کالم

دیوتا بننے کے چکر میں معلق ہوگئے

تحریک انصاف مارکہ انقلاب کئی لحاظ سے انوکھا اور چلبلا ہے۔ جب سنجیدگی درکار ہو تب قائدین تحریک جگت بازی کا شغل شروع کر دیتے ہیں۔ عہد اقتدار میں کارگردگی دکھانے کی بجائے تمام توانائیاں سیاسی مخالفین کی مرمت پر ضائع کر ڈالیں۔ مرمت کے عمل کے لیے سوشل میڈیائی ورک شاپس ہمہ وقت مصروف رہتی ہیں۔ ورک شاپس کے مکینک استاد اور ان کے چھوٹے پاکستان کے علاوہ بیرون ملک بھی مرمتی اور مذمتی خدمات فراہم کرتے ہیں۔ سوشل میڈیائی مکینکوں کی استادی کا ایک زمانہ معترف ہے۔ مخالفین کی سیاسی گاڑیوں کے انجن ناکارہ اور ٹائر پنکچر کرنے میں جو مہارت انصافی مکینکوں کو حاصل ہے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ سیاست دانوں کے علاوہ صحافی، علما، دانشور، فنکار اور سماجی رہنماں کی حسب حال مرمت اور مذمت کی فوری سروسز فراہم کرنے میں ان سوشل میڈیائی ورک شاپس کا کوئی ثانی نہیں۔ انصافی مکینک بانی تحریک پر تنقید کو ناقابل معافی گناہ کا درجہ دیتے ہیں۔ جونہی مزاج یار کے خلاف کوئی بات ہو، یہ ورک شاپس خود کار نظام کے تحت اپنے ہدف کی مرمت گالیوں، الزامات اور کردار کشی کے اوزاروں سے شروع کر دیتی ہیں۔ انصافی استاد اور چھوٹے خیالی پلا پکانے اور اپنی جماعت کے بانی کے غبارے میں ہوا بھرنے میں بھی ید طولی رکھتے ہیں۔سو شل میڈیا کے طلسم کدے میں انصافی مجسمہ سازوں نے اپنی جماعت کے با نی کو دیو مالای کردار بنا ڈالا ہے۔ شخصیت پرستی کے سحر میں مبتلا اندھے پیروکاروں کی ذہنی حالت قابل دید بھی ہے اور قابل رحم بھی۔ پرستاروں کی بڑی تعداد یہ سمجھتی ہے کہ ان کے قائد کا نام سنتے ہی سپر پاورز پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔ بھارتی وزیراعظم تو بانی تحریک کے سامنے بھیگی بلی بن جاتے ہیں۔ عالم اسلام کے سربراہان مملکت جناب چیئرمین کے دست حق پرست پر بیعت کرنے کے لیے تڑپ رہے ہیں۔ کرپشن اور بدعنوانی کے الزامات کے تحت موصوف کی گرفتاری ایک سازش ہے۔ آج اگر بانی تحریک حکمران ہوتے تو نہ صرف کہ کشمیر آزاد ہو چکا ہوتا بلکہ اسرائیل بھی غزہ پر جارحیت کی جرات نہ کر پاتا۔ سوشل میڈیا کی پر فریب مصنوعی دنیا میں بسنے والے انصافی پیروکار اس سحر میں مبتلا ہیں کہ ان کی جماعت کی حکومت سیاسی نالائقیوں کی وجہ سے نہیں بلکہ امریکی سازش کے نتیجے میں ختم ہوئی۔ اس خمار زدہ عارضے میں مبتلا کسی مقلد کو حقیقت حال سے آگاہ کر کے ہوش میں لانا جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ غالب امکان ہے کہ سچ کی تاب نہ لاتے ہوئے انصافی ورک شاپ کے استاد اور چھوٹے آپ ہی کی مرمت شروع کر دیں۔
وہ یہ ماننے کو تیار نہیں کہ جب مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل 370 منسوخ کر کے علیحدہ ریاستی تشخص پر ڈاکہ ڈالا تو انصافی وزیراعظم ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر بنے ہفتہ وار 30منٹ کا بے اثر احتجاج بھی جاری نہ رکھ پائے۔ امریکہ اور اسرائیل سے ٹکر لینا تو دور کی بات موصوف دوست ممالک کی منشا کے خلاف ترکی اور ملیشیا کی دعوت قبول کرنے کی جرات بھی نہ دکھا سکے۔ عددی اکثریت سے محروم انصافی حکومت ایم کیو ایم اور ق لیگ سمیت کئی چھوٹی چھوٹی جماعتوں کی بیساکھیوں پر کھڑی تھی۔ بیساکھیاں ہاتھ سے نکلنے کا سبب غیر ملکی سازش نہیں بلکہ سیاسی نالائقی اور حد درجہ خود اعتمادی تھی۔ بزدار سائیں جیسے غیر فعال وزیراعلی کی تعیناتی اور وزیر خزانہ جیسے اہم منصب پر بار بار تبدیلیاں امریکہ نے نہیں بلکہ عالمی پائے کے مدبر وزیراعظم نے خود کی تھیں۔ عوام کو سائفر اور امریکی سازش کے فریب میں مبتلا کرنے والی قیادت دراصل امریکی کانگرس اور برطانیہ کے ہاو¿س آف لارڈ کے ایوانوں میں المدد المدد پکار رہی ہے۔ اسرائیل کی پشت پناہی کرنے والی امریکی کانگرس پی ٹی آئی اور اس کے بانی چیئرمین کے غم میں گھلی جا رہی ہے۔ یقین رکھیے کہ ان ناقابل تردید حقائق کو جاننے کے بعد بھی انصافی وائرس کے شکار مریض ہوش میں آنے کے بجائے مزید جنونی کیفیت کا شکار ہو سکتے ہیں بیرون ملک مقیم انصافی استادوںنے آکسفورڈ یونیورسٹی کی چانسلر شپ کے حوالے سے نیا ہوائی قلعہ تعمیر کیا ہے۔ شنید ہے کہ بانی چیئرمین اڈیالہ جیل سے آکسفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر کے اعزازی عہدے کےلئے ہونے والے انتخاب میں حصہ لیں گے۔ اس نیک عمل کے مقاصد وہ جانیں یا ان کے اندھے پیروکار۔ تا ہم یہ واضح ہے کہ موصوف اپنی شخصیت کے بت کا قد بڑھانا چاہتے ہیں۔ ملک دہشت گردی کے عفریت سے لڑ رہا ہے۔معاشی بحران سنگین ہے۔ خارجی محاذ پر سفارت کاری کے کئی چیلنج درپیش ہیں۔ صو بہ کے پی میں بدعنوانی کی داستانیں زبان زد خاص وعوام ہیں۔پی ٹی آئی میں دھڑے بندی کا عالم یہ ہے کہ جوتوں میں دال بٹنے کا محاورہ صادق آتا ہے۔ موصوف خود بھانت بھانت کے الزامات کے تحت مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ایسے کڑے وقت میں سیاسی سنجیدگی، قومی یکجہتی اور فراست درکار ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر کا الیکشن ذاتی شہرت کے شغل سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ مقام افسوس ہے کہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں موصوف کےخلاف شکایات اور اعتراضات کا سلسلہ جاری ہو چکا ہے۔ یہ خبریں نہ صرف کہ بانی تحریک کی متنازعہ شخصیت کو بے نقاب کر رہی ہیں بلکہ ملک کی جگہ ہنسائی کا بھی سبب بن رہی ہیں۔ احمد سلیم نے ایسی ہی صورت حال کے بارے میں کہا تھا:
دیوتا بننے کے چکر میں معلق ہو گئے
اب ذرا نیچے اترئیے آدمی بن جائیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے