کالم

تشریح و تعبیرکا ہتھیار اور ترکش کے تیر

دیکھئے صاحب جب اقتدار اور اختیار کی جنگ ہو تو پھر ہر حربہ اختیارکیا جاتا ،ہر چال چلی جاتی اور ہر داو کھیلا جاتا ہے۔اگر عدالت کے پاس تشریح و تعبیر کا ہتھیار ہے تو پارلیمان کے ترکش میں بھی بے پایاں تیر ہیں۔دنیا بھر کی پارلیمانوں کو البتہ یہ اعزاز اور افتخار حاصل ہوتا ہے کہ فیصلہ کن فتح اور آخری قہقہ اسی کے حصے میں آتا ہے ۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس نے عدالتی اصلاحات سے متعلق پریکٹس اینڈ پروسیجر بل منظورکر لیا ہے۔یہ الگ بات اس دوران تحریک انصاف کے سینیٹرز اپنیڈفلی اور ڈگڈگی بجاتے رہے اور انہوں نے شدید احتجاج کیا ۔سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کی صدارت میں وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے عدالتی اصلاحاتی بل منظوری کےلئے پیش کیا۔ وزیر قانون نے کہا یہ بل منظوری کےلئے صدر مملکت کو بھیجا گیا تھا،صدر نے قومی اسمبلی اور سینٹ کا پاس کردہ بل پاس واپس بھیج کر ایوان کی توہین کی ہے، دونوں ایوانوں نے اس بل پر بحث کی تھی اور اسے پاس بھی کیا تھا، صدر مملکت نے اپنے خط میں جو سوالات اٹھائے ہیں وہ مناسب نہیں، بل پارلیمان کی صوابدید ہے، صدر کو مشورہ ہے کہ وہ اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کریں کسی سیاسی جماعت کے رکن نہ بنیں۔اس سے حکومت کے تیوروں کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اب لمبا کھیل کھیلنے کا ارادہ کر چکی ہے۔امید ہے موجودہ حکمران طیش نہیں تحمل اور جوش نہیں ہوش سے کام لیں گے۔پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں تندو تیز تقاریرکے علاوہ جارحانہ اور شعلہ بیاں تجاویز بھی پیش کی گئیں۔صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی کے انتخابات بیک وقت کرانے کی قراردا دیں بھی منظور کی گئی ہیں۔پنجاب اور پختونخوا میں انتخابات کےلئے فنڈز دینے کا بل بھی پیش کیا گیا۔ سپریم کورٹ کے حکم کے پیش نظر اب الیکشن کمیشن کو21 ارب دینے کا فیصلہ پارلیمان کے سپرد کر دیا گیا ہے ۔ وزیر اعظم شہباز شریف وزارت خزانہ کو ہدایت کر چکے ہیں کہ عدالتی حکم کے ضمن میں وزارت قانون سے بھی مشورہ کیا جائے۔ اب الیکشن کمیشن کو فنڈز پارلیمان کی منظوری سے مشروط ہو چکے ہیں ۔ دوسری جانب چیف الیکشن کمشنر نے بھی حکومت کو تجویز دیتے ہوئے کہا ہے کہ انتخابات کی تاریخ دینا الیکشن کمیشن کا اختیار ہونا چاہئے۔ہمارے ذرائع کے مطابق الیکشن کمیشن نے پارلیمان کو ملک میں انتخابات کروانے اور انتخابی شیڈول جاری کرنے سے متعلق الیکشن ایکٹ کی شقوں (1)57 اور 58میں ترامیم کرنے کی تجویز دی ہے۔چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف اور چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کو خط لکھ دیا ہے۔خط میں کہا گیا ہے کہ اسمبلی کی تحلیل کی صورت میں آئینی طور پر صدر کا انتخابات کی تاریخ دینے کا کوئی اختیار نہیں، پرامن اور شفاف انتخابات کروانے کی ذمہ داری صرف الیکشن کمیشن کی ہے اور کوئی ادارہ اس ضمن میں ہمارے اختیارات میں مداخلت کرنے کا مجاز نہیں ،اہم کیسز میں الیکشن کمیشن کی رٹ کو ختم کر دیا گیا ہے، ایسی صورت میںہم شفاف انتخابات کی ذمہ داری کیسے پوری کر سکتے ہیں،مجوزہ ترمیم کے حوالے سے سپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینٹ اپنا کردار ادا کریں۔ نئے سیاسی منظر نامے میں الیکشن کمیشن کو ملنے والے 21ارب کے فنڈز اب پیچھے چلے گئے ہیں۔اب یہ بحث نیا رخ اور الگ جہت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ہمیں اپنے ایک ذرائع نے بتایا ہے کہ حکومت 20 اپریل کا شدت سے انتظار کر رہی ہے جب مذکورہ بل قانون بن جائے گا ۔اس کے بعد حکومت سپریم کورٹ میں قانونی جنگ لڑے گی ۔ انتخابی فنڈز،الیکشن کمیشن کے اختیارات ، صدر مملکت کے غیر قانونی اقدامات اور نواز شریف کی واپسی اب اہم کیس اور مخصوص اپیلیں ہونگی جو عدالت عظمیٰ میں سنی جائیں گی۔دراصل حکومت تھوڑا وقت چاہتی تھی جو اسے مل چکا ہے ، اب عدالت اور پارلیمنٹ کے مابین آنیاں اور جانیاں لگی رہیں گی۔ایک بار پھر الیکشن کمیشن نے اپنا وزن پارلیمان کی حمایت کے پلڑے میں ڈال دیا ہے۔ہم نے انہی کالموں میں عرض کیا تھا کہ یہ الیکشن اتنی آسانی سے ہونے والے نہیں ۔ ہمارے اس تجزیے کی تصدیق پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے بھی ہوتی ہے کہ وہاں بلند آہنگ یہی قرار داد منظور کی گئی ہے کہ ملک بھر میں سارے انتخابات ایک ہی وقت میں کرائے جائیں۔دوسرا یہ بھی کہ ہم نے انہی ادارتی صفحات میں یہ بھی لکھا تھا کہ حکومت عدالت کے کہنے پر الیکشن کمیشن کو فنڈز نہیں دے گی۔اب دیکھئے کہ حکام نے کس خوبصورتی سے یہ بال پارلمینٹ کی کورٹ میں پھینک دی ہے۔ایک عدالتی ذرائع کے مطابق بیس اپریل کے بعد حکومت عدالت میں تین چار کے فیصلے پر بھی اصرار کرے گی۔ شہباز شریف اٹارنی جنرل منصور عثمان اور عرفان قادر سے اس معاملہ پر تفصیلی مشاورت کر چکے ہیں ۔ حکومت کو ٹھنڈے جھونکے عدالت کی دوسری طرف سے بھی آنے لگے ہیں ۔ دستور کی نصف صدی مکمل ہونے پر قومی اسمبلی کے کنونشن ہال میں جسٹس قاضی فائز عیسی نے بھی بہترین اور بلیغ ترین باتیں کہی ہیں۔انہوں نے ایک بات ایسی کہی جو سونے کے پانی سے لکھے جانے کے قابل ٹھہری۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں اپنے ادارے کی طرف سے کہتا ہوں ہم آئین کے ساتھ کھڑے ہیں ۔ تری ایسی سہانی آواز مکے اور مدینے ۔ ایسا لگتا ہے کہ اب حکومت بحران اور بھنور سے نکل رہی ہے ۔موسموں کی منہ زور ہوائیں چل تو سکتی ہیں مگر حکومت کا شجر گرا نہیں سکتیں۔پی ڈی ایم اب یکسو ہو کر سیاسی پتے پھینکے گی اور دھیمی دھیمی آنچ پر سیاسی ہنڈیا کو پکاتی رہے گی۔شاید یہی وجہ ہے کہ عمران خان جن کا دماغ اکثر آسمان سے بھی پرے ہوتا ہے ، اب وہ بھی مذاکرات کا راگ الاپنے لگے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri