کالم

رویت ہلال کمیٹی کا چاند اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ

ہمارے یہاں رمضان کے چاند کے بعد ہر چیز کا مہنگی اور نایاب ہو جانا معمول بن چکا ہے ۔ یوں تو چاند ہر ماہ با قاعدگی سے نکلتا ہے ۔ زیادہ مشہور دو چاند(آغاز ماہ صیام اور شوال کے)ہیں یوں تو سائنس نے خوب ترقی کر لی ہے آئندہ پچاس سال کے بارے پہلے سے بتا سکتے ہیں کہ فلاں چاند کس تاریخ کو نکلے گا؟ لیکن ہم ان کونہیں مانتے اور ملک میں چاند دیکھنے کیلئے کمیٹیاں بنا کر سینئر علما کرام کو دوربینوں کے ذریعے چاند دیکھنے پر بٹھا دیتے ہیں ۔ چاند دیکھنے والوں کی بصیرت اور بصارت کا اللہ ہی حافظ ہے ۔ رات دس بجے اعلان کرتے ہیں کہ چاند نظر آ گیا ہے ۔ان کے لئے مرغ مسلم دم بخت جیسے کھانوں کی وجہ سے لیٹ فارغ ہوئے ورنہ گھنٹے کے بعد بتا سکتے تھے کہ چاند نظر آیا یا نہیں ۔رویت ہلال کمیٹی کے چاند جیسا ایک فیصلہ الیکشن کمیشن نے سنا کر کچھ کو خوش کر دیا اور کچھ کو خشک کر دیا ۔ یوں تو آئین و قانون کے مطابق الیکشن ہر پانچ سال بعد ہوتے ہیں ۔پہلے سے اندازہ ہوتا ہے کہ فلاں سال کے اس ماہ میں الیکشن ہونگے لیکن جب اپنے مرضی سے وقت سے پہلے صوبائی اسمبلیاں توڑدی جائیں ہیں اور پھر وقت سے پہلے الیکشن کرانے کا خواب دیکھیں تو دوسرے وہ بھی ہیں جو وقت پر الیکشن کرانے کے خواہاں ہیں ۔ایسے میں ان کے درمیان”عدالتی جنگ“شروع ہو تھی مگر جب چند معزز عادل خود پارٹی بن جائیں تو پھر حالات سدھرنے کے بجائے مزید خراب ہو نے لگتے ہیں ۔یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے ۔جب حالات خراب ہوتے ہیں تو اس خرابی کے اثرات عوام اور سارے ملک پر پڑ تے ہیں ۔ اس وقت لگ یہی رہا ہے ملک سے باہر کی قوتیں بھی ہمارے حالات میں دخل انداز ی کر رہی ہیں ۔اگر بات گھر تک رہتی ہے تو مسائل گھر کے اندر ہی حل ہو جاتے ہیں مگر جب غیر بھی حصہ لینا شروع کر دیں تو پھر حالات مزید خراب ہونے سے کوئی بچا نہیں سکتا ۔ ملک بھی ایک گھر ہے ۔جس کو چلانے کیلئے ہمیشہ مالی امداد کی ضرورت رہتی ہے ۔یہ مالی امداد ہمیشہ سے آئی ایم ایف ہی دیتا ہے۔یہ امداد دینے والے کہتے ہیں۔ اگر ہم آپ کی مدد کرتے ہیں تو قرضہ ہماری شرائط پر ملے گا۔پھر ایسا ہی ہوتا ہے اس وقت امریکہ چین روس کی سرد جنگ جاری ہے۔لہٰذا امریکہ نہیں چاہتا کہ قرضہ ہم دیں اور چین کےساتھ مل کر سی پیک اپ بنائیں۔ جبکہ چین کی خواہش اور ضرورت ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ ہر پہلو پر تعلقات اچھے رکھے تاکہ سی پیک فنگشنل ہو سکے۔کہا جاتا ہے کہ امریکہ کو ہماری چین سے دوستی اور ملکر کام کرنا پسند نہیں ۔ جب سویت یونین کی جنگ افغانستان پر مسلط تھی تو ہم نے امریکہ کا ساتھ دیا تھا اور سویت یونین کو شکست ہوئی تھی ۔کہا جاتا ہے کہ اب امریکہ کو پاکستان سے دوستی کی ضرورت نہیں رہی ۔ یہ دوستی اس وقت تک تھی جب تک بھارت روس کا دوست ساتھی ہوا کرتا تھا ۔ہمارے بم سے امریکہ نے یہ فائدہ اٹھایا ہے کہ بھارت کو ہم سے ڈرا کر روس سے الگ کر کے اپنے ساتھ ملا لیا ہے ۔ بھارت کو امریکہ کی دوستی کا فائدہ یہ ہوا کہ اس نے مقبوضہ کشمیر کو بھارت کی پلیٹ میں رکھ کر دے دیا ہے ۔اب امریکہ بھارت سے قریب اور اسکا ساتھی بن چکا ہے اور ہم اب امریکہ سے دور اور اس کی ضرورت نہیں رہے ۔اس صورتحال کو دیکھ کر چین نے ہمارے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے لیکن امریکہ اور بھارت نہیں چاہتے کہ چین ہم سے دوستی کرے اور ہم ترقی کریں ۔وہ چاتے ہیں کہ ہم معاشی طور پر مزید کمزور ہوں ۔یہ تو طے ہے کہ ہمارے حکمران الیکشن سے نہیں سلیکشن سے انہی کے تعاون اتے اور جاتے ہیں پھر عوام پر بٹھائے جاتے ہیں ۔ان کو عوام پر بٹھانے کیلئے جس طرح غبارے میں ہوا بھری جاتی ہے عوام میں مقبول بنایا جاتا ہے ۔پھران سے کام لے کر انہیں ماضی کا حصہ بنا دیا جاتا ہے۔ ان کا حشر دیکھ لیں کہ وہ کس طرح اگلی دنیا میں جاتے ہیں ۔ جس غبارے میں ہوا زیادہ بھرتے ہیں اس کا انجام بھی اتنا ہی خوفناک وہ کرتے ہیں ۔ ایک تاثر یہ بھی ہے کہ ہمارے ادارے اشاروں پہ کام کرتے ہیں،اپنے بڑے کی بات مانتے ہیں۔ کام اور فیصلے اپنی مرضی سے نہیں کرتے ہیں۔جیسے اس بندے نے جان ا للہ کو نہیں انہی کو ہی دینی ہو۔ موجودہ حالات میں وقت سے پہلے اسمبلیاں توڑنا الیکشن وقت سے پہلے کرائے جانے پر زور دینا اور خود جب سے وزیراعظم کی کرسی سے اتریں ہیں اس کے بعد سے پھر کبھی بھی اسمبلی میں جانا گوراہ نہ کیا ۔ اپنے اسمبلی ممبران سے استعفیٰ دلوائے۔یہ وقت سے پہلے الیکشن میں جانا اس لئے چاہتے ہیں کہ میں جیت کر ایک بار پھر وزیراعظم کے ہی اسمبلی میں جاو¿ں اگر انہیں الیکشن میں جیت نہ ملی تو شور کریں گے کہ شفاف الیکشن نہیں ہوئے ،دھاندلی ہو ہے سوچیں پھر کیا ہو گا ۔ملک انارکی کی طرف جائے گا ،فائدہ انہی قوتوں کو حاصل ہو گا جھنوں نے غبارے میں ہوا بھری تھی ۔ سپریم کورٹ نے سو موٹو لینے پر چند ججز نے بہت اچھا درست کہا تھا کہ فیصلہ کرتے وقت دیکھ لیا جائے کہ کیا اسمبلیاں قانون اور آئین کے مطابق توڑی گئی مگر اس پر کوئی سوچ بچار نہ کی گئی ۔ پہلے یہ لیڈر خود کہا کرتا تھا کہ امریکہ نے میرے خلاف سازش کی روز سیفر لہراتے تھے کہ امریکہ نے میرے خلاف سازش کی ہے ۔ اب اس جماعت نے پیسے لگا کر امریکن لابی تیار کر لی ہے جس کے رزلٹ اب آنابھی شروع ہو چکے ہیں ۔ امریکی مشہور شخصیت زلمی خلیل زاد نے ان کے حق میں بیان دے رہا ہے جس کی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ اب ملک کے اداروں نے آئین اور قانون کے مطابق کام کرنا چھوڑ دیا ہے ، عدالتوں نے تو حد ہی کر دی ہے ۔ عام طور پر ملزم اگر پہلی کال پر عدالت میں حاضر نہیں ہوتا تو اس کی غیر حاضری لگا کر اگلی کارروائی شروع کر دی جاتی ہے ۔مگر یہاں تو ملزم گھر سے ہی آٹھ بجے لاہور سے اسلام آباد کے لئے روانہ ہوتا ہے ۔اپنی مرضی سے ایڈیشنل کی عدالت کو اپنے کیس کی فائل اور سٹاف کے ساتھ نئی عدالت میں شفٹ کروا لیتا ہے ۔جج ملزم کے انتظار میں سارا دن بیٹھا رہتا ہے اور ملزم پہنچ کر بھی گاڑی سے نہیں اترتا۔پھر عدالت اپنے عملے ، پولیس افسر اور وکلا کیساتھ گاڑی سے حاضری کیلئے د ستخط لینے بھیج دیتے ہیں۔پھر عدالت کا ریکارڈ گم ہو جاتا ہے عدالت پھر بھی اس حاضری کوتسلیم کر کے انہیں گھر جانے دیتی ہے ۔ایسا دنیا کے کسی ملک میں نہیں ہوتا ۔پلیز اداروں کو اپنے فیصلے اپنی مرضی سے کرنے دیں الیکشن کمیشن نے حالات و واقعات کے مطابق اچھا فیصلہ دیا ہے کہ ملک میں تمام الیکشن مردم شماری کے بعد ایک ساتھ اکتوبر میں اپنے مقررہ وقت پر ہوں گے ۔اب سوائے ایک جماعت کے سب سیاسی جماعتیں یہی چاہتی ہیں کہ الیکشن اپنے مقررہ وقت پر ایک ساتھ ہوںاسی میں بہتری اور یہی مسئلے کا حل ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri