حجاب تنازعہ، دنیا بھر میں بھارت کے خلاف مظاہرے
بھارت کی ریاست کرناٹک میں مسلمان خواتین پر تعلیمی اداروں میں حجاب پہننے کی پابندی کا تنازع بین الاقوامی طور پر نئی دلی کے لیے سفارتی درد سر بنتا جا رہا ہے جسے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم کا ایک حصہ کہا جا رہا ہے ۔ بھارت کی ریاست کرناٹک میں گذشتہ ڈیڑھ ماہ سے کئی کالجوں میں حجاب پر طالبات اور انتظامیہ کے درمیان اختلاف جاری ہیں اور یہ معاملہ اب ہائی کورٹ میں ہے ۔ بھارت میں برسراقتدار انتہا پسند جماعت بی جے پی کی ریاستی غنڈہ گردی کے خلاف کویتی پارلیمنٹ کے 22 اراکین کے دستخطوں پر مشتمل مذمتی بیان جاری کیا گیا ہے ۔ جس میں حجاب کو مسلمان خواتین کا شرعی اور آئینی حق قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ بھار ت سرکار کی جانب سے مسلم خواتین کو حجاب ترک کرنے کو درحقیقت اپنا دین اور سماجی شناخت چھوڑنے پر مجبور کرنا ہے ۔ بیان میں بین الاقوامی انسانی حقوق سمیت اسلامی تنظیمو ں ، حکومتوں اور کویت کی وزارت خارجہ سے بھارت کی انتہاپسند سرکار کو 20 کروڑ مسلمانوں کے خلاف جاری وحشیانہ اقدامات روکنے پر دباوَ ڈالنے کا مطالبہ کیا گیا ہے ۔ کویت ارکان پارلیمنٹ نے اسپیکر کو لکھے گئے خط میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے ارکان پر کویت میں داخلے پر پابندی کا مطالبہ کیا ہے ۔ خط میں کہا گیا ہے کہ بھارت مسلمانوں کے ساتھ نارواسلوک کر رہا ہے اور مسلمان خواتین کے تشخص کو پامال کر رہا ہے ۔ کویت سٹی میں بھارتی سفارتخانے کے سامنے مسلمانوں اور حجاب کے حق میں عوامی مظاہرہ کیا گیا تھا، جس میں کویتی و دیگر غیر ملکی مسلم خواتین نے بڑی تعداد میں شرکت کی تھی ۔ حال ہی میں امریکہ کے بین الاقوامی مذہبی آزادی کے سفیر کے بیان کے بعد اسلامی تعاون تنظیم کی جانب سے بھی بھارت میں مسلمان مخالف رویوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا ہے کہ بھارتی حکومت مسلمانوں کے تحفظ کو یقینی بنائے اور ساتھ ہی ساتھ اقوام متحدہ سے بھی اس معاملے پر اقدامات کرنے کی اپیل کی گئی ہے ۔ بھارتی ریاست کرناٹک میں ہائی کورٹ کی طرف سے تعلیمی اداروں میں طالبات کے حجاب پہننے پر پابندی کے خلاف بھارتی نژاد امریکی مسلمانوں نے ٹیکساس کے شہر ہوسٹن میں احتجاج کیا ۔ سو سے زیادہ افراد نے جن میں خواتین کی ایک بڑی تعداد شامل تھی کرناٹک حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ مسلم طالبات کے ساتھ امتیازی سلوک کو فوری طور پر بند کرے جنہیں حجاب اتارنے پر مجبور کیا جا رہا ہے ۔ مظاہرین نے پلے کارڑز اٹھا رکھے تھے جن پر لکھا تھا کہ ;34;حجاب ہمارا آئینی حق ہے، بھارت میں حجاب پر پابندی بند کرو، اسلامو فوبیا بند کرو، حجاب پر حملہ مسلمان لڑکیوں کو تعلیم سے محروم کرنے کی سازش ہے ۔ اسلامی تعاون تنظیم جسے آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن (او آئی سی) کہا جاتا ہے نے بھارت کی ریاست کرناٹک میں حجاب کے تنازعے اور گزشہ سال اتراکھنڈ ریاست کے شہر ہری دوار میں ہندو مذہبی رہنماوں کے ;39;دھرم سنسد;39; (مذہبی تقریب) میں مسلمانوں سے متعلق نفرت پر مبنی تقاریر پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ او آئی سی نے بھارت میں حالیہ کچھ عرصے میں سوشل میڈیا پر مسلم خواتین کو ہراساں کرنے کی مختلف مہم کا حوالہ بھی دیا ہے اور عالمی برادری بالخصوص اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کونسل سے اپیل کی گئی ہے کہ ان معاملات پر ضروری اقدامات کیے جائی ۔ اسلامی تعاون تنظیم پہلا بین الاقوامی فورم نہیں جس نے بھارت میں حجاب کے معاملے پر آواز اٹھائی ہے ۔ اس سے پہلے امریکی سفیر برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی رشد حسین نے بھی کرناٹک میں حجاب کے تنازعے پر 11 فروری کو ٹوءٹر پر سرکاری بیان جاری کیا تھا جس میں انھوں نے کہا کہ مذہبی آزادی میں اپنی مرضی کا لباس پہننے کا اختیار بھی شامل ہے ۔ رشد حسین نے کہا کہ بھارت کی ریاست کرناٹک کو یہ کوشش نہیں کرنی چاہیے کہ وہ کسی کے مذہبی لباس پر فیصلہ کرے ۔ پاکستان نے بھی سرکاری طور پر بھارت سے اس معاملے پر احتجاج کیا ہے اور اسلام آباد میں موجود بھارتی اتاشی کو دفتر خارجہ بلا کر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا ۔ دوسری جانب رکن بھارتی پارلیمنٹ ششی تھرور نے کہا ہے کہ بھارت میں بڑھتے ہوئے اسلامو فوبیا اور حکومتی اقدامات نہ کرنے کے اثرات سامنے آ رہے ہیں ۔ کرناٹک ہائی کورٹ نے ایک عبوری حکم میں طالب علموں کے کلاس رومز میں حجاب پہننے یا زعفرانی شال (جسے ہندوتوا کی علامت سمجھا جاتا ہے) لے جانے پر پابندی لگا دی ہے ۔ امیرشریعت کرناٹک مولانا صغیراحمد خان رشادی نے حجاب تنازعہ کے تناظر میں کرناٹک کی مسلم طالبات اور عوام سے اپیل کی ہے کہ جب تک کہ حجاب معاملے میں عدالت کا قطعی فیصلہ سامنے نہیں آجاتا اس وقت تک تحمل سے کام لیں اور شرپسندعناصر کی طرف سے حالات کو بگاڑنے کی کسی بھی سازش کا نشانہ نہ بنیں ۔ انہوں نے تمام مسلم طالبات وطلبا سےگزارش کی کہ وہ امن کے ساتھ رہیں ۔ شہربنگلور اورریاست کرناٹک میں کہیں بھی قانون کو ہاتھ میں لینے کی کوشش نہ کریں ۔ یہ بات ضرور ہے کہ حجاب شرعی حکم ہے ۔ اللہ اوراس کے رسول;248; نے اس کی تاکید فرمائی ہے اور یہ ہمارا دستوری حق بھی ہے ۔ اللہ نے حضور;248; نے اپنی ازواج مطہرات، اپنی بیٹیوں اورتمام مسلم خواتین کو چادر اوڑھنے کی تاکید فرمائی ہے ۔ اس طرح کے احکامات سے معاشرے میں انتشار پیدا ہوا ہے ۔ تعلیمی اداروں میں خواتین کی طرف سے پردے کا اہتمام کافی پہلے سے جاری ہے چونکہ کالجوں میں یونیفارم کا کوئی نظم نہیں ہے اسی لئے اس پر پابندی لگانا زیادتی ہے ۔ بے وجہ متعدد کالجوں کے باہر خواتین اور لڑکیوں کو باحجاب داخل ہونے سے روکا گیا ۔ جب یہ معاملہ شروع ہوا تو اسی وقت ہم
نے بھی یہ کوشش کی تھی کہ کسی طرح مقامی سطح پر ہی یہ سلجھ جائے لیکن یہ فتنہ اس قدر بڑھ گیا ہے کہ یہ پورے ملک میں پھیل گیا ہے ۔ مسرت کی بات یہ ہے کہ ہماری لڑکیاں بھی حجاب اتارنے کیلئے تیار نہیں ہیں ۔
]]>