حلقہ احباب سردار خان نیازی خاص خبریں کالم

دلیر محنتی چیئرمین واپڈا کو درپیش چیلنجز

Halq-e-Ahbab sardar khan niazi about asim سپہ سالار جنرل عاصم منیرmunir

واپڈا کے قیام کو 64سال ہونے کو آئے ہیں ، اس کا قیام 22فروری 1958کو پارلیمنٹ ایکٹ کے ذریعے عمل میں لایا گیا تھا، ان بیتے 64سالوں میں اس کے کریڈٹ پرجہاں تربیلا اور منگلا ڈیم جیسے منصوبے ہیں وہاں اس کے ساتھ ساتھ اپنے بد عنوان عملے کے سبب ملنے والی بدنامی بھی اپنی جگہ موجود ہے ، واپڈا کی 64سالہ تاریخ میں 2چیئرمین ایسے آئے جن کی ایمانداری ، دیانتداری اورانتھک محنت کی مثالیں آج بھی دی جاتی ہیں، ان میں ایک نام غلام اسحاق خان تھا جو بعد میں صدر مملکت کے منصب تک پہنچے، اور دوسرا نام غلام فاروق خان کا تھا جو پاکستان کے وزیر خزانہ بھی رہ چکے ہیںِ مجھے واپڈا اور ان اصحاب کی یاد اس لئے آئی کہ ایک طویل عرصہ کے بعد ایک واپڈا کی باگ ڈورایک بار پھرایک دلیر محنتی اور فوج کے لیفٹیننٹ جنرل (ر)سجاد غنی کو سونپی گئی ہے ، جنہیں میں ایک طویل عرصہ سے جانتاہوں، ان سے ذاتی تعلق قائم ہوئے طویل عرصہ بیت گیا ہے ، الحمداللہ یہ تعلق آج بھی قائم چلا آرہا ہے ، دراصل جب آپ کا تعلق کسی مفاد کے بغیر ہو تو پھریہ تعلق آنے والی نسلوں تک منتقل ہو جاتا ہے، کچھ ایسا تعلق جنرل سجاد غنی کے ساتھ بھی چلا آرہا ہے ، جنرل (ر)سجاد غنی ایک پیشہ ور سپاہی اور انجینئرز بھی ہیں، انہوں نے ملٹری کالج آف انجینئرنگ سے 1984میں بیچلر آف انجینئرنگ کی ڈگری لی اور 1990میں یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی سے ماسٹر ڈگری حاصل کی، نہایت سادہ مزاج کے حامل جنرل (ر)سجاد غنی اس قبل نہایت اہم ترین ذمہ داریوں پرفائز رہ چکے ہیں، وہ انجینئر زکور کے کمانڈر اور کوارٹر ماسٹر جنرل بھی رہ چکے ہیں، اس کے علاوہ وائس چیف آف جنرل سٹاف کی ذمہ داری بھی نبھا چکے ہیں، جنرل سجاد غنی جب کور کمانڈر کراچی تھے تو انہوں نے بحریہ ٹائون کے مالک ملک ریاض کو ناکوں چنے چبوا دیئے تھے اور قانون کی بالا دستی اور اس کی عمل داری پر عمل کر کے دکھا دیا، جب سوات میں شورش بپا تھی اس کے خاتمہ کیلئے لیفٹیننٹ جنرل (ر)سجاد غنی کو یہ اہم ترین ذمہ داری سونپی گئی ، وہاں انہوں نے انفننٹری ڈویژن کی کمانڈ کرتے ہوئے نہایت قلیل عرصہ میں علاقہ کو ملک دشمن عناصر سے پاک کر کے دکھا دیا، وزیر اعظم شہباز شریف کے اچھے اقدامات کا جب بھی ذکر ہوا تواس میں جنرل (ر)سجاد غنی کے چیئرمین واپڈامقرر کیے جانے کے فیصلے کا بھی ذکر ضرور کیا جائے گا، کیونکہ میں ذاتی طور پر اس بات سے آگاہ ہوںکہ ان کا تقرر خالصتاً ان کی سابقہ کارکردگی اور ان کی کامیابیوں کی ایک طویل فہرست اور میرٹ کی بنیاد پر لایا گیا ہے ، چیئرمین واپڈا کے عہدے کا چارج لینے کے فوراً بعد جنرل (ر)سجاد غنی نے ویژن 2025کے بارے میں بریفنگ لی اور اسے جلد از جلد مقررہ مدت کے اندر مکمل کرنے کی ہدایت بھی کی، واپڈا کا ویژن 2025ایک جامع منصوبہ ہے ، جسے چار فیز میں مکمل کیا جانا تھااور اس پر 25.33ارب ڈالر کی لاگت آئے گی ، اس منصوبہ کے مکمل ہونے پر 16ہزار میگا واٹ بجلی کی پیداوار میسر آئے گی ، 14ہزار کلو میٹر زمین سیراب ہو گی ، اور ایک کروڑ 27لاکھ 90ہزار ایکٹ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہو گی ، ان منصوبوں میں گومل ڈیم ، میران ڈیم ، مٹھن کورٹ بیراج ، رینی کنال ، سنجوال ڈیم ، بھاشا ڈیم ، سد پارا ڈیم ، ہنگول ڈیم ، کرم تنگی ڈیم ، سیہون بیراج ، سکردو ڈیم ، ڈھوک ڈیم، رتاس ڈیم ، نولان ڈیم جیسے منصوبے شامل ہیں، مگر یہاں ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ جنرل (ر)سجاد غنی نے ساری زندگی دلیرمحنتی اور جفا کشی کے اصولوں پر رہتے ہوئے گزاری ہے ، اب جس محکمہ کی ذمہ داری انہیں سونپی گئی ہے وہ سر تاپا کرپشن میں ڈوبا دکھائی دیتا ہے ، نچلی سطح پر اندھیر نگری مچی ہوئی ہے ، کرپشن کا یہ سلسلہ میٹر ریڈر سے شروع ہو تا ہے اور لائن مین ، لائن سپریڈنٹ ، ایس ڈی او سے ہوتا ہوا ، ایکسیئن اور ایس ای تک جا پہنچتا ہے ،اسلام آباد، لاہور، کراچی اور کوئٹہ میں کوئی میٹر بغیر پیسوں کے نہیں لگ سکتا، اگر آپ محکمے کے کسی اہلکار کو کرپشن کی مد میں پیسے دیئے بغیر میٹر کنکشن کی درخواست دیں گے تو پھر یہ درخواست سالہاسال مختلف دفتروں میں گھومتی رہے گی ، مگر میٹرنہیں لگے گا، اسلام آباد میں ترنول ، سنگجانی ، سرائے خربوزہ اور فیڈرل ایریا کے علاقوں میں یہ مافیا اس قدر سرگرم ہے کہ واپڈا کے دفتر کے باہر ان کے ایجنٹ گھوم رہے ہوتے ہیں جو کنکشن کی غرض سے آنے والے صارفین کو رشوت دینے پر مجبور کرتے ہیں ، اور اس حوالے سے اگر کوئی شہری جرات کرکے محکمے کے کسی اہلکار سے پوچھ لے کہ یہ رشوت کس مد میں وصول کی جاتی ہے تو اسے جواب دیا جاتا ہے کہ ہمیں اوپر چیف تک بھتہ پہنچانا ہوتا ہے ، اس لئے اس کی ادائیگی ہر حال میں ضرور ی ہے ، اور یہ بھتہ دن دیہاڑے وصول کرنا واپڈا کے ان کرپٹ اہلکاروں کو معمول بن چکا ہے ، مگر پوچھنے والا کوئی نہیں، اور یہ سارا سرکل ایک مضبوط چین کی صورت میں کام کررہا ہے ، یہ ایک ایسا مافیا ہے جو سالہاسال سے بد عنوانیوں میں ڈوبا چلا آرہاہے اور محکمہ کے اندر کام کرنے والے بعض ایماندار ، دیانتدار افسران کی بد نامی کا موجب بھی بن رہا ہے، انہی بد عنوان عناصر کی سرپرستی میں بجلی چوری کی جارہی ہے ،سرکاری اجازت نامے کے بغیر قائم کی جانے والی آبادیوں میں راتوں رات میٹر لگ رہے ہیں، سیکٹر آئی 12میں چند سال قبل مسمار کی جانے والی کچی افغان بستی میں غیر قانونی بجلی کے میٹر لگے ہوئے تھے، اور حاصل ہونے والی آمدن قومی خزانے کے بجائے بد عنوان افسروں کی ذاتی جیبوں میں جا رہی تھی ،غلط میٹر ریڈنگ بھی محکمہ کا ایک معمول بن چکا ہے ، کیا اچھی شہرت کے حامل جنرل (ر)سجاد غنی ایک مافیا کو لگام ڈالنے میں کامیاب ہو پائیں گے ؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri