غلام مصطفیٰ
28 مئی 1998 ء سہ پہر تین بج کر سولہ منٹ پر راس کوہ کے پہاڑی سلسلے ( چاغی ) میں پاکستانی دفاع کو نا قابل تسخیر بنانے کے لیے جوبیٹن نعرہ تکبیر کی گونج میں دبایا گیا اس نے قوم کی تاریخ بدل دی ۔ سفارتی آداب بھول جانے والے ہمسائے کا لہجہ پھر ریشمی ہو گیا اور جنوب مشرقی ایشیا میں سرحد کے اس پار ایک دفعہ پھر امن کی آشا گائی جانے لگی۔ یہ امن کسی سمجھوتے کی بنیاد پر نہیں تھا بلکہ باہمی احترام اور طاقت کے توازن کی بنیاد پر تھا۔ یہ امن طاقت کے ذریعہ سے حاصل کیا گیا تھا تا کہ طاقت کے پجاریوں کو ان کی زبان میں بات
سمجھائی جاسکے ورنہ کمزوری کا مطلب بقول علامہ اقبال کے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
ملکی دفاع ایک ایسا مقدس فریضہ ہے جس سے کبھی کوئی محب وطن پاکستانی غافل نہیں رہ سکتا اور نہ اس کے لئے کسی قربانی سے دریغ کر
مئی 1998ء کا مہینہ ایک ایسا ہی وقت تھا جب ایک امن پسند ملک کے دفاع کو ایک ایسی آزمائش میں ڈالا گیا جس کا منہ توڑ جواب دینا نہ صرف ملکی سالمیت کے لئے ضروری تھا بلکہ قومی غیرت اور حمیت کا تقاضہ بھی تھا۔ الحمد للہ پاکستانی سیاسی و عسکری قیادت کے شانہ بشانہ پاکستانی عوام بھی اس آزمائش کی گھڑی میں پورا اترے اور ملکی دفاع کو نا قابل تسخیر بنانے میں اپنا حصہ ڈالا ۔
ملکی دفاع ہو یا معیشت اس کی بہتری میں اپنا حصہ ڈالنا ہر پاکستانی کا فرض ہے اور اس کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہر محب وطن پاکستانی کی ذمہ داری ۔ پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کی تاریخ اس ادارے کی قیادت اور اس میں کام کرنے والے افراد کی حب الوطنی اور احساس ذمہ
داری سے عبارت ہے۔ ایٹمی توانائی نے جہاں ملکی دفاع کو نا قابل تسخیر بنایا ہے وہاں اس سے ملکی معیشت اور لوگوں کے معیار زندگی کو بھی بہتر بنانے میں مدد حاصل ہوتی ہے۔
دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کے ختم ہوتے ہی دنیا میں ایٹمی توانائی کمیشن کی بنیاد 1956ء میں رکھی گئی تا کہ نیوکلئیر ٹیکنالوجی کے پرامن استعمال سے اس ملک کے لوگوں کو سماجی اور معاشی ترقی فراہم کی جا سکے ۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے زراعت میں تحقیق و ترقی کے لئے سندھ میں ٹنڈو جام کے مقام پر نیوکلیئر انسٹیوٹ آف ایگریکلچر (NIA) کے نام سے ادارہ قائم کیا گیا۔ اسی طرح کراچی میں کینسر کے علاج کے لیئے ایک مرکز قائم کیا گیا جو آج اٹامک انرجی کینسر ہسپتال کراچی کے نام سے قائم ہے۔ پھر اسلام آباد کے قریب نیلور میں سائنس کے دیگر شعبوں میں تحقیق و ترقی کے لئے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف نیوکلئیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (PINSTECH) کا سنگ بنیاد 1963 میں رکھا گیا ۔ اسلام آباد کے نزدیک واقع یہ پر فضا مقام
پاکستان کے پہلے ایٹمی ریسرچ ریکٹر کے لئے بہت موزوں تھا۔ یہاں طبعیات، نیوٹران کی سائنس، آئسوٹوپ کی پیداوار ، جدید میٹر یلیز کی تحقیق کے میدان میں سائنسدان ہمہ وقت تحقیقی عمل میں مصروف رہتے ہیں۔ یہاں 5 میگاواٹ کا ریسرچ ری ایکٹر 1-PARR بھی قائم کیا گیا بعد میں اسکی صلاحیت کو مقامی وسائل کی مدد سے 5 میگاواٹ سے بڑھا کر 10 میگا واٹ کر دیا گیا۔ یہ ریکٹر آج بھی نیوکلئیر آئیسوٹوپ مہیا کر رہا ہے، یہاں سے کینسر جیسے موذی مرض کے علاج اور تشخیص کے لئے ادویات کی کٹس ملک بھر کے کینسر ہسپتالوں کو
مہیا ہو رہا ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور پاکستان کے لیے زراعت کی اہمیت کو پہچانتے ہوئے اس شعبے میں PAEC نے خصوصی توجہ دی ہے۔ 1961ء میں NIA کے نام سے ٹنڈو جام سندھ میں ایٹمی توانائی کمیشن کے پہلے زرعی تحقیقاتی مرکز نے کام شروع کیا اور اب چار مراکز زرعی تحقیق کا کام بخوبی سرانجام دے رہے ہیں ۔ ان اداروں کی تحقیق کے نتیجے میں اب تک اجناس کی 150 سے زیادہ ایسی اقسام کو متعارف کیا گیا ہے جو بہتر پیداوار اور بیماریوں کے خلاف مدافعت رکھتی ہیں۔ یہ زرعی مراکز زرعی تحقیق اور نئی اقسام کی فصلوں کی تیاری میں دن رات کوشاں ہیں۔ حیاتیاتی طریقوں سے کیڑے مکوڑوں کا تدارک کلر زدہ اور سیم زدہ زمینوں کی بحالی، پانی کا زراعت میں با کفایت استعمال اور زمینی غذائی اجزا کی بحالی تحقیق کے خاص موضوعات ہیں۔ بائیو ٹیکنالوجی اور جینیٹک انجنئیر نگ کی سائنس اس عہد
میں ایک جدید علم کا درجہ رکھتی ہے۔ اس نئی جہت میں تحقیق کے لئے فیصل آباد کے نواح میں NIBGE کے ادارے کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ اس ادارے نے بایوٹیکنا لوجی اور جینٹک انجنئیر نگ کے علوم کی تحقیق اور ترویج میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس ادارے میں زرعی ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ فصلوں کی بہتر پیداوار ، بیماریوں کے تدارک اور زرعی ادویات پر تحقیق کے ساتھ ساتھ
اور نینو ٹیکنالوجی کے زرعی استعمال پر بھی کام ہو رہا ہے۔
ایٹمی بجلی پیدا کرنے کے لئے کراچی کے ساحل پر ملک کے پہلے ایٹمی بجلی گھر KANUPP کی تعمیر کا آغاز کیا گیا جس نے 1972 میں ایٹمی بجلی کی فراہمی شروع کر دی۔ 1974 میں جب ہمارے ہمسائے نے ایٹمی دھماکے کئے تو اس کی سزا میں پاکستان کے پہلے ایٹمی
گھر کا ایندھن اور پرزے روک لئے گئے۔ لیکن بحیرہ عرب کے کنارے کراچی کے ساحل کے پاس لگنے والے پہلے ایٹمی بجلی گھر سے شروع ہونے والا ترقی کا یہ ایسا سفر اسی طرح جاری رہا اور 50 سال سے بھی زائد عرصہ سے جاری ہے۔ عالمی برادری کی اس نا انصافی نے ہمارے جذبوں کو مزید تقویت دی اور اب پاکستان Nuclear Fuel کی ٹیکنالوجی میں خود کفالت حاصل کر چکا ہے۔ اس سفر میں
خود انحصاری کا حصول پاکستانی سائنس دانوں، انجینیر زاور ٹیکنیشنز پر قوم کے اعتماد کی روشن مثال ہے۔ دریائے سندھ پر چشمہ کے مقام پر لگائے جانے والے چارا ایٹمی بجلی گھر چشمہ یونٹ ون ۔ یونٹ ٹو ۔ یونٹ تھری اور یونٹ فور کامیابیوں کی ایک اور داستان سناتے ہیں ۔ 1991ء میں پاکستان اور چائنہ کے مابین پہلے ایٹمی بجلی گھر کے منصوبے سے شروع ہونے والے اس سفر کے آغاز کے بعد آج الحمد للہ ! چشمہ کے مقام پر 4 نیوکلیئر پاور پلانٹ 4-3-2-1-C مجموعی طور پر 1330 میگاواٹ بجلی نیشنل گریڈ کو مہیا کر رہے ہیں ۔ اس سے حاصل ہونے والی یہ محفوظ ، قابل بھروسہ اور با کفایت توانائی پاکستان کے نیوکلیئر پاور پروگرام
کو مضبوط بنیاد فراہم کرتی ہے۔ مسلسل پیداوار کے ریکارڈ بنانے والے یہ ایٹمی بجلی گھر ملکی تعمیر میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں اور یوں ملک میں بجلی کی کمی کو پورا کر رہے ہیں۔ پاکستان میں بجلی کے بحران سے ریلیف کے لیے حالیہ تعمیر کردہ 1100 میگاواٹ کا 2-K نیوکلیر پاور پلانٹ اور اتنی ہی پیداواری صلاحیت کے 3-K پلانٹ سے نیشنل گرڈ کو بجلی کی پیداوار شروع ہو چکی ہے۔ کراچی کے ساحل کے پاس ان پاور پلاٹس 2-K اور 3-K کی تعمیر کے بعد خوشحالی کے بعد تعمیر وترقی کا خواب پورا ہوگا۔ مجموعی طور پر پیشنل گرڈ کو 3500 میگاواٹ
سے زیادہ توانائی نیوکلیئر پاور سے حاصل ہو رہی ہے۔
سائنسی اداروں کی ترقی میں بین الاقوامی اداروں کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اٹامک انرجی کمیشن نے بھی کئی بین الاقوامی اداروں کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کئے ہوئے ہوئے ہے۔ پاکستان بین الااقوامی جوہری توانائی ایجنسی کا بانی رکن ہے۔ اس کے علاوہ یورپی جوہری ادارے CERN کے ساتھ باہمی تعاون کے معاملات بخوبی استوار ہیں۔ ورلڈ الیسوایشن آف نیو کلیئر آپریٹر WANO کے ساتھ بھی اچھے تعلقات ہیں ۔ اسی طرح ICTP کے ساتھ بھی سائنسی تعاون جاری ہے ۔ PAEC نے ہائی ٹیک انجینیر نگ کے شعبے میں ہیوی میکینیکل کمپلکس تھری (HMC-III) جیسے ادارے قائم کیے ہوئے ہیں جہاں پاکستان نیوکلئیر ریگولیٹری اتھارٹی کے لائیسنس کے تحت نیو کلئیر گریڈ کے ساز و سامان اور آلات کی مینو فیکچرنگ کا کام ہورہا ہے۔ اس طرح NCNDT کے ادارے میں پرزوں اور آلات کی عدم تخریب جانچ کے ساتھ خاص طرح کی ویلڈنگ اور مینوفیکچرنگ کی سہولت بھی میسر ہے ۔ یہ ادارے اپنی قومی خدمات کے
ساتھ ساتھ ملکی صنعتوں کو بھی جدیدترین مینوفیکچرنگ کی سہولت پہنچارہے ہیں۔ کینسر کا علاج ، نیوکلیئر میڈیسن اور اونکالوجی ایسا شعبہ ہے جس میں دکھی انسانیت کی خدمت کے بہت سے مواقع ہیں ۔ ریڈیشن کے ذریعہ سے کینسر کے علاج میں پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کا کردار قائدانہ ہے۔ کینسر کی مختلف اقسام کی تشخیص اور علاج کے لئے پاکستان کے طول و عرض میں 19 میڈیکل سنٹر PAEC کے زیر سایہ کام کر رہے ہیں جبکہ 20 واں مرکز مظفر آباد میں زیر تعمیر ہے۔
سنٹر میں کے۔ پی۔ کے میں 5 ، پنجاب میں 6 ، سندھ میں 5 اسلام آباد اور بلوچستان میں ایک ، ایک جبکہ گلگت بلتستان میں GINOR کے نام سے کچھ عرصہ پہلے ایک سنٹر تعمیر ہو چکا ہے۔ پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کے زیر انتظام ان 19 ہسپتالوں میں کینسر کے کل مریضوں کا 80 فیصد حصہ علاج معالجہ اور تشخیص کے لیے رجوع کرتا ہے۔ ان میں فراہم کردہ جدید سہولیات میں MRI PET-CT SCAN اور حال ہی میں مہیا کی گئی جدید Theranostic اور Cyber Knife سے علاج کی سہولت شامل ہے۔ تھیرا ناسٹک طریقہ علاج کینسر کے علاج میں ایک نئی ٹیکنا لوجی ہے جس سے کینسر کی رسولی اور اس سے متاثرہ حصوں کا علاج بہتر طریقہ سے ہوتا ہے اور اور عمومی جسمانی خلیات ضرر سے محفوظ رہتے ہیں۔ ابتدا میں یہ علاج لاہور میں واقع ادارہ انمول INMOL اور
اسلام آباد میں موجود اٹامک انرجی کینسر ہسپتال NORI میں شروع کیا گیا ہے۔ تربیت یافتہ اور ت اور تعلیم یافتہ افرادی قوت کسی ادارے کا اصل سرمایہ ہوتی ہے۔ اس ضرورت کے پیش نظر PAEC نے کئی تعلیمی ادارے قائم کیے ہیں۔ 24 سکول اور کا لجر تعلیم کے شعبے میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ انجنئیر نگ اور سائنس کی تعلیم کے لیے پاکستان
انسیٹیوٹ آف انجنئیر نگ اینڈ اپلائڈ سائنسز PIEAS کے نام سے ادارہ، کینوپ کے ایٹمی بجلی گھر سے منسلک KINPOE اور چشمہ سے نسلک ادارہ CHASCENT میں سائنسی اورفنی تربیت فراہم کی جاتی ہے۔ PIEAS میں نیوکلئیر انجنیر جنگ کے علاوہ سسٹم، میکینیکل ، پاور انجیر نگ۔ میڈیکل اورنکالوجی، میڈیکل فزکس اور سائنس کے بہت سے دوسرے مضامین میں تربیت فراہم کی جاتی ہے۔ KINPOE اور CHASCENT کے پروگرام خاص طور پر ادارے کے افراد کے لئے تربیت فراہم کرتے ہیں۔ یہاں نیوکلئیر پاور اور ٹیکنالوجی کی تربیت خاص طور پر ادارے کے انجنیر ز اور ٹیکنیشنز کو دی جاتی ہے۔ پاکستان بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی
سے اس خطے کے دیگر ممالک کو بھی زراعت اور نیوکلئیر میڈیسن کے شعبے میں خدمات فراہم کر رہا ہے۔
پاکستان کا دفاع ہو یا پاکستان کی معاشی ترقی ، پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن نے ہر میدان میں ہر اول دستے کا کردارادا کیا ہے۔ موجودہ مشکل معاشی حالات میں بھی اس ادارے کی قیادت اپنے فرض سے غافل نہیں ۔ شعبہ زراعت کا ہو یا صحت کا بجلی کی پیداوار ہو یا صنعت و
حرفت کا، پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن ملکی تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے ہمیشہ سر گرم عمل ہے۔ ہے۔ (غلام مصطفیٰ پیشے کے اعتبار سے ایک انجینئر اور مصنف ہیں۔ وہ سائنس اور ادبی موضوعات پر مضامین لکھتے رہتے ہیں )