کالم

ریکارڈ قانون سازی اور پی ٹی ڈی سی

rohail akbar

حکومت اپنے آخری دن پورے کررہی ہے لیکن جاتے جاتے انہوں نے ملکی پارلیمانی تاریخ میں تیز ترین قانون سازی کا ریکارڈ بھی قائم کرکے پارلیمانی تاریخ میں قانون سازی کی تیز ترین نصف سنچری بھی مکمل کرلی صرف چار روز میں پارلیمان سے 54بل منظور کروا لیے جن میںسے 35نجی یونیورسٹیوں کے قیام سے متعلق ہیں کا اس میں پاکستان میں سیاحت کے حوالہ سے بھی کوئی بل پاس ہوجاتا تو اس مردہ گھوڑے میں بھی جان پڑ جاتی فلحال تو رانا ثنا ءاللہ خان نے پاکستان سے باہر جانے والے سیاحوں کے لیے ایک اچھا کام کردکھایاہے کہ اپنے دورہ عراق میں عراقی صدر ڈاکٹر عبدالطیف رشید سے ملاقات پاکستانیوں کی عراق سے محبت کا بتایااور زائرین کی سہولیات پر بات کی تو عراقی صدر نے رانا ثناءاللہ کی درخواست پر پاکستانیوں کے لیے دو بڑے کام کردیے ایک تو پاکستانی زائرین کا کوٹہ 50 ہزار سے بڑھا کر ایک لاکھ کردیا اور اسکے ساتھ ساتھ پاکستانی زائرین کو گروپ ویزہ کے علاوہ پاکستان میں عراقی سفارتخانے سے انفرادی ویزہ جاری کرنے کی منظوری بھی دی جبکہ دوسرا بڑا کام یہ ہوا ہے کہ عراقی وزیر اعظم محمد شیاع السودانی نے پاکستانی زائرین کیلئے ویزا فیس ختم کردی دنیا میں سیاحت کا شعبہ عالمی معیشت میں اہم کردار ادا کر رہا ہے اور ہمارے ہاں یہ شعبہ دن بدن تنزلی کا شکار ہورہا ہے سیاحوں کےلئے حکومتی سطح پر کوئی پروگرام نہیں اس وقت وفاقی اور صوبائی سطح پر ٹورازم کے محکمے اپنی روایتی سستی اور کاہلی سے کچھوے کی چال چل رہے ہیں پاکستان ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن کو عون چوہدری اور آفتاب الرحمن کے سپرد کیا ہوا جنہوں نے ادارے کے اندر اپنی سیاست شروع کررکھی ہے اسی ادارے کے کسی دور میں چوہدری عبدالغفور میو بھی سربراہ رہ چکے ہیں جنہوں نے اس شعبہ میں اتنا کام کیاجتنا اسکی تاریخ میںکسی نے نہیں کیا ہوگا پاکستان میں ساحت کا شعبہ اس لیے بھی پروان نہیں چڑھ رہا کہ ٹورازم کے اندر بیٹھے ہوئے افراد کی اس حوالہ سے کوئی دلچسپی نہیں آپ انکے ہوٹل دیکھ لیں بہترین لوکشن پر ہیں جہاں خوبصورتی چھلک چھلک کر دروازوں پر دستک دیتی ہے لیکن ان ہوٹلوں کا ماحول بالکل ہمارے سرکاری اداروں کی طرح کا ہے ان ہوٹلوں میں ویٹر سے مینجر تک اپنے آپ کو ایم ڈی سمجھتا ہے یہی صورتحال صوبوں میں ہے سفارشی تعینات ہونے والے صرف موج مستی کرنے آتے ہیں اور پھر کوئی جاتے جاتے اپنے بندے رکھ کر جاتا ہے تو کوئی کسی اور کے رکھے ہوﺅں کو نکال کر چلا جاتا ہے پاکستان ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن یا پی ٹی ڈی سی کی بات کریں تو یہ حکومتی سرپرستی میں چلنے والا واحد ایسا ادارہ ہے جسکا کام ملک میں سیاحت کو پروان چڑھانا ہے پی ٹی ڈی سی بورڈ آف ڈائریکٹرز کے زیر انتظام ہے اور مختلف علاقوں میں نقل و حمل فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں متعدد موٹلز کا مالک بھی ہے جن میں استق، خلتی، ایوبیہ، بونی، بیشام ، چترال ، کریم آباد ہنزہ، خضدار بلوچستان، میاندام سوات ، سیدو شریف ، پنکوٹ ، ستپارہ ، سوست ، طورخم ، واہگہ لاہور زیارت ، ناران ، شوگر ان ، سکردو ، خپلو اور گھانچے شامل ہیں پاکستان ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن کو 30 مارچ 1970 کوحکومتی بیڑے میں شامل کیا گیا تھا 2018 میں برٹش بیک پیکر سوسائٹی نے پاکستان کو ایڈونچر سیاحت کےلئے سرفہرست ملک قرار دیا سیاحت نے پاکستان کی معیشت میں تقریباً 19.4 بلین ڈالر کا حصہ ڈالا پاکستان میں سیاحت ایک بڑھتی ہوئی صنعت ہے پاکستان جغرافیائی اور نسلی اعتبار سے ایک تاریخی ملک جہاں ثقافتی ورثے کے متعدد مقامات ہیں اکثر ممالک نے پاکستان کو 2020 کےلئے بہترین تعطیلات کی منزل قرار دیاتھا اور پھردو سالوں میں اس میں 300 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے پاکستانی حکومت نے 175 ممالک کےلئے آن لائن ویزا سروسز کا آغاز کررکھا ہے اور 50 ممالک کے شہریوں کو آمد پر ویزا کی پیشکش لگا دیا جاتا ہے فوربس نے بھی پاکستان کو 2019 میں دیکھنے کےلئے بہترین مقامات میں سے ایک قرار دیا۔ ورلڈ اکنامک فورم کی ٹریول اینڈ ٹورازم مسابقتی رپورٹ نے پاکستان کو عالمی ثقافتی ورثہ کی جگہوں کےلئے دنیا کے 25 فیصد سرفہرست مقامات میں رکھاہوا ہے جو انڈس ڈیلٹا میں مینگرووز سے لے کر وادی سندھ کے تہذیبی مقامات بشمول موہنجو داڑو اور ہڑپہ تک ہیں 2015 میں پاکستان کے جی ڈی پی میں سفر اور سیاحت کا براہ راست حصہ 328.3 ملین امریکی ڈالر تھا جو کل جی ڈی پی کا 2.8 فیصد بنتا ہے اکتوبر 2006 میں دی گارڈین نے 2005 کے کشمیر کے زلزلے کے ایک سال بعد ملک کی سیاحت کی صنعت کو مدد دینے کےلئے”پاکستان کے ٹاپ پانچ سیاحتی مقامات” کی فہرست جاری کی تھی ان مقامات میں لاہور، شاہراہ قراقرم، کریم آباد اور جھیل سیف الملوک شامل ہیں ملک کے ثقافتی ورثے کو فروغ دینے کےلئے 2007 میں پاکستان نے "وزٹ پاکستان” مہم کا آغاز کیا جس میں میلوں، مذہبی تہواروں، علاقائی کھیلوں کی تقریبات، آرٹس اینڈ کرافٹ شوز، لوک تہواروں اور تاریخی عجائب گھروں کے افتتاح سمیت تقریبات شامل تھیں 2013 میں نصف ملین سے زیادہ سیاحوں نے پاکستان کا دورہ کیا جس میں 298 ملین ڈالر کا حصہ تھا ان اعداد و شمار کے بعد سے 2018 میں 6.6 ملین سیاحوں کی تعداد بڑھ گئی ہے اس کے مقابلے میں پاکستان کی گھریلو سیاحت کی صنعت کا تخمینہ 50 ملین سیاحوں پر ہے جو عام طور پر مئی اور اگست کے درمیان مختصر دوروں پر ملک کا سفر کرتے ہیں سیاحوں کی سب سے زیادہ آمد برطانیہ سے ہے اس کے بعد امریکہ، بھارت اور چین آتے ہیں اب بھی ہم اس انڈسٹری سے بے شمار فوائد اٹھا سکتے ہیں لیکن اس کے لیے ہمیں چوہدری عبدالغفور میو ، بشیر اے شیخ اورفاروق آزاد جیسے افراد چاہیے جو سیاحت کوایک مشن کے طور پر لیکر آگے چلیں ۔
٭٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے