پاکستان تاریخی نہج پر کھڑا ہے، سیلاب سے ناقابل تلافی نقصان ہوچکا ہے۔اس کڑے وقت میں جینوا کانفرنس میں عالمی برادری اور عالمی اداروں نے امداد کا اعلان کیا ہے جو کہ خوش آئند بات ہے۔ ہم عالمی برادری کے مشکور وممنون ہیں کہ انھوں نے پاکستان اور انسانیت کی مدد کا اعلان کیا ہے ۔ اسلامی ترقیاتی بنک نے چار اعشاریہ دو ارب ڈالر، عالمی بنک دو ارب ڈالر،اے ڈی بی نے ایک اعشاریہ پانچ ارب ڈالر، سعودی عرب نے ایک ارب ڈالر، جاپان نے77ملین ڈالر، یو ایس ایڈ نے 100 ملین ڈالر، فرانس نے ایک کروڑ ڈالر، یورپی یونین 93ملین ڈالر،جرمنی8کروڑ70 لاکھ یورواور چین نے100ملین ڈالر کا اعلان کیا، جینوا کانفرنس میں مجموعی طور پر 10.60ارب ڈالر امداد کا اعلان کیاگیا ،مشکلات کی اس گھڑی میں عالمی برادری نے پاکستان کا ساتھ دیا اور ان کی امداد کا اعلان کیا۔جینواءکانفرنس میںاقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گو تریس نے کہا کہ "ماحولیاتی تبدیلی سے پوری دنیا کو خطرات لاحق ہیں،اثرات سے آج پاکستان متاثر ہوا ہے ، کل کوئی دوسرا ملک بھی متاثر ہوسکتا ہے ۔ انتونیو گو تریس نے کہا کہ پاکستان میں سیلاب سے ہونے والی تباہی کا خود مشاہدہ کیا، پاکستان میں سیلاب سے تباہی کے مناظر دیکھ کر دل ٹوٹ گیا۔ اس سیلاب نے نوے لاکھ لوگوں کو خط غربت سے نیچے دھکیل دیا ہے ۔ پاکستان کے بنیادی ڈھانچے میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے ، پاکستان کو اس وقت مشکل صورت حال کا سامنا ہے۔عالمی برادری کا فرض ہے کہ پاکستان کی بھرپور مدد کرے، انفراسٹرکچر کی بحالی کےلئے بڑے پیمانے پر اقدامات کی ضرورت ہے اور تین سال میں16.3بلین ڈالر امداد درکار ہے ۔ "وزیراعظم پاکستان شہبازشریف نے کہا کہ سیلاب سے تعلیمی اداروں ، مکانات ،زراعت اور دیہاتوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے، مشکل وقت میں مدد کرنے والوں کو پاکستان نہیں بھولے گا۔” جنیوا کانفرنس کے دوسرے سیشن کی صدارت وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کی جس میں سعودی عرب ، آذربائیجان ،اٹلی ، سویڈن ، ڈنمارک ،کوریا ، مصر ، یورپی یونین ، کینیڈا، ہالینڈ، انڈونیشیا، کویت ، لکسمبرگ ، اقوام متحدہ اور گرین میٹ فنڈ کے نمائندوں نے خطاب کیا اور سیلاب متاثرین کی بحالی وتعمیر میں مدد کےلئے پاکستان کو ہرممکن تعاون کا یقین دلایا۔ہمارے پڑوسی ملک ایرانی مندوب نے ایل پی جی کے ذریعے توانائی کے شعبہ میں تعاون کا اعلان کیا اور کینیڈا نے 18.6 ملین ڈالر امداد کا اعلان کیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ2018ءسے پاکستان اور عوام کی حالت بہت خراب ہوچکی ہے،اس میں کووڈ19 ، سیلاب اور حکمرانوں کے غیر دانشمندانہ فیصلوں سے عوام اور ملک کا ناقابل تلافی نقصان ہوچکا ہے۔اس مشکل وقت میں سیاستدانوں کو سیاست کی بجائے ریاست پر توجہ دینی چاہیے تھی،صدر ، وزیراعظم،گورنرز، وزراے اعلیٰ ، صوبائی و وفاقی وزراءوغیرہ سب کو سرکاری اخراجات پرکھانوں، بیٹروں وغیرہ کے کھانوں، سرکاری دعوتوں سے پرہیز کرنا چاہیے تھا، اب بھی ان کو عوام کے ٹیکس کی بجائے اپنی جیبوں سے کھانا چاہیے ، ملک کے خزانے پر بوجھ نہیں بننا چاہیے ، ان سب کو تنخواہیں اور دیگر مراعات بھی نہیں لینی چاہیے۔عوام کی حالت بہت پتلی ہے، حکمران اور اشرافیہ اب ملک اور عوام پر رحم نہیں کریں گے تو پھر یہ کب رحم کریں گے؟لوگوں کی حالت یہ ہے کہ ایک گٹو آٹے کے پیچھے ان کی جان چلی جاتی ہے، جس قصبے یا شہر میں آٹے کا ٹرک چلا جائے تو پورا شہر اُمنڈ آتا ہے اور آٹے کے ایک گٹو کےلئے لڑتے ہیں ۔یوٹیلٹی سٹوروں پر آٹا یا گھی وغیرہ آجائے تو لوگ صبح پانچ بجے سخت سردی اور دھند میں یوٹیلٹی سٹوروں کے دروازوںپر بیٹھ جاتے ہیں ۔ صرف سیلاب زدہ علاقے نہیں بلکہ پورے پاکستان میں لوگوں کی حالت بہت کمزور ہوچکی ہے۔ عوام آٹے کے گٹو کےلئے دربدر ہیںجبکہ حکمرانوں ان کے ٹیکسوں پر عیاشیاں کریں تو دکھ اور افسوس ہوتا ہے۔ پاکستان میں جو لوگ بجلی، گیس ، پٹرول ،ڈیزل ٹیلی فون ، علاج، گھر، گاڑی وغیرہ اپنی جیب سے خرید سکتے ہیں، ان کےلئے یہ ساری چیزیں ان لوگوں کے ٹیکسوں سے بالکل مفت فراہم کی جاتی ہیں۔ بجلی ، گیس، پٹرول ،ڈیزل ٹیلی فون ، علاج، گھر، گاڑی وغیرہ تو عوام کو مفت ملنی چاہیے کیونکہ وہ یہ سہولےات خرید نہیں سکتے ہیں۔ سرکاری خزانہ عوام کےلئے ہوتا ،وزیروں کےلئے نہیں ہوتا لیکن وطن عزیز میں الٹی گنگا بہتی ہے، جس کے پاس سب کچھ موجود ہے ،ا ن کو چیزیں مفت فراہم کی جاتی ہیں، جن کے پاس کچھ نہیں ہے ،ان بچاروں کو کچھ بھی نہیں دیا جاتا ہے۔اشرافیہ نے ماضی میں جو کچھ کیا ہے ، اب تو ملک اور عوام پر مزید بوجھ نہ بنیں ۔ اس مشکل وقت میں آئی ایم ایف کا کردار افسوسناک ہے۔آئی ایم ایف نے کھبی وزراءوغیرہ کے سرکاری اخراجات پر عیاشیوں کی پابندی کی بات نہیں کی ہے۔ ڈالر کو بے لگام کرو، آئی ایم ایف بجلی ، گیس ، پٹرولیم مصنوعات اور توانائی کے دیگر ذرائع مہنگی کرنے پر زور دے رہا ہے ۔ان سے نہ صرف مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ تجارت پر بھی برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ آئی ایم ایف کی پالیسیوںاور شرائط سے غربت اور افلاس میں مزید اضافہ ہوتا ہے اور انسانیت کا نقصان ہورہا ہے۔اب تو دنیا بھر میں لوگ یہی مطالبہ کرنے پر مجبور ہیں کہ عالمی برادری آئی ایم ایف جیسی تنظیموںپر پابندی لگائیں کیونکہ ان کی پالیسیاں انسان دشمن ہیں۔ان کی ایجنٹوں اور ان کے مافیا سے غریب ملکوں کا بہت نقصان ہورہا ہے ۔ آئی ایم ایف ، ان کے ایجنٹوں اور ان کے مافیا پر پابندی وقت کا تقاضا ہے۔ایسی تنظیموں کے باعث عام لوگ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ہورہے ہیں،ان کیخلاف نفرت میں اضافہ ہورہا ہے اور ایسی تنظیموں کے باعث امریکہ اور دیگر ممالک کا بھی نقصان ہورہا ہے۔آئی ایم ایف کو چاہیے تھا کہ وہ اس مشکل وقت میں پاکستان اور پاکستانیوں کی بھرپور مدد کرتے،وہ پاکستان کو کسی شرط کے بغیر قرض دیتے لیکن انسان دوست کام یا پالیسی ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔انسانیت کا احترام ناگزیر ہے اور انسانیت کا خیال کرنا سب کا فرض ہے ۔ عالمی برادری پاکستان کی مدد کےلئے آگے بڑھی ہے، اس کی سب تعریفیں کررہے ہیں۔ جینواءکانفرنس میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گو تریس نے درست کہا ہے ماحولیاتی تبدیلی سے پوری دنیا کو خطرات لاحق ہیں، اثرات سے آج پاکستان متاثر ہوا ہے ، کل کوئی دوسرا ملک بھی متاثر ہوسکتا ہے ۔ عالمی برادری کو ماحیولیاتی تبدیلی کے ایشو پر بھی عملی طور پر کام کرنا چاہیے۔پنجاب میں اسموگ کا راج بھی انتہائی نقصان دہ ہے۔ اس سے انسان ، حیوان ، چرند ، پرند اور نباتات کا بہت زیادہ نقصان ہورہا ہے ۔مالی نقصان کے ساتھ ساتھ جانی نقصان بھی ہورہا ہے ۔اسموگ کو بھی ختم کرنے کےلئے عالمی برادری کو آگے بڑھنا چاہیے،پاکستان اور بھارت کے مختلف اداروں کو بھی اس کےلئے عملی اور ٹھوس اقدامات اٹھانے چاہئےں ، کوتاہی کے مرتکب عناصر کو بے نقاب کرنا چاہیے اور ان کو سخت سزا بھی دینی چاہیے ۔ قارئین کرام!ہم پاکستان کی امداد کے اعلان پر اقوام متحدہ، اسلامی بنک ، ایشیائی بنک ، عالمی بنک ، یو ایس ایڈ، یورپی یونین ، امریکہ، چین ، جاپان ، جرمنی ، فرانس ، کینیڈا، سعودی عرب ، آذربائیجان ،اٹلی ، سویڈن ، ڈنمارک ،کوریا ، مصر ، ہالینڈ، انڈونیشیا ، کویت ، ایران، لکسمبرگ سمیت تمام ممالک ، مالیاتی اداروں ، عہدہ داران اور سب افراد کا ہم ایک بار پھر شکریہ ادا کرتے ہیں اور ان کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔