تین رمضان المبارک کو روسی صدر ولا دی پوٹن کی جانب سے یورپ اور امریکی حمایت یافتہ ممالک کو جوہری جنگ کی دھمکی نے دنیا بھر کے سنجیدہ معاشروں کو مخمصہ کا شکار کردیا۔ امن پسند حلقے حیران ہے کہ ذمہ دار ملک کے ذمہ صدربھی عالمی امن سے متصادم سوچ کا اظہار کرسکے ہیں۔ غزہ المیہ کے بعد روسی صدر کی دھمکی کو رواں برس کی سب سے بڑی او رغیر معمولی سرگرمی کے طور پر لیا جارہا ہے، اس ساری صورت حال کا تکلیف دہ پہلو اقوام متحدہ کی خاموشی اور سلامتی کونسل کا کا تجاہل عارفانہ ہے ۔7اکتوبر 2023 کو ظالم اسرائیل نے فلسطین پر جارحیت کی ابتدا کی۔131دن گزر گئے اسرائیلی فوج کی مسلسل اور وحشیانہ بمباری سے 39ہزار مسلمان جام شہادت نوش کر چکے جن میں 16 ہزار ننھے فرشتے بھی شامل ہیں ۔معذور ہونے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے ۔ بی بی سی نے بتایا کہ پورا غزہ قبرستان بن چکا ہے۔ شہر کے ہسپتالوں میں زندگی کو امن اور علاج میسر نہیں، عالمی عدالت کی دھائی اور امن پسندوں کے عالمگیر احتجاج کے باوجود اقوام متحدہ نیند سے بیدار ہوئی نہ سلامتی کونسل اراکین تک معصوم فلسطینیوں کی آواز حق پہنچی امریکہ کی جانب داری کھل کر سامنے آگئی اب دنیا سپرپاورکے منافقت سے پوری طرح آشنا ہو گئی۔ ایک طرف وہ غزہ کے مظلوموں کو امداد دیتا ہے اور دوسری طرف اسرائیل کے حق دفاع کی حمایت اور طرف داری سے اپنے دوسرے چہرے کو نمایاں کرتا ہے۔ نیویارک’ برطانیہ’جرمنی ناروے’آسٹریلیا’روس ترکی ایران اور کینیڈا میں اسرائیل اور امریکہ مخالف مظاہرے بڑی طاقتوں کو آئینہ دکھاتے رہے افسوس مظلوموں کے لیے اظہار یکجہتی کی ریلیاں اقوام متحدہ کی توجہ حاصل نہ کرسکیں اور تو اور ویٹو پاور کے حامل ممالک بھی مظلوم کی حمایت میں ایک بیچ پر نہ آسکے،یہاں بھی امریکہ بار بار جنگ رکوانے کی مخالفت کرتا رہا! امریکہ کی بے جا طرف داری نے اسرائیل کے حوصلہ اس قدر بلند کردئیے کہ وہ جارحیت روکنے کی طرف آتا نہیں ۔گو پس پردہ حماس اور اسرائیل میں جنگ بندی کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں یقینا کچھ دن میں بڑی خبر سامنے آنے والی ہے یقینا امن کی طرف پیش قدمی کی ہر کوشش کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا ‘وقت یہ بھی گزر جائے گامگر مہذب دنیا امریکہ کا دوہرا کردار فراموش نہیں کر پائے گی امریکہ کو آنےوالے وقتوں میں اپنے اس ‘ انصاف پسندکردار کی بھاری قیمت دینا پڑے گی ۔ یادش بخیر روس یوکرائن تنازعہ اپنے عروج پر تھا، بڑی طاقتوں نے معاملہ سرد کرنے کی بجائے تنازعہ کو مزید ہوا دی جس کا نتیجہ 24 فر وری 2022 میں یوکرائن پر روسی حملے کی صورت میں نکلا ۔بات غیر ملکی مداخلت سے شروع ہوئی جو بڑھتے بڑھتے روس یوکرائن جنگ پر منتج ہوئی ۔آج بھی بیرونی مداخلت جاری ہے دوسروں کے معاملات میں اپنی مرضی تھونپے اور صرف اپنے ہی مفادات کا تحفظ کرنے کی پالیسی سے امن قائم نہیں ہوتھا یہی وجہ ہے کہ کچھ دوستوں کے ایما پر پولینڈ نے اپنے فوجی یوکرائن بھیجنے کا اعلان کیا جس کے جواب میں روسی صدر کو کہنا پڑا ”پولینڈ نے اگر اپنے فوجی یوکرائن بھیجے تو وہ زندہ واپس نہیں لوٹیں گے” ہم کہنا یہ چاہتے ہیں کہ بڑی طاقتوں کو اپنے لئے ”بڑا کردار” منتخب کرنا چاہیے وہ بڑا کردار بھلائی اور قیام امن کا ہونا چاہیے۔ لگتا ہے کہ بڑی طاقتیں جانبدارانہ کردار سے خود کو چھوٹا ثابت کرنے کی روش پر چل پڑی ہیں۔