کالم

دنےا کی بڑھتی ہوئی آبادی ،لمحہ فکرےہ

اقوام متحدہ کے مطابق 15نومبر کو دنےا کی آبادی 8ارب سے تجاوز کر گئی ۔ےو اےن نے اپنی وےب سائٹ پر پندرہ نومبر کو 8ارب آبادی کا دن قرار دےا ۔منےلا کے ضلع ٹونڈو مےں فلپائنی بچی کی پےدائش علامتی طور پر 8ارب واں بچہ قرار پائی ۔اقوام متحدہ کی رپورٹ مےں دنےا کی کل آبادی مےں پاکستان کا حصہ تےن فےصد ہے ۔پاکستان کے ادارہ شمارےات کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی کل آبادی 22کروڑ 4لاکھ 25ہزار 254ہے جس مےں مردوں کی تعداد گےارہ کروڑ جبکہ عورتوں کی تعداد بھی لگ بھگ گےارہ کروڑ ہی ہے ۔قابل ذکر بات ےہ ہے کہ شہری آبادی 8کروڑ اور دےہی آبادی 14کروڑ نفوس پر مشتمل ہے ۔تازہ ترےن جائزے کے مطابق پاکستان مےں شرح پےدائش کا تناسب 3.7 فےصد ہے جو خطے مےں سب سے زےادہ ہے ۔اقوام متحدہ نے پےش گوئی کی ہے کہ سن 2050ءتک عالمی آبادی مےں ہونے والی مجموعی اضافے کا نصف سے زےادہ صرف آٹھ ملکوں تک مرکوز رہے گا ۔ان مےں پاکستان ،بھارت ،کانگو ،مصر ،اےتھوپےا ،نائےجےرےا ،فلپائن اور تنزانےہ شامل ہےں ۔
معزز قارئےن دنےا مےں آدم اور حوا دو انسان آئے ۔دو انسانوں سے بڑھ کر ےہ آبادی آٹھ ارب سے زائد انسانوں تک پہنچ چکی ہے اور اس آبادی کی افزائش مےں ہمارے ملک نے خاطر خواہ حصہ ڈالا ہے اور ےہی وہ واحد شعبہ ہے جس مےں ہم تےزی سے خود کفالت کی منزلےں طے کر رہے ہےں ۔وطن عزےز خدا داد پاکستان مےں آبادی مےں خطرناک اضافہ کو پسند کر کے ہم نے اپنے کو پرےشانےوں کی لا محدود دلدل مےں دھکےل دےا ہے ۔ےہ پرےشانےاں دن بدن خود رو بےل کی طرح اگ اور پھل پھول رہی ہےں ۔کوئی بھوک کے ہاتھوں شکستہ و بے جان ہے تو کوئی مالی تنگی سے دلبرداشتہ ،کوئی چھت کی فکر مےں ہے تو کوئی مردم گزےدہ مصائب سے نجات کا آسان اور ارزاں راستہ موت کی پناہ مےں ڈھونڈ رہا ہے کےونکہ کٹھن حالات انسانوں سے قوت عمل چھےن لےتے ہےں اور ہر سو چھائے ماےوسی کے بادلوں مےں بد قسمت افراد موت کو گلے لگانے مےں ہی عافےت سمجھتے ہےں ۔ذہنی کرب ،نفسےاتی ہےجان ،انتہا پسندی اور دہشت گردی جےسی بےمارےوں کا اےک بڑا سبب شرح پےدائش مےں روز افزوں اضافہ بھی ہے ۔افراط زر کی شرح سے بھی کئی گنا آبادی کے تےزی سے بڑھنے کے باعث خوشحالی بھی بد قسمت انسانوں سے اسی تےزی کے ساتھ دور ،دور اور بہت دور بھاگ رہی ہے ۔آبادی مےں خطرناک شرح سے اضافہ غرےب ،محروم اور مظلوم انسانوں کی تعداد مےں بھی مسلسل اضافہ کا سبب ہے ۔ےہی وہ سب سے بڑی وجہ ہے جس کے باعث اخلاقی ،معاشی اور سماجی بحرانوں کے اندھے طوفانوں نے ہمےں چار سو گھےر لےا ہے اور دنےا مسائل کا گھر اور انسانی زندگی مشکلات کا شکار ہو گئی ہے ۔آج نادار افراد معصوم بچوں کی گردنوں مےں برائے فروخت کی تختےاں لگا کر سر بازار نظر آتے ہےں ۔شاہ محمود غزنی نے اسی کو موضوع سخن بناےا ۔ان کی نظم کا ےہ شعر کتنا کرب اور المناکی لےے ہوئے ہے ۔
بےچ دےا ہے بھوکی ماں نے اپنا بھولا بھالا بچہ
سارے گھر کی خوشےوں کی بنےاد اسی بکنے پر ہے
ماضی مےں کثرت اولاد فوبےا کی اکثرےت شکار تھی لےکن آج کے دور مےں بچے امےر نہےں غرےب ہی پےدا کرتے ہےں ۔امراءکو اس بات کا ڈر ہوتا ہے کہ بچے زےادہ پےدا ہوں گے تو ان کے اثاثے بند بانٹ سے کم ہو جائےں گے جبکہ غرےب اپنے بچوں کو ہی اپنا اثاثہ سمجھتا ہے اور اس اثاثے مےں اضافہ سے اس کی آمدنی مےں اضافہ کی حکمت پنہاں ہوتی ہے ۔اسی طرح آج دنےا کے امےر ترےن ممالک تو آبادی پر کنٹرول کر رہے ہےں لےکن تےسری دنےا کے غرےب ممالک آبادی مےں تےز رفتاری سے اضافہ پر ہی کمر بستہ ہےں ۔غرےب والدےن کو خط غربت سے نےچے جانے والی اکانومی کو مستحکم کرنے کےلئے لےبر فورس کی ضرورت ہوتی ہے ۔غرےب کا بال ابھی صحےح بال و پر بھی نہےں نکالتا کہ والدےن اسے چھوٹے کی حےثےت سے بھرتی کروا دےتے ہےں ۔والدےن کے معاشی حالات اےسے ہوتے ہےں کہ بچوں سے حاصل ہونے والی ہزار دو ہزار روپے کی کشش انہےں اپنے ہی لخت جگروں کو مشکل کاموں پر لگائے رکھنے پر اکساتی رہتی ہے ۔معزز قارئےن ذرا غور کرےں وہ کےسے سنگےن حالات ہوں گے جن کے زےر اثر والدےن اپنے معصوم بچوں کو چند ہزار کے عوض دےنے پر مجبور ہوتے ہےں اور بعض گردش حالات کے ستم رسےدہ اپنے جسمانی اعضاءگردے تک فروخت کرنے پر رضا مند ہو جاتے ہےں ۔ستم کی بات ےہ ہے کہ اس وقت پچاس لاکھ سے زائد بچے پاکستان مےں بھےک مانگنے پر مجبور ہےں ۔۔غربت ،مجبوری اور لاقانونےت کمسن بچوں سے بھےک منگوانے سڑکوں پر لے آتی ہے ۔ٹرےفک سگنل بند ہوتے ہی 5سے16سال کی عمر کے بچے گاڑےوں پر سےلابی صورت مےں ےلغار کر دےتے ہےں ۔وطن عزےز کو اس وقت مختلف قسم کے سےلابی رےلوں کا سامنا ہے جن مےں مہنگائی کا سےلاب ،بھےک منگوں کا سےلاب ،غربت کا سےلاب ،بے روزگاری کا سےلاب ،الغرض کس کس کا ذکر کےا جائے فہرست طوےل ہے لےکن ان تمام سےلابوں کی وجہ آبادی کے سےلاب کی طغےانی ہی ہے ۔ہم حکومت کو تو تمام بےمارےوں بے روز گاری ، مہنگائی ،گےس اور بجلی کی ناےابی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہےں مگر کبھی اس پہلو پر غور کرنے کی کوشش ہی نہےں کی کہ ہم سب ان تمام بحرانوں کے کسی حد تک خود ذمہ دار ہےں ۔ہم نے آبادی مےں ہوشربا اضافہ مےں ہی ترقی کو اپنا مطمع نظر ٹھہرا لےا ہے ۔ہم اپنی لغزشوں اور ذاتی حماقتوں کے ساتھ جب سنگےن مسائل کا شکار ہوتے ہےں تو پھر نا انصافی ،ظلم اور محرومی کا نام لےکر ماتم شروع کر دےتے ہےں ۔ےہ اےک حقےقت ہے کہ آبادی کے بڑھنے سے معےشت پر منفی اثرات ہی مرتب ہوتے ہےں ۔آبادی مےں اضافہ سے اشےائے خوراک کی رسد پر برا اثر پڑتا ہے ۔بچتےں ،زر مبادلہ اور انسانی ذرائع کی ترقی متاثر ہوتی ہے سرماےہ کاری مےں کمی اور ادائےگےوں کے توازن پر برا اثر پڑتا ہے ۔زر مبادلہ مےں قلت محسوس ہونے لگتی ہے ۔وسائل کی کمی سے بد حالی ،بے روزگاری ،ناخواندگی ،ماحولےاتی آلودگی اور بےمارےاں ہی مقدر بنتی ہےں ۔کوئی بھی ملک ترقی صرف اسی صورت کر سکتا ہے جب اس کے وسائل کے بڑھنے کی رفتار آبادی مےں اضافہ کی رفتار سے زےادہ ہو ۔مسلم دنےا مےں خاندانی منصوبہ بندی کے حوالہ سے دو مختلف نقطہ نظر ہےں ۔اےک طبقہ فکر کے مطابق بچوں کی پےدائش کے قدرتی عمل کو روکنا جرم ہے اور ےہ بہبود آبادی کو خدائی امور اور اس کے فےصلوں مےں مداخلت قرار دےتے ہےں اور مسائل غربت کو اﷲ تعالیٰ کی رضا کے ساتھ منسلک کر دےتے ہےں ۔دوسرے مکتبہ فکر کا کہنا ہے بہبود آبادی جائز ہے عوام کی اکثرےت نے اسے تسلےم کر لےا ہے اور اس کے مختلف دلائل کو کوئی اہمےت نہےں دےتی اور چھوٹے کنبے کی افادےت سمجھتی ہے ۔اےران ،ملائےشےا اور بنگلہ دےش مےں عوام نے عوامی طور پر اسی فکر کو قبول کر کے آبادی کی بڑھتی ہوئی شرح کو نہ صرف روک لےا ہے بلکہ اس مےں کمی بھی واقع ہوئی ہے ۔دنےا مےں چےن اےسا ملک تھا جس کی آبادی دنےا مےں سب سے زےادہ تھی تا ہم انہوں نے اس پر بڑی حد تک قابو پا لےا ہے جس کے باعث ان کی اقتصادےات کےلئے مستقبل مےں کوئی خطرہ نہےں رہا ۔ہمارے پاس دنےا کے 70فےصد قدرتی وسائل ہےں ان کے باوجود ہمارا ترقی نہ کر سکنا ہماری آبادی کا تےز رفتاری سے بڑھنا ہی ہے ۔جن ملکوں مےں تعلےم کی شرح کم اور پسماندگی زےادہ ہے وہاں پر آبادی تےز رفتاری کے ساتھ بڑھتی ہے ۔وطن عزےز مےں خاندانی منصوبہ بندی کی افادےت اور علوم کی تشہےر کا کام ساٹھ کی دہائی سے شروع ہوا تھا اس وقت ےونےسف کے صحت ےونٹ کی جانب سے خواتےن اور بچوں کی صحت کےلئے خشک دودھ ،گھی اور مقوی ادوےات مہےا کی جاتےں ۔خواتےن کو خاندانی منصوبہ بندی کے طرےقوں سے آگاہی کے پروگرام مرتب کئے جاتے ۔صدر اےوب کے خلاف چلنے والی تحرےک مےں اےک الزام خاندانی منصوبہ بندی کا بھی تھا ۔بھٹو دور مےں ےہ سلسلہ چلتا رہا لےکن ضےاءالحق کے دور حکومت اور بعد کے ادوار مےں ےہ محکمہ عدم توجہگی کا شکار رہا ۔ہمارے ہاں فےملی پلاننگ کا محکمہ بھی صحےح نہج پر پلاننگ کرنے سے محروم رہا کہ عوام کی طبعےتےں ادھر نہےں آئےں وطن عزےز کے باسےوں نے آبادی مےں اضافہ کو ہی چار چاند لگائے ۔اگر ہم نے اب بھی آبادی کی شرح مےں اضافہ پر قابو پانے کےلئے موثر پالےسےاں نافذ نہ کےں تو نہ صرف معاشی زندگی کی رفتار مزےد سست ہو جائے گی بلکہ معےار زندگی بھی مزےد انحطاط کا شکار ہو جائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri