مارچ کو امریکہ سے روانہ کیا گیا سائفر مبینہ طور پر اگلے روز اپنی منزل مقصود یعنی فارن آفس اسلام پہنچ جاتا ہے۔ ضابطے کی کاروائی کے بعد اسے جس جس کو بھیجنا ہوتا ہے بھیج دیا جاتا ہے، خبریں ان دنوں یہی چلتی رہیں کہ اس7 سے فارن منسٹر اور وزیر اعظم کو جان بوجھ کر لاعلم رکھنے کی کوشش کی گئی۔ تاہم جن جن کو پیغام بھیجا گیا تھا انہیں پیغام واضح انداز میں پہنچا دیا گیا کہ انکل سام کی یہ خواہش ہے اور اسے اگر پورا کر دیا گیا تو ٹھیک ورنہ نتائج کے لئیے تیار رہو۔ اسوقت کے وزیر اعظم کے خلاف خفیہ طور پر تختہ الٹنے کی سازش پوری طرح تیار ہو چکی تھی، جو جیلوں کے مہمان بننے والے تھے، جو سامنے آ کر بات کرنے کی جرات نہ رکھتے تھے وہ جلسے کرنے لگے اور خان کو للکارنے لگے۔اچھی طرح یاد ہے جو مولانا صاحب ان دنوں بالکل بے بس سے لگتے تھے انہوں نے سر عام یہ کہہ دیا کہ ُان کی سپورٹ اب ختم ہو چکی ہے اور اب اِنکے دن پھرنے والے ہیں۔ مردہ گھوڑے پی ڈی ایم کو زندہ کیا گیا اور رات دن خان کو گرانے
skمیں سب اکھٹے ہو گئے۔ خان نے یہ سب کچھ بھانپ لیا تھا اور سائفر کی ایک کاپی بھی اسے علم ہونے پر پہنچا دی گئی تھی کہ خان نے اس سازش کو بے نقاب کرنے کا جلسہ عام میں ارادہ کیا اور پھر 27 مارچ 2022 کی شام اس نے عوام کے ایک بہت بڑے جلسے میں اس سازش کا بھانڈہ پھوڑ دیا۔ راقم کو اچھی طرح یاد ہے خان نے اپنے خطاب کے دوران دو یا تین مرتبہ ایک سفید کاغذ جیب سے نکال کر عوام کو دکھایا تھا کہ امریکہ سے یہ چٹھی آئی ہے جسمیں خواہش ظاہر کی گئی ہے کہ ان کی حکومت کو گرایا جائے اگر ایسا نہ کیا تو پھر امریکہ اچھا سلوک نہیں کریگا۔ خان نے اسکے علاوہ کوئی خاص راز کوئی خلاف قانون ایک لفظ بھی نہ کہا بلکہ اسے سرعام پبلک نہ کرنی کی کچھ وضاحتیں بھی کر ڈالیں تھیں۔خان نے بہت ہی محتاط انداز میں اپنا نکتہ نظر پبلک میں پیش کیا، لیکن اسکی آڑ میں کتنا بھونڈا کھیل کھیلا گیا جو بلآخر پانی کا محض ایک بلبلہ ہی ثابت ہوا ۔ 09اپریل بھی اچھی طرح یاد ہے کہ جمہوریت کے نام پر ایک ایسی انوکھی اجتماعی شادی دیکھی کہ دولہا اور دلہنوں کے چہرے اترے ہوئے تھے جیسے یہ شادی مرضی کی نہیں گھروں سے بھاگ کر شادیاں کروا رہے ہیں، باراتی ایسے جیسے قیدیوں کو ڈنڈے کے زور پر ہانکا جا رہا ہو۔ ظاہر ہے ایسی جبری شادیوں کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوتا۔ نتیجہ چند ماہ کے اندر اندر اپنے سارے کیسز معاف کروا کر ملک اندھیروں میں ڈوبتا چھوڑ کر یہ سب ایک دوسرے کو بھی چھوڑ گئے اور گھروں کی چابیاں ایسے نامعلوم قسم کے راہگیروں کے حوالے کر دیں جو گھر ، گھر ہستی کے نام سے بھی ناواقف۔ وہ وہ لوٹ مار مچی کہ عوام بلبلا اٹھے۔ ہاں ایک بات پر سب متفق تھے کہ یہ گھر چاہے برباد ہی کیوں نہ ہو جائے ، کلی دا ککھ نہ رہوے، خان کو دوبارہ مسند اقتدار کے قریب بھی پھٹکنے نہیں دینا۔ ایسے ایسے آو¿ٹ پٹانگ کیسز بننا شروع ہوئے اور رات دن کی شفٹوں میں ٹرائل کروا کر متعدد مقدمات میں خان کو سزائیں سنا دی گئیں جن میں سے ایک مشہور زمانہ بلکہ مشہور عالم ایک سائفر کیس بھی تھا جس میں ٹرائل جج صاحب نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر خان اور شاہ محمود قریشی کو دس دس سال قید بامشقت سنائی۔اپیلیں ہوئیں اور تقریبا دو درجن کے قریب تاریخوں پر ان اپیلوں کو تھوڑے تھوڑے وقت کیلئے سنا گیا۔یہ معاملہ ڈی بی کے روبرو زیر سماعت رہا اور آج بالآخر پراسیکیوشن کے تمام تر تاخیری حربوں اور درخواستوں کے معزز عدالت نے خان اور ساتھی ملزم شاہ محمود قریشی کو مقدمے سے بری کر دیا۔ خان اور شاہ محمود قریشی کو ایسے بھونڈے انداز میںقید رکھنا، تمام ضابطوں تمام قانونی تقاضوں کو پاو¿ں تلے روند کر من پسند انصاف اور زبردستی کے فیصلے لینا، اسکا ذمہ دار کون ہے،کون اس ظلم کا حساب دے گا کہ ایک جھوٹے مقدمے میں اس ملک کے مقبول لیڈر کو آپ نے پابند سلاسل کر کے پوری اقوام عالم میں اسکو رسوا کیا۔ کوئی ہے جو ان سے زیادتیوں کا حساب لے سکے۔ آپ نے تو ایڑی چوٹی کا زور لگا کر اس شخص کو مٹانے کی کوشش کی لیکن وہ تو ہر ظلم ہر ذیادتی کے بعد بھی اپنے مشن پر ڈٹا رہا۔ مٹانے والوں کی تدبیریں الٹی پڑ گئیں اور وہ شہرت و عظمت کی بلندیوں کو ہر گزرے روز کے بعد چھو رہا ہے۔ قوم جواب مانگتی ہے، جھوٹی سائفر کہانی کس نے، کس کے ایما پر اور کیوں گھڑی گئی، کیوں ایک بے بنیاد الزام پر زبردستی سزائیں سنائی گئیں، سائفر کہاں گم ہوا، اس سے اس ملک کے کونسے تعلقات اور کس سے خراب ہوئے۔یقینا اسکا ان کے پاس کوئی جواب نہ ہے۔ملزم تو باعزت بری ہو چکا ہے، معزز عدالت نے ہر الزام ہر ایک فرد جرم کو جھوٹا قرار دے دیا ہے۔

