری نے گھر کی دےوار کی تعمےر کےلئے اےک درخواست برائے قرضہ حکومت کو دی تھی جس مےں اس نے اپنی شاندار خدمات کا ذکر کےا مگر حکومت نے بڑے واشگاف الفاظ مےں اس ہےرو کو جواب دےا کہ جو خدمات آپ نے کراﺅن کو دی تھےں اس کا معاوضہ آپ تنخواہ کی صورت مےں لے چکے ہےں ،رہا دےوار کی تعمےر کےلئے قرضہ ،ابھی جنگ کی وجہ سے بہت سے گھر مسمار ہو گئے ہےں حکومت جب بھی عوام کی بحالی کےلئے کوئی اقدام کرے گی تو آپ کو بھی ےاد رکھا جائے گا ۔وطن عزےز مےں کوئی ادارہ ےا ضابطہ اےسا نہےں جو استحصالی طبقے سے پورا پورا حساب لے سکے ۔آج وطن عزےز دےوالےہ ہونے کے قرےب ہے اور ضرورت ہے کہ بھاری سودی قرضوں مےں ڈوبی عوام اور مہنگائی کی چکی مےں پستے عوام کی حالت زار پر رحم کرتے ہوئے معاف کرائے گئے قرضے ان شخصےات سے واپس لےے جائےں ورنہ قرضے دےنے والوں کے اثاثے ضبط کر کے نےلامی کے ذرےعے ےہ رقم قومی خزانے مےں جمع کرائی جائے ،ےہی قرےن انصاف ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri