Site icon Daily Pakistan

جمہوری اور ہابرڈ نظام حکومت کی غلط ترجیحات!

پاکستان ہمیشہ سے بصیرت، دور اندیش، غیر لچکدار، غیر متکبر اور وژن کی حامل قیادت کے فقدان کی وجہ سے ہمہ جہتی چیلنجز سے دو چار رہا ہے۔ناتجربہ کار جمہوری حکومتوں اور ہابرڈ نظام حکومت کی غلط ترجیحات، مجموعی نا کامیوں اور مضمرات نے ہماری قومی زندگی میں اسقدر جھول اور کجیاں پیدا کر دی ہیں کہ لوگوں کا نظام حکومت اور ریاستی بندوبست سے اعتماد اٹھ گیا ہے عوام اپنی معاشی بد حالی، عدم تحفظ اور ریاستی اداروں کی ناانصافی سے اس قدر زچ اور بے چین ہیں کہ کسی بھی وقت ان کے صبر کے پیمانے ٹوٹ سکتے ہیں اور جذبات کا آتش فشاں پھٹ سکتا ہے۔ ہ لوگوں کا انتخابات کے مسلسل انعقاد کے ذریعے ارتقا ئی اصلاحی عمل سے ایمان اٹھ چکا ہے جو معاشرے کے لیے اچھا شگون نہیں ۔ مارچ 2022 میں پی ڈی ایم کی جماعتوں اور اس وقت کے مہربان پتہ نہیں کیسے اس ایک نکتہ پر متفق ہو گئے کہ ساڑھے پانچ فیصد معاشی شرح نمو والی حکومت کو جلد از جلد ختم کر دیا جائے تاکہ ملک کو دیوالیہ ہونے سے پچایا جا سکے مگر اس کے بعد جو حشر پی ڈی ایم اور نگران حکومتوں کے دو سالہ دور میں عوام کے ساتھ ہوا ہے، اللہ یہ دن کسی دشمن کو بھی نہ دکھائے۔ 12 کڑوڑ لوگ بھوک، افلاس اور مردوں سے بدتر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔300ارب کی ناقص گندم امپورٹ کر کے کسانوں کی گندم ٹکے سیر کر دی گئی ہے۔سابق وزیراعظم انور الحق کا کڑ نے جرات سے اس فیصلے کی ذمہ داری قبول کی مگر اس کےخلاف کارروائی کرنے کی بجائے چند سرکاری ملازمین کو قربانی کا بکرا بنا کر معاملہ دبا دیا گیا۔ سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس کی سماعت میں عمران خان سے سوال کیا کہ کیا وہ حالات کی خرابی کو روکنے کے لیے حکومت سے مذاکرات کریں گے تو ان کا جواب تھا کہ فارم47پر قائم ہونے والی جعلی حکومت سے کیسے مذاکرات کیے جا سکتے ہیں ۔اس وقت ملک پر غیر اعلانیہ مارشل لا ہے اس پر قابل احترام جسٹس جمال مندوخیل نے بڑی صائب بات کی کہ حالات اگر واقعی اتنے خطرناک ہیں تو ساتھی سیاست دانوں کےساتھ بیٹھ کر انہیں حل کریں جب آگ لگی ہو تو یہ نہیں دیکھتے کہ پانی پاک ہے یا ناپاک،بلکہ آگ بجھائی جاتی ہے۔پاکستان کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں میں چھپے غیر جمہوری قوتوں کے نمائندے کسی صورت میں گورا نہیں کرتے ہیں کہ سیاسی محاذ آرائی ختم ہو اور پارلیمنٹ میں سیاسی جماعتوں کے نمائندے باہمی افہام و تفہیم سے ملک کو قانون اور آئین کی حقیقی روح کے مطابق چلائیں۔ فروری 2024 کے الیکشنز میں حکومتی سرپرستی میں اسقدر وسیع پیمانے پر دھاندلی کر کے تحریک انصاف کو فکس نہ کیا جاتا تو آج عمران خان کا رویہ اسقدر بے لچک نہ ہوتا اور ملک میں سیاسی ڈیڈ لاک کی کیفیت نہ ہو تی۔ظاہر ہے تحریک انصاف کیسے اپنا جا ئز مینڈیٹ چھیننے والوں سے سیاسی مذاکرات پر آمادہ ہو گی۔ موجودہ ہابرڈ نظام میں پارلیمنٹ بالکل غیر متعلق ہو چکی ہے۔پارلیمنٹ کے اندر اور باہر شدید سیاسی محاذ آرائی جاری ہے عوام کا اعتماد اٹھ چکا ہے ایسا اداراتی بریک ڈاون ہو چکا ہے جسکی کہیں کوئی مثال دکھائی نہیںملتی۔ اعلی عدلیہ کے ججز مسلم لیگ کے لیڈرز کے حق میں فیصلے دیں تو نواز شریف کے حواری ان کے لیے رطب السان دکھائی دیتے اور اگر عمران خان کو سائفر کیس میں ریلیف مل جائے تو ججز کی کردار کشی کی مہم شروع کر دیتے ہیں کیونکہ ہمارے ہاں یہ روش چل نکلی ہے کہ اپنے لیے سب درست اور دوسرے کےلئے سب غلط تو پھر کیسے یہ ملک مہذب جمہوری ملکوں کی طرح پھل پھول سکے گا اس وقت اگر عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ سیاسی جماعتوں کے درمیان آئینی اور سیاسی سمجھوتا کرائے ۔ دو سال کے بعد مڈ ٹرم فری اینڈ فیئر الیکشن سپریم کورٹ کے حاضر سروس جج کو الیکشن کمیشن کا اضافی چارج دے کر کروائے جائیں حکومت اور اسمبلیوں کی مدت چار سال ہو۔ معیشت کی بحالی پر ایک طویل المدت روڈ میپ پر ہر حکومت عمل کرنے کی پاپند ہو۔ انتخابی عمل کو پاک صاف اور منصفانہ بنانے کےلئے ووٹنگ کا نظام الیکٹرانک مشینوں کے ذریعے سرانجام دیا جائے اور شکایات پر تین ماہ کے اندر ہائیکورٹ کے ججز پر مشتمل ٹربیونلز انتخابی عذرداریوں کا فیصلہ کرنے کے پابند ہوں اس وقت 9 مئی کے واقعات کے حوالے سے جو سلوک سیاسی خواتین ورکرز کے ساتھ کیا جا رہا ہے وہ دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی کا باعث بن رہا ہے، مریم نواز خاتون ہیں خود بھی جیل میں رہی ہیں مگر لگتا ہے کہ وہ بے اختیار ہیں ان کی پنجاب پولیس ان کے ماتحت نہیں ہے کہ وہ بار بار عالیہ حمزہ، صنم جاوید اور ڈاکٹر یاسمین راشد کو ایک مقدمہ میں رہائی کے بعد کسی دوسرے مقدمے میں گرفتار کر لیتی ہے۔ایسا وہ مریم نواز سے پوچھ کر نہیں کرتے چلیں خواب دیکھنے میں کیا حرج ہے کہ انتخابات ہوں اور اس کی شفافیت پر کوئی سوال نہ کرے اور تمام سیاسی جماعتیں کسی متفق علیہ نظام پر متفق ہو جائیں اور محاذ آرائی کا کوئی بہانہ پیدا نہ ہو تو شاید یہ ملک درست پٹری پر چڑھ جائے۔ تا ہم ہمیں ضرورت ہے۔ 1۔قانون کی حکمران اور میرٹ کو یقینی بنایا جائے ۔ 2۔تمام شعبے اپنے ذمے ٹیکس ادا کریں اور بالواسطہ ٹیکسوں کی شرح کم سے کم ہو ۔1،بلیو بک پر درج پروٹوکول کے تمام ضابطوں اور سیکیورٹی کے طریقوں پر نظرثانی کی جائے اور حکمران ایرانی حکمرانوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سادہ طرز زندگی اختیار کر یں ۔4،نیب کے ادارے کو سیاسی انجینئرنگ کےلئے قطعا ًاستعمال نہ کیا جائے یا اس کے جگہ سپریم کورٹ کے حاضر سروس جج کی سربراہی میں احتساب کا مستقل اور غیر متنازع نظام قائم کیا جائے۔5۔غیر پیداواری اخراجات کو مکمل طور پر ختم کیا جائے اور افسر شاہی کو قوم کا حقیقی معنوں میں خادم بن کر فرائض منصبی انجام دینے پر مجبور کیا جائے۔6۔عدلیہ میڈیا پر حکومتی اور ریاستی سطح پر کوئی دباو¿ نہ ہو تاکہ وہ مکمل طور پر غیر جانبدار ہو کر اپنے فرائض سر انجام دیں 7_عام آدمی کو تعلیم، صحت، رہائش اور بنیادی ضروریات کی بہتر سہولیات کو کم نرخوں پر فراہمی کو یقینی بنایا جائے 8_عوام کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کےساتھ ساتھ انہیں فوری اور سستی انصاف کی فراہمی بھی ریاست کی بنیادی ذمہ داری ۔

Exit mobile version