Site icon Daily Pakistan

رام مندر کا افتتاح – بھارت کی مسلم دشمنی کی انتہا

رام مندر کا افتتاح - بھارت کی مسلم دشمنی کی انتہا

رام مندر کا افتتاح - بھارت کی مسلم دشمنی کی انتہا

تحریر! اسلم ممتاز

بھارت میں ہندوتوا نظریے کی بڑھتی ہوئی لہر مذہبی ہم آہنگی ،علاقائی امن اور بھارت میں مقیم مسلمانوں کے وجو د کے لیے سنگین خطرہ ہے ۔ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت انہیں ان کے بنیادی حقوق سے محرو م کیا جا رہا ہے۔ 22 جنوری کو بھارت کے مشہور شہر ایودھیہ میں تاریخی بابری مسجد کی جگہ رام مندر کا افتتاح کیا گیا ۔یہ اقدام بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کو سماجی، معاشی اور سیاسی طور پر پسماندہ کرنے کی جاری کوششوں کا ایک اہم پہلو ہے۔
یاد رہے کہ یہ افتتاح ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب بھارت میں ریاستی انتخابات قریب ہیں۔ نریندر مودی کی جانب سے مندر کا افتتاح ایک بار پھر انہیں ہندو دھرم کے محافظ کے طور پر پیش کررہا ہے جو اپریل میں شروع ہونے والے عام انتخابات سے پہلے بظاہر ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا گیا ہے ۔
پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں نے بھارت کے اس اقدام کی مذمت کی ہے ۔حکومتی سطح پر وزارت خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ صدیوں پرانی بابری مسجد کو چھ دسمبر 1992 کو انتہا پسندوں کے ہجوم نے یہ کہتے ہوئے منہدم کر دیا تھا کہ یہ مسجد اس جگہ پر موجود ایک قدیم مندر کے اوپر تعمیر کی گئی تھی جہاں بھگوان رام نے جنم لیا تھا۔ ہندووں کے عقیدے کے مطابق ان کے بھگوان رام کا جنم سات ہزار سال قبل ایودھیہ کے اسی مقام پر ہوا تھا ۔ بعد ازاں 16ویں صدی میں مغل بادشاہ ظہیر الدین محمد بابر نے مندر کی جگہ مسجد تعمیر کروائی، جسے بابری مسجد کہا جاتاہے۔حالانکہ یہ خیال غلط ہے۔ اسلامی تاریخ میں ہمیں کوئی ایسا واقعہ دیکھنے کو نہیں ملتا کہ جب مسلمانوں نے کسی شہر یا علاقے کو فتح کیا ہو اور اس علاقے میں موجود غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کو مسمار کر دیا ہو۔اسلامی تعلیمات تو غیر مسلموں کی جان و مال، املاک اور عبادت گاہوں کے تحفظ کا درس دیتی ہیں۔ ہندو مذہب کے مطابق رام چندرا بہادری اور نیکی کا دیوتا اور خدا کا ساتواں روپ یعنی اوتار ہے۔ بابری مسجد کی شہادت اور اسی جگہ پر رام مندر کی تعمیر اس بھارتی ریاستی پالیسی کا تسلسل ہے جس کے مطابق بھارت کو ایک ہندو مذہبی ریاست جسے وہ اکھنڈ بھارت کہتے ہیں، میں تبدیل کیا جانا ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ بھارت کی عدالت عظمی نے نہ صرف اس گھناونے فعل کے ذمہ دار مجرموں کو بری کر دیا بلکہ منہدم مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کی بھی اجازت دے دی۔ 2019 میں دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت اور سیکولر ریاست کی سپریم کورٹ نے ہندووں کا بابری مسجد پر دعوی درست قرار دیتے ہوئے 217ملین امریکی ڈالر کی لاگت سے رام مندر تعمیر کرنے کی اجازت بھی دی۔ ہندو مذہبی جنونیوں، بھارتی سپریم کورٹ اور حکومت کا گٹھ جوڑ اس وقت بے نقاب ہو گیا جب بھارتی سپریم کورٹ نے رواں برس آرٹیکل 370 کی منسوخی کو جائز قرار دیتے ہوئے کشمیریوں کے حق پر ڈاکہ مارنے میں ہندو انتہاپسندوں کی مدد کی۔
بابری مسجد کامعاملہ گزشتہ 31 سال سے ہندو مسلم فسادات کے ساتھ ساتھ بھارت میں مقیم مسلمانوں اور ہندووں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کا باعث رہا ہے۔ اس تنازعے نے دہائیوں تک مسلمانوں اور ہندووں کے درمیان تعلقات کو کشیدہ رکھا جب کہ ایک اندازیکے مطابق مسجد کے انہدام کے بعد پھوٹنے والے ہندو مسلم فسادات میں دو ہزار افراد جان سے گئے۔
بابری مسجد کا شہید کرنا انتہائی افسوسناک واقعہ تھا جبکہ اس جگہ پر رام مندر کی تعمیر اس سے بھی زیادہ دکھ کی بات ہے۔ یہاں کئی سوالات جنم لیتے ہیں جن میں سب سے اہم یہ ہے کہ کیا دنیا کا کوئی مذہب یا انسان اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ کسی دوسرے مذہب کے مقدس مقام کے ساتھ تضحیک آمیز سلوک کیا جائے؟ اسی طرح یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور سیکولر ازم کا دعوی کرنے والی ریاست بھارت کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ کسی دوسرے مذہب کے پیروکاروں کے مذہبی مقام کو مسمار کرکے اپنی مذہبی عبادت گاہ تعمیر کرے؟
بھارت میں مسلم کش فسادات ہوں، کشمیری مسلمانوں کی نسل کشی یا پھر بابری مسجد کی شہادت، اس پر مغربی طاقتوں کی خاموشی ایک المیے سے کم نہیں ہے کیونکہ یہ خاموشی علاقائی امن کے لیے زہر قاتل ہے۔ عالمی برادری کو بھارت میں بڑھتے ہوئے اسلامو فوبیا، نفرت انگیز تقاریر اوربنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اورجنگی جرائم کا نوٹس لینا چاہیے۔ اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں کو چاہیے کہ وہ بھارت میں موجود صدیوں پرانے اسلامی ورثے کے مقامات کو انتہا پسند اور مذہبی جنونی ہندوئوں سے بچانے اور اقلیتوں کے مذہبی اور ثقافتی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔

Exit mobile version