کالم

جسٹس قیوم مسیحاﺅں کے مسیحا

لوگ اچھے ہیں بہت کہ دل میں اتر جاتے ہیں
برائی ہے بس یہ ہے کہ وہ مر جاتے ہیں
دوستوں کے دکھ درد کو انکے چہرے سے پڑھنے والے مسیحا ﺅں کے مسیحاجسٹس ملک محمد قیوم معراج کی رات جمعتہ المبارک کو دنیا چھوڑ گئے ملک صاحب ایسے نفیس اورخوبصورت انسان تھے جن سے بار بار ملنے کو دل کرتا تھاوہ دوستوں کے دوست اور اپنے کام سے مخلص انسان تھے میں اکثر انکے دفتر جاکر گھنٹوں ان سے گپ سپ کرتا رہتا تھا اس دوران بہت سے لوگ آتے ملک صاحب انکے مسئلے مسائل انکے کہے بغیر ہی حل کردیتے اور وہ لوگ سلام دعا کے بعد چلے جاتے ملک صاحب سے گفتگو کرتے ہوئے وقت کا احساس ہی نہیں رہتا تھااس دوران یہ اندازہ ضرورہوتا تھا کہ دو کپ کافی اور تین کپ چائے ضرور پی لی ہے اکثر اوقات میاں احسان الحق ایڈوکیٹ بھی ہماری اس محفل میں موجود ہوتے جو ملک صاحب کے خاص دوستوں میں تھے میاں صاحب بھی کمال کے انسان ہیں اور رہی سہی کسر ملک صاحب کی صحبت نے پوری کررکھی تھی جج صاحب روزانہ دفتر آتے اور پھر اپنے کام کے ساتھ ساتھ دوستوں کی محفل کو بھی خوب انجوائے کرتے میں نے انہیں کبھی پریشان نہیں دیکھا بلکہ پریشان حال آنے والوں کو واپس بڑے سکون سے جاتے دیکھا ملک صاحب کے پاس ہر پریشانی کا حل تھا وہ کسی کو مایوس لوٹنے نہیں دیتے تھے ان سے ملکر ہمیشہ اپنایت کا احساس رہتا تھا انکے ساتھ تعلق نے جتنا مجھے اندر سے مضبوط کیا اس زیادہ میں باہر سے تھا ملک صاحب سے ملاقات بلا جھجک اور بلا دھڑک رہتی تھی انکے دفتر کے ساتھ ہی ایک خوبصورت اور دلیر قسم کے نوجوان کا کمرہ ہے جس نے ابھی سے وہ کام شروع کردیے جو بڑے بڑے وکیل اپنے دور حکمرانی میں نہیں کرسکے بار کی سیاست ہر کوئی کر رہا ہے مگر وکلاءکی فلاح وبہبود کے جو منصوبے ملک صاحب کے فرزند نے سر انجام دیدیے وہ بھی ایک مثال ہے ابھی ملک محمد احمد قیوم نے جعلی لا کالجز کا جو حشر کیا ہوا ہے وہ بھی پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے حالانکہ انہیں اس کام سے روکنے کے لیے مختلف غنڈہ گرد عناصر سے قتل کی دھمکیاں دی جارہی ہیں مگر ایک دلیر باپ کے بہادر بیٹے نے اس بات کا کسی سے ذکر تک کرنا گوارا نہیں کیا جس بہادری سے ملک قیوم صاحب نے عوام کی خدمت کی اسی طرح انکا بیٹا بھی کام کررہا ہے رہی زندگی اور موت وہ اللہ تعالی کے اختیار میں ہے ڈرنے والے عوامی خدمت کرسکتے ہیں اور نہ ہی پاکستان کی محمد احمد قیوم کے کارناموں کی تفصیل پھر کبھی تحریر کرونگا ابھی تو جج صاحب کی بہت سی باتیں کرنی ہیں میری ملک صاحب سے ملاقات آج سے تقریبا کوئی 10سال قبل فاروق اعظم ایڈوکیٹ نے کروائی فاروق اعظم بھی کمال کی شخصیت تھے ریگل چوک میں فاروق صاحب اور تاج محمد لنگا ہ کا مشترکہ دفتر تھا اور اس وقت میری رہائش بھی ریگل چوک کے ساتھ ہی تھی آتے جاتے فاروق اعظم صاحب کے دفتر بیٹھ کر سیاسی گفتگو کے ساتھ ساتھ اور بہت سی باتیں بھی ہوتی تاج محمد لنگاہ صاحب ملتان سے بہت کم آتے تھے اس لیے میں اور فاروق اعظم صاحب اکیلے ہی بیٹھ کر گپیں لگایا کرتے تھے فاروق اعظم صاحب بھی اب اس دنیا میں نہیں رہے ایک دن انہوں نے مجھے ساتھ لیا اور ہم ملک قیوم صاحب کے دفتر صفا ں والا چوک پہنچ گئے پہلی ملاقات میں ہی ملک صاحب نے پیار و محبت کی انتہا کردی اور انی باتیں دل میں اترتی گئی دیڑھ دو گھنٹے ایسے گزر گئے جیسے پانچ منٹ ہوں اٹھنے لگے تو ملک صاحب نے دوبارہ آنے کا کہہ دیا بس پھر اس کے بعد ملاقاتوں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوگیا میں نے اپنی زندگی میں ایسے خوبصورت انسان بہت کم دیکھے جو دوسروں کے دکھ اور درد کو اپنا سمجھنا شروع کردیں اس دوران سینئر صحافی سید ممتاز شاہ صاحب نے بھی لاہور سے مشرق اخبار شروع کیا تو میں انکے ساتھ بطور ایڈیٹر رپورٹنگ منسلک ہوگیا ممتاز شاہ صاحب بھی کمال کی شخصیت ہیں اور جسٹس ملک قیوم صاحب سے انکا دیرینہ تعلق مجھے تب معلوم ہوا جب پہلی بار ملک صاحب نے شاہ صاحب کی قصے سنائے اللہ تعالیٰ شاہ صاحب کو صحت تندرستی والی لمبی زندگی عطا فرمائے آمین وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ملک صاحب کے ساتھ ایک ایسا پیار ،محبت اور خلوص والا رشتہ پیدا ہوگیا کہ ایک دن انہوں نے ٹیلی فون کرکے مجھے بلایا اور کہا کہ آپ محمد کو سمجھاﺅ (ملک صاحب محمد احمد قیوم کو محمد کہتے تھے )وہ ہائیکورٹ کے جج کا حلف اٹھا لے یہ مواقع زندگی میںبار بار نہیں ملتے میں نے احمد صاحب سے بات کی تو انہوں نے صاف انکار کردیا کہ میں نے ابھی فی الحال جج نہیں بننا محمد احمد قیوم دنیا کے بہترین اداروں سے فارغ التحصیل ہیں اور وہ پاکستان میں بھی وہی نظام لانا چاہتے ہیں احمد صاحب جب لاہور ہائیکورٹ بار کے سیکرٹری بنے تو انہوں نے جہاں نوجوان وکلاءکیلئے بہت سے کام کیے وہی پر عمر رسیدہ وکلاءکے لیے بھی خدمت کی انتہا کردی اور خدمت کا یہ جذبہ انہیں وراثت میں ملا ہے جج صاحب سے میرا پیار ،محبت اور خلوص کا رشتہ تو تھا ہی ساتھ میں میں انکا عقیدت مند بھی تھامیں اپنی صحافتی زندگی میں بہت کم لوگوں سے متاثر ہواہو اور وہ گنتی کے چند افراد ہیں ملک محمد قیوم ان سب میں سرفہرست تھے ایسا خوبصورت انسان جس کے نہ صرف دفتر اور گھر کے دروازے ہمیشہ سب کےلئے کھلے رہتے تھے بلکہ انکے دل میں بھی داخل ہونے کے ہزاروں راستے موجود رہتے تھے جسٹس قیوم 18 دسمبر 1944 کو محمد اکرم کے ہاں پیدا ہوئے جو لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے جج بھی رہے جسٹس قیوم نے اپنے کیریئر کا آغاز 1964 میں بطور وکیل کیا تھا ملک صاحب 1970 میں لاہور بار ایسوسی ایشن کے سیکرٹری اورپھر 1980 میں اس کے صدر منتخب ہوئے تھے جب حکومت نے انہیں 1988 میں لاہور ہائیکورٹ کا جج بنایا تو وہ ڈپٹی اٹارنی جنرل کے طور پر کام کر رہے تھے جسٹس ملک قیوم نے 90 کی دہائی کے آخر میں ملک کے سرکردہ کرکٹرز کے خلاف میچ فکسنگ کے الزامات کی عدالتی انکوائری بھی مکمل کی جسکے بعد ملک صاحب دنیا بھر میں مشہور ہوگئے کیونکہ انہوں نے ٹیسٹ کرکٹر سلیم ملک پر الزامات ثابت ہونے پر تاحیات پابندی عائد کر دی تھی جسے آئی سی سی نے ”قیوم رپورٹ” کے نام سے سراہا تھا ملک قیوم مسلم لیگ ن کے سینئر سیاستدان پرویز ملک مرحوم کے بھائی اور اس وقت پنجاب کے عبوری سیٹ اپ میں صوبائی وزیر صحت ملک محمد جاوید اکرم کے بھائی ہیں ملک صاحب کے بیٹے بیرسٹر احمد قیوم لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق سیکرٹری اور پنجاب بار کونسل کے رکن ہیں جو ہو بہو اپنے والد کی کاپی ہیں اور انکے اندر اپنے والد اور دادا کی خصوصیات پائی جاتی ہیں ملک صاحب سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر وکیل اور آئینی معاملات پر اعلیٰ عدلیہ میں بیٹھنے والے بنچوں کو انکی خواہش پر مشورہ بھی دیتے تھے جسٹس ملک قیوم کا انتقال 17 فروری 2023 کومعراج النبی کی رات بروز جمعتہ المبارک لاہور میں 79 سال کی عمر میں ہوا انہیں میانی صاحب قبرستان میں سپرد خاک کیا گیااللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے آمین۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri