پاکستان اس وقت ایک ایسے سنگین سیاسی، آئینی اور ریاستی بحران میں گھرا ہوا ہے جسکے اثرات آنے والی نسلیں بھی محسوس کریں گی۔8 فروری 2024 کے انتخابات کے بعد جو بندوبست ریاست پر تھوپا گیا، وہ اپنے وزن سے خود ٹوٹ رہا ہے اور ساتھ ہی ریاست کے بنیادی ستونوں کو کمزور کر رہا ہے۔یہ حکومت عوامی اختیار کی پیداوار نہیں بلکہ ایک صاف اور سیدھی مداخلت کا نتیجہ ہے۔ اسی لیے یہ پہلے دن سے بوجھ تھی اور آج کھلے عام اپنی ناکامی کو اعتراف کے بغیر ثابت کر رہی ہے۔ان انتخابات کو پاکستانی عوام نے مسترد کر دیا تھا۔ سوشل میڈیا سے لے کر گلی محلوں تک، عدالتوں سے صحافتی حلقوں تک، ہر جگہ ایک ہی سوال اٹھا عوام کے ووٹ کو کیوں چرایا گیا؟ لوگوں کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا کہ کس طرح ووٹ گنے گئے، کس طرح نتائج بدلے گئے، اور کس بے رحمی سے عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالا گیا یہ ڈاکا صرف ووٹ پر نہیں تھا یہ ڈاکا ملک کی بنیاد پر تھا۔ عوام کی مرضی کو طاقت کے ذریعے مسخ کرنا ریاست کیلئے زہرِ قاتل ہوتا ہے، اور یہی زہر آج پورے نظام میں پھیل چکا ہے۔ کرپشن در کرپشن ہے افسوس یہ کہ جنہوں نے کرپشن کا راستہ روکنا تھا ان کے ہاں اب کرپشن مسئلہ ہی نہیں رہا اب صورتحال اس حد تک بگڑ چکی ہے کہ لوگ کھلے عام کہہ رہے ہیں کہ حکومت تو دور کی بات، آئین تک اب عوام کا نہیں رہا۔1973 کا آئین، جو قوم کا اجتماعی معاہدہ تھا، اس کی روح کو تبدیل کر کے رکھ دیا گیا ہے۔ 26ویں اور 27 ویں آئینی ترامیم کو جس عجلت، دباؤ اور زبردستی سے منظور کرایا گیا، وہ صرف قانون سازی نہیں تھی، وہ آئین پر قبضہ تھا۔ جمہوریت کے نام پر کیا گیا یہ ظلم آئینی بددیانتی کی بدترین مثال بن چکا ہے۔ یہ ترامیم عوام کے حقوق کا قتل ہیں، صوبوں کی خودمختاری پر حملہ ہیں اور ریاستی اختیار کو مخصوص حلقوں کی جیب میں ڈالنے کی منظم کوشش ہیں۔
اس سے بڑھ کر المیہ یہ ہے کہ عدلیہ کو بھی اس پورے عمل میں بے دست و پا کر دیا گیا ہے۔آج جج آزاد نہیں، ان کے اختیارات محدود کر دیے گئے ہیں، اور عدالتی فیصلہ سازی پر وہ دبا اور نگرانی قائم کر دی گئی ہے جو کسی آزاد عدلیہ کی پہچان نہیں ہوتی۔ ججوں کے کندھوں سے اختیار لے کر طاقت کے مراکز میں ڈال دیا گیا ہے۔ عدالتیں اگر محض رسمی کارروائی کا نام رہ جائیں، تو پھر انصاف کہاں سے آئے گا؟ آئین پر کون پہرہ دے گا؟ ظلم کا حساب کون لے گا؟
یہ سب کچھ اس ملک کے ساتھ ناانصافی ہے، ظلم ہے، اور سب سے بڑھ کر یہ ایک غیر قانونی قبضہ ہے۔ قبضہ گری چاہے زمین پر ہو یا آئین پر، ناجائز ہی رہتی ہے۔اس سارے بگاڑ کے ساتھ جو حکومت کھڑی کی گئی، وہ ریاست کو سہارا دینے کے بجائے خود ریاست پر بوجھ بن گئی ہے۔ کارکردگی صفر ہے، معیشت ڈول رہی ہے،بدعنوانی کی گواہی آئی ایم ایف نے چندروز قبل دے دی ہے۔ سیاست زبردستی کے شکنجے میں قید ہے مگر اس کے باوجود نظام چلانے والوں کو یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ عوام کی خاموشی ان کی خوشی نہیں، بلکہ ان کا غصہ ہے جو اندر ہی اندر پک رہا ہے۔مگر حقیقت یہ ہے کہ عوام اب ڈر نہیں رہے۔ لوگ جان چکے ہیں کہ اگر آج وہ بولے نہیں، تو کل ان کے پاس خدانخواستہ ملک ہی باقی نہیں بچے گا۔ جب ظلم حد سے بڑھے، تو لوگ خاموش نہیں رہتے۔ آج اگر لوگ اداروں کی قیادت سے لاتعلق ہو رہے ہیں، اگر اداروں کی عزت کم ہو رہی ہے، اگر عوامی اعتماد ختم ہو رہا ہے، تو اس کی ذمہ داری انہی پالیسیوں پر ہے جنہوں نے آئین، عدلیہ، سیاست اور عوامی رائے کو روند ڈالا۔ کسی کو سیاسی میدان سے باہر رکھنے کے فیصلے نے ملک کو مزید تقسیم کیا، مزید کمزور کیا، مزید غیر مستحکم کیا۔ لاکھوں ووٹرز کے انتخاب کو دبانا ممکن نہیں تھا، نہ ہے، نہ رہے گا۔ سیاسی قوتوں کو جبر سے نہیں دبایا جا سکتا۔ یہ فارمولا جتنی مرتبہ آزمایا گیا اتنی ہی مرتبہ ناکام ثابت ہوا۔ اگر کوئی یہ سمجھتے ہیں کہ وہ طاقت کے زور پر عوامی نمائندوں کو بدل سکتے ہیں، تو یہ غلطی بار بار دہرائی جا رہی ہے۔ملک کا نظم و نسق اس وقت بند گلی میں کھڑا ہے۔ حکومت کمزور ہے، نظام ناکارہ ہے، اور طاقت کے مراکز کنفیوژن میں ہیں۔ اب سوچ یہ نہیں ہو رہی کہ اس حکومت کو کیسے چلایا جائے، بلکہ یہ ہو رہی ہے کہ اس بوجھ سے جان کیسے چھڑائی جائے۔ کون سا متبادل سامنے لایا جائے؟ کیسے بندوبست کو ری سیٹ کیا جائے؟ یہ سوال اب صرف عوام نہیں پوچھ رہے یہ سوال خود انہی حلقوں کے اندر اٹھ رہے ہیں جنہوں نے یہ حکومتی بندوبست بنایا تھا۔اگر اسی راستے پر چلتے رہے تو ریاستی اداروں میں دراڑیں پڑیں گی، عوامی اعتماد مکمل طور پر ٹوٹ جائے گا، اور ریاست اور شہریوں کے درمیان موجود خلیج خطرناک حد تک بڑھ جائے گی۔
پاکستان اس وقت کمزور نہیں، اسے کمزور کیا جا رہا ہے۔ آئین کو بدلا گیا، عدلیہ کو محدود کیا گیا، سیاسی قوتوں کو کچلا گیا، کیا اس سب کے باوجود ریاست بچ سکتی ہے؟ نہیں۔ریاستیں جبر سے نہیں چلتی، اعتماد سے چلتی ہیں۔ سیاسی دروازے کھولے جائیں۔ ہر جماعت کو برابر کی جگہ دی جائے۔ آئین کو اصل شکل میں بحال کیا جائے، عدلیہ کو آزاد کیا جائے، غیر فطری بندوبست ختم کیا جائے۔اگر ایسا نہ ہوا تو تاریخ کی گواہی ہے کہ جبر سے چلنے والے نظام دیرپا نہیں رہتے۔ پاکستان کو بچانے کا واحد راستہ عوام کی طرف واپس جانا ہے۔ یہی سچ ہے، یہی راستہ ہے، یہی مستقبل ہے۔اللہ حامی و ناصر
کالم
حکومتی ڈھانچہ ایک یاستی بوجھ
- by web desk
- نومبر 24, 2025
- 0 Comments
- Less than a minute
- 0 Views
- 1 سیکنڈ ago

