کالم

توشہ خانہ

محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ توشہ خانہ ہی ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا یہ توشہ خانہ کا پہلا تحفہ یا پہلی گھڑی تھی جو عمران خان کو بطور وزیراعظم پاکستان ملی؟کیا یہ پہلا تحفہ تھا جو عمران خان نے بطور وزیراعظم قیمت ادا کر کے توشہ خانہ سے خریدا؟ اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر رٹ پٹیشن عنقریب سب کچھ بتا دے گی کہ اب تک کتنے اور کس قدر مالیت کے قیمتی تحائف، جو غیر ملکی سربراہان کی جانب سے دیے گئے تھے، توشہ خانہ سے خریدے گئے۔ وہ تمام تحائف جو توشہ خانہ میں جمع تھے، کون لے گیااور کس نے نایاب اور قیمتی اشیا کی من مانی قیمتیں مقرر کرا کر ان کی ادائیگیاں کیں اور پھر ان کو ایسے اپنے گھروں میں لے گئے کہ نہ کسی کو خبر دی گئی اور نہ ہی ان سے متعلق ابھی تک کیبنٹ ڈویژن عوام کو کچھ بتا رہا ہے۔ حکومت سے جب بھی فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ کے تحت توشہ خانہ کی تفصیلات طلب کی جائیں تو اسے سٹیٹ سیکرٹ قرار دے دیا جاتا ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان کو ملنے والے تحائف کی معلومات افشا کرنے پر کارروائی نہیں ہونی چاہیے؟ اوپر سے نیچے تک پوری کابینہ سیکرٹ قرار دی گئی معلومات کی مدد سے یہ ثابت کرنے پر لگی ہوئی ہے کہ عمران خان نے جو چند تحائف توشہ خانہ سے قیمتاً لیے، وہ عمل نہ صرف غیر قانونی بلکہ غداری جتنا سنگین جرم ہے۔ جبکہ اس سے پہلے حکومتیں جو تحائف ساتھ لے گئیں وہ جائز تھے۔ جیسے پیپلز پارٹی کے یوسف رضا گیلانی نے اپنے دور میں قوانین میں نرمی کرکے سابق صدر آصف زرداری اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کو توشہ خاسنہ سے گاڑیاں خریدنے کی اجازت دی تھی۔اس حوالے سے اسلام آباد کی احتساب عدالت نے حکومتی توشہ خانہ سے تحفے میں ملنے والی گاڑیوں کی غیر قانونی طریقے سے خریداری کے مقدمے میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر رکھے ہیںاسی طرح آصف زرداری نے بطور صدر متحدہ عرب امارات سے تحفے میں ملنے والی آرمڈ کار بی ایم ڈبلیو اور لیبیا سے تحفے ملنے والی بی ایم ڈبلیو توشہ خانہ سے خریدی ہیں۔آپ ماضی میں چلے جائیں،1997میں نواز شریف ترکمانستانی حکومت کا دیا ہوا قالین صرف 50 روپے دے کر اپنے گھر لے گئے تھے اور اپنے ڈرائنگ روم کی زینت بنا لیا تھا۔ اس کے بعد جناب قطر کے ولی عہد کا دیا ہوا بریف کیس صرف 875 روپے دے کر اپنے گھر لے گئے یعنی اپنے استعمال میں لاتے رہے۔ پھر 1999میں سعودی عرب سے ملنے والی 45لاکھ کی مر سڈیز میاں صاحب 6 لاکھ میں لے گئے تھے۔اسکے بعد سعودی حکومت کی دی رائفل جو1لاکھ سے زائد کی تھی، میاں صاحب 14ہزار میں گھر لے گئے۔ابو ظہبی کے حکمران کی طرف سے نواز شریف، مریم نواز بیگم کلثوم نوازمرحومہ کو 3گھڑیاں تحفے میں دی گئیں 2 گھڑیاں توشہ خانہ میں جمع کرا دیں۔ ایک گھڑی مریم نواز نے 45 ہزار میں نکلوا لی اس گھڑی کی قیمت 1999میں 10 لاکھ سے زائدتھی۔اس کے بعد شوکت عزیز (وہی شوکت عزیز جسے امپورٹ کرکے وزیراعظم لگایا گیا تھا) 26 کروڑ کے تحفوں کی قیمت 7 کروڑ لگوا کر ڈھائی کروڑمیں گھر لے گئے ۔انکے ساتھ ساتھ پرویز مشرف 4 کروڑ کے تحفے 55لاکھ میں گھر لے گئے۔ ان تحائف میں 2 پسٹل بھی تھے جو امریکی وزیر دفاع رمز فیلڈنے مشرف کو گفٹ کیے تھے۔ مشرف صاحب وہ پسٹل 19ہزار میں لے اڑے۔اور پھر ترکی کی خاتونِ اول سے ملنے والے ہار کا قصہ قوم کی نظروں سے اوجھل ہے جو سیلاب زدگان کےلئے عطیہ کیا گیا تھا، مگر وہ یوسف رضا گیلانی کی بیوی سے برآمد کروایا گیا، اور وہ بھی کورٹ کے ذریعے لیا گیا۔ یہ سب چیزیں ایک طرف مگر مران خان کی حکومت سے تیس،چالیس برس قبل تک پاکستان کو دنیا بھر سے ملنے والے توشہ خانہ کے نوادرات اور جواہرات سمیت کھربوں روپے مالیت کی اشیا اس وقت کہاں اور کس کے پاس ہیں، کیا اس پر انکوائری نہیں ہونی چاہیے؟ الغرض عمران خان کا قصور صرف یہ ہے کہ انہوں نے 20 فیصد کی شرح کو بڑھا کر 50 فیصد کر دیا اور اسی قصور کی انہیں سزا دی جا رہی ہے۔ ان کا واحد جرم یہ ہے کہ جو چیز پہلے اونے پونے داموں خرید لی جاتی تھی، اب اس کی کم از کم نصف قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ توشہ خانہ تو ایک کھلا کھانچہ تھا جس سے بڑے بڑوں کی دیہاڑیاں لگی ہوئی تھیں مگر عمران خان نے سارے عمل کو قانونی بنایا۔ اور پھر کیسے کیسے جھوٹ بولے جا رہے ہیں قوم کے ساتھ کہ ان کے خیال میں پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہی اس وقت توشہ خانہ کیس چل رہا ہے ۔ اس پر تو ایک شعر بھی بنتا ہے کہ
آنکھیں جھوٹ نظارہ جھوٹ
جوبھی ہے وہ سارا جھوٹ
ساگر جھوٹ کنارہ جھوٹ
دریا کا ہر دھارا جھوٹ
بہرحال ہو اب یہ رہا ہے کہ تمام میڈیا سیل مل کر اس ایشو کو اٹھا رہے ہیں، جس میں بڑی حد تک سبھی ناکام بھی ہوچکے ہیں،اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس کیس کا قوم سے کوئی لینا دینا بھی نہیں ہے۔ حالانکہ میں بھی خان صاحب کے بارے میں یہی سوچ رکھتا ہوں کہ انہیں گھڑی وغیرہ نہیں بیچنی چاہیے تھی، مگر اسے ہم صرف غیر اخلاقی حرکت ہی کہہ سکتے ہیں، اسکے علاوہ اور کچھ نہیں کہہ سکتے۔ اس لیے اصل مسائل کی طرف آئیں ورنہ آنےوالے دنوں میں ہم منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri