Site icon Daily Pakistan

تحرےک آزادی مےں مولانا ظفر علی خان کا کردار

بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان بر صغےر کی مسلم سےاست کے روح رواں اور اردو صحافت کے بے تاج بادشاہ تھے ۔انہوں نے اپنی زندگی کے بہترےن شب و روز ملک و قوم کی بے لوث خدمت مےں بسر کئے ۔وہ متعدد مرتبہ در زنداں کو دستک دےتے رہے اور روزنامہ زمےندار کی بار بار ضمانتےں ضبط ہوتی رہےں لےکن ان کے پائے استقلال مےں خفےف سی لرزش بھی پےدا نہےں ہوئی ۔وہ برطانوی سامراج کی طرف سے قےدو بند کی صعوبتوں کو خندہ پےشانی سے جھےلتے رہے ۔بلآخر فولادی عزم و ہمت کے اس پےکر کو 27نومبر1956ءکے روز موت کے بے رحم ہاتھوں نے ہم سے چھےن لےا ۔مولانا ظفر علی خان بلاشبہ ہفت پہلو ،ہمہ صفت شخصےت تھے اور ان کی ذات کا کوئی پہلو بھی اےسا نہ تھا جو ان کے تشخص اور پہچان کا معتبر حوالہ نہ رکھتا ہو ۔تحرےک پاکستان مےں ان کے کردار کی بات ہو ےا سےاست و صحافت اور شاعری کاتذکرہ ،ذکر ان کی شعلہ بےانےوں کا ہو ےا ان کی ترجمہ نگاری موضوع سخن ہو ،وہ ہر جگہ بلند قامت ،صاحب عظمت و کردار اور روشنی کے مےنار کی طرح نظر آتے ہےں ۔دنےا کے کسی کونے مےں امت مسلمہ پر کوئی افتاد ےا کوئی مصےبت آتی تو وہ تڑپ جاتے ۔ان کا قلم مسلمانوں کی خاطر مخالفےن اسلام کے خلاف اےک ننگی تلوار تھا ۔ان کی تما م تر صحافتی زندگی دنےائے اسلام کے مفادات کے تحفظ اور برصغےر کے مسلمانوں کی آزادی سے عبارت ہے ۔وہ چاہتے تو اپنی زندگی عےش و آرام سے بسر کر سکتے تھے لےکن انہوں نے بر صغےر کے مسلمانوں کو ہندو اور انگرےز کی غلامی سے نجات دلانے کےلئے پھولوں کی سےج پر سونے کی بجائے کانٹوں بھرے راستے پر چلنے کو ترجےح دی ۔علی گڑھ کے اےک جلسے مےں انہوں نے اپنی جوانی کے اےام مےں اےک پرجوش نظم پڑھی تو سر سےد احمد خان مرحوم نے کہا کہ اس نوجوان کا مستقبل نہاےت درخشاں ہو گا ۔ان کی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگاےا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے جلےل القدر بانی قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے 1937ءکے دواران لاہور کی بادشاہی مسجد کے اےک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرماےا تھا کہ مجھے ظفر علی خان جےسے تےن چار بہادر اشخاص دے دےں ،مےں آپ کو ےقےن دلاتا ہوں تو پھر مسلمانوں کو کوئی طاقت شکست نہےں دے سکے گی ۔ان کی تحرےر کے طلسم کا حوالہ دےتے ہوئے علامہ اقبالؒ نے فرماےا تھا کہ ظفر علی خان کے قلم مےں مصطفی کمال کی تلوار کا بانکپن ہے ۔ مولانا شبلی نعمانی کا ارشاد تھا کہ لوح جہاں سے ظفر علی خان کا نام اور کام کبھی محو نہےں ہو سکتا ۔ داغ دہلوی نے ان کی خدا داد صلاحےتوں کو خراج تحسےن پےش کرتے ہوئے کہا تھا کہ پنجاب نے اقبال اور ظفر علی خان پےدا کر کے ماضی کی تلافی کر دی ہے ۔مولانا ابوالکلام آزاد نے ان کی تنظےمی خوبےوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر کسی تحرےک کو پروان چڑھانا مقصود ہو تو ےہ کام ظفر علی خان اور مولانا شوکت علی کے سپرد کر دو ،وہ دو برسوں کے کام کو ہفتوں مےں مکمل کر کے دکھا دےں گے ۔اسی طرح جلےانوالہ باغ کے خونےں ڈرامے کے مرکزی کردار گورنر جنرل پنجاب جنرل اڈرائر نے کہا کہ اگر مےں اس شخص کو بار بار پابند سلاسل نہ کرتا تو ےہ چند دنوں کے اندر برطانوی سامراج کی دھجےاں فضائے آسمانی مےں بکھےر دےتا ۔انہوں برطانوی سامراج کو للکارتے ہوئے فرماےا تھا ´۔
قسم ہے جذبہ حب الوطنی کی بے پناہی کی
ہمارا ملک غےروں کا غلام اب رہ نہےں سکتا
ہمےں زنداں مےں بھجواﺅ ےا تم پھانسی پہ لٹکاﺅ
مگر تمہارا ےہ نظام اب رہ نہےں سکتا
تحرےک پاکستان کے ممتاز کارکن جناب احمد سعےد کرمانی بتاتے ہےں اور ےہ بات تارےخ کا حصہ ہے کہ جب 1940ءمےں قرار داد لاہور لکھنے کا کا کام مولانا ظفر علی خان نے مکمل کر لےا تو قائد اعظمؒ نے اس کا مطالعہ کرنے کے بعد مولانا سے کہا put wisdom in itاور پھر ےہ مسودہ دوبارہ تحرےر کرنے کےلئے ملک برکت علی کو دے دےا ۔جب برکت علی نے ےہ مسودہ مکمل کر کے قائد اعظمؒ کی خدمت مےں ان کی رائے طلب کی ،مولانا جو دل کی بات زبان پر لانے مےں ذرہ بھر مصلحت آمےزی سے کام نہ لےتے تھے ،ےکدم گوےا ہوئے put heart in it کرمانی صاحب بتاتے ہےں کہ مولانا کی حاضر جوابی ، بے باکی ،صاف گوئی اور جرا¿ت قائد اعظم محمد علی جناحؒ بھی بہت پسند کرتے تھے ۔ےہی وجہ ہے کہ انہوں نے مولانا کی رائے کے احترام مےں ملک برکت علی کے تحرےر کردہ مسودے مےں چند ضروری ترامےم کرائےں جن کی طرف put heart in itکہہ کر مولانا ظفر علی خان نے اشارہ کےا تھا ۔مولانا ظفر علی خان کے کردار کی اےک خوبی ےہ بھی تھی کہ جن اےام مےں لوگ قائد اعظم ؒ کو اپنے ہاں ٹھہرانے سے گھبراےا کرتے تھے ،انہوں نے ان نامساعد حالات مےں قائد اعظم کا کھل کر ساتھ دےا ۔انہوں نے قائد اعظمؒ کی اپےل پر بنائی ہوئی تنظےم اتحاد ملت کو مسلم لےگ مےں مدغم کر دےا اور تحرےک پاکستان کو کامےابی سے ہمکنار کرنے کےلئے قائد اعظمؒ کے دوش بدوش خدمات انجام دےنے لگے ۔مولانا ظفر علی خان نے تقرےباً پندرہ برس تک قےدو بند کی صعوبتےں برداشت کےں ۔برصغےر کی آزادی کےلئے وہ ہر خار زار کو تختہ گل سمجھ کر گزر گئے ۔وہ قےد مےں ہوں ےا انگرےز کی قےد سے آزاد ان کا قلم ہمےشہ جدو جہد آزادی کےلئے علم و ادب کے موتی بکھےرتا رہا ۔ انہوں نے بر صغےر کے سوئے ہوئے مسلمانوں کو جگا کر جرا¿ ت و بے باکی کی مثال بنا دےا ۔ان کی للکار سے حکومتی اےوان لرزہ بر اندام رہتے تھے ۔ان کی پکار سے مسلمان سروں پر کفن باندھے صبح شام تےار رہتے تھے ۔مولانا ظفر علی خان کی ذات کو خدائے بزرگ و برتر نے بے پناہ خوبےوں سے نوازا تھا ۔وہ بےک وقت بلند پاےہ خطےب ،شعلہ بےان مقرر ،بے لوث ،نڈر اور بے باک قومی رہنما ،قابل تقلےد صحافی ،باشعور ادےب اور کھرے سےاستدان تھے ۔نظم و نثر کا مےدان ہو ےا صحافت کا اےوان ،آزادی¿ و سلامتی کی جنگ ہو ےا سےاست کا کوئی رنگ ،امت مسلمہ کے مسائل ہوں ےا قوت فکر کے دلائل غرضےکہ وہ ہر قدم پر عظمت و رفعت کے اےسے مےنار بن کر ابھرے جس کی روشنی نے بر صغےر کے مسلمانوں کے زوال کو عروج مےں بدل دےا
تو کہ پابند سلاسل رہا ہے برسوں
لشکر کفر کی طاقت سے بھی ٹکراےا ہے
تےرے نغموں نے ہمےں بخشی ہے ٹھنڈک دل کی
تےرے جذبوں نے لہو قوم کا گرماےا ہے
مولانا ظفر علی خان مسلم لےگ کی پےدائش کے ساتھ ہی مسلم لےگی ہو گئے جو اےک بہت بڑا اعزاز ہے ۔جب آل انڈےا مسلم لےگ کی بنےاد رکھنے کی مےٹنگ نواب سلےم اﷲ خان کی رہائش گاہ ڈھاکہ مےں منعقد ہوئی تو مولانا وہاں بھی موجود تھے ۔المختصر مولانا ظفر علی خان کی زندگی بلاشبہ روشنی کا استعارہ اور مےنارہ نور کی حےثےت رکھتی ہے ۔مولانا اصول فطرت کے تقاضوں کے ساتھ زندگی گزار کر چلے گئے اب ان کی ےادےں اور باتےں ہی ہمارا سرماےہ ہےں ۔
اب نہ آئے گا ظفر اےسا کمال علم و فن
گو بہت سے آئےں گے دنےا مےں رجال علم و فن
ہمےں قائد اعظم ؒ اور مولانا ظفر علی خان جےسے قومی محسنوں کے ودےعت کردہ تحفہ پاکستان کے استحکام اور سالمےت کےلئے اپنے اختلافات کو نظر انداز کرتے ہوئے فراموش کر دےنا چاہئے۔ےہ ملک ہمارے لئے عافےت کا اےک قابل قدر گوشہ ہے ۔ہمےں اس ملک کی قدر کرنی چاہئے جو لاکھوں جانوں کی قربانےوں کے بعد ہمےں حاصل ہوا ہے ۔

Exit mobile version