کالم

سانحہ پشاور۔۔۔اب بہت ہو چکا

کیاخوبصورت ہرابھراسر سبزوشاداب ملک تھا فیکٹریوں کی چمنیاں دھواں اگلتی تھیں روٹی روزگارتھادہشت گردی کا خاتمہ ہو چکاتھا امن وامان تھا خودکشیوں کو بھی بریک لگ چکی تھی۔مگر پتہ نہیں یکدم ایسا کیا ہوا کہ وطن عزیز کو کسی بد بخت کی نظرلگ گئی الٹے پاں والی چڑیلوں نے یہاں بسیرا شروع کر دیا اور پھر ہرطرف افراتفری کا عالم ہونے لگا۔گزشتہ ہفتہ تو سب سے بھاری رہا لسبیلہ میں خوفناک ٹریفک حادثہ کتنی ہی جانیں لے گیا۔وہ جو گھروں سے کام کاج کیلئے اپنی منزلوں کو خوشی خوشی نکلے تھے موت کے مسافر بن گئے اور یہاں تک کہ حادثہ میں اپنی شناخت تک کھو بیٹھے کتنے ہی گھروں میں صف ِماتم بچھ گئی۔ابھی اس سانحہ کی خبرچل رہی تھی کہ تاندہ ڈیم میں ایک مدرسے کے دس اورپندرہ سال کی عمروں کے معصوم بچے پِک نِک مناتے ہوئے ڈوب گئے۔خوشیاں منانے نکلے تھے کہ موت نے نگل لیااور پھر اگلے ہی روزپشاورمسجدمیں دہشتگردی کا سانحہ ہو گیا جس نے پورے پشاوربلکہ پورے ملک کو سوگوارکردیا۔پھولوں کا شہرپشاورمعصوم بے گناہ نہتے انسان جواللہ کے حضورحاضری دینے مسجدمیں آئے تھے اللہ کو پیارے ہوگئے۔کل تمام دن دیگرلوگوں کی طرح میری نظریں بھی ٹیلی ویژن سکرین پر جمی رہی ہر گزرتے لمحے کیساتھ شہادتوں اورزخمیوں کی تعداد میں اضافے نے دل مغموم کئے رکھا کہ الہی وطن عزیز میں یہ سب کچھ پھر سے کیسے شروع ہوگیا۔ہماری مسلح افواج اورقانون نافذکرنے والے اداروں اور ہمارے شہریوں نے کس قدر قربانیاں دیکر دہشت گردی کے اس عفریت کو لگام ڈالی تھی اور اب پھر وہ عفریت سراٹھانے لگا ہے۔ قیامت کی اس گھڑی میں اداروں کےساتھ ساتھ پشاوریوں نے جس جرات بہادری اور انسان دوستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے امدادی کاموں میں حصہ لیا ہے اورخون کے عطیے دیکر زخمیوں کو موت کے منہ سے بچانے کی کوشش نے ثابت کر دیا ہے کہ صوبہ سرحد کے لوگ بڑے بہادر ہیں ویسے بھی دیکھا جائے تو دہشت گردی کی جنگ میں صوبہ سرحدنے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں اورجس طرح ہر بار دوبارہ سے زندگی کی رونقوں کو بحال کیا ہے قابلِ تحسین ہے۔ مجھے تو ویسے بھی پشاور بہت پسند ہے جتنی مرتبہ بھی مجھے وہاں جانے کا اتفاق ہوا ہے میں نے پشاور میں زندہ دلی پیار محبت ملنساری اور مہمان نوازی سے متا ثرہوا ہوں۔پھولوں کے اس شہر میں دہشت گردوں نے قیامت برپا کردی پولیس لائنزجیسے حساس ترین علاقے کی مسجد میں ظہر کی نماز کے آغازپر ہی خودکش حملہ آورنے خود کو اڑاکر ثابت کر دیا ہے کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ان کے دل سینے میں دل نہیں پتھررکھا ہوتاہے۔ پشاور کی سڑکیں انسانی خون سے لتھڑی ہوئی ہیں فضا سوگوار ہے ہر گھر میں ماتم برپا ہے۔ معلومات کے مطابق پولیس لائنزاوراس کے اردگرد وزیراعلی ہاس گورنرہاس سول سکریٹریٹ اور دیگر اہم ترین دفاتر ہیں۔بتایا تو یہ جارہا ہے کہ سول لائنز میں داخلہ کا ایک ہی گیٹ ہے جبکہ اس گیٹ تک پہنچنے کے لئے کئی چیک پوسٹوں سے گزرناپڑتا ہے۔تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ دہشتگردان چیک پوسٹوں اور گیٹ تک کے مراحل سے اسلحہ سمیت کیسے پہنچا۔عام زھین میں خیال آتا ہے کہ یہ کوئی فوری داخل نہیں ہوا تھا اور اکیلا بھی داخل نہیں ہوا تھا۔اسے یہاں تک لانے اور اسلحہ پہنچانے میں ایک سے زیادہ سہولت کار شامل ہوں گے جنہیں بخوبی علم ہوگا کہ حملہ آور کا مشن کیا ہے اور اسکے نتیجہ میں کس قدر تباہی ہو گی۔لیکن اسکے باوجود سہولت کاروں نے اسے سہولتیں فراہم کی اسکی شناخت کو چھپاکر رکھا جس کے نتیجہ میں ایسی تباہی نے جنم لیا کہ جسے مدتوں یادرکھا جائیگا۔ابھی تو ہم آرمی پبلک سکول کے معصوم پھولوں کا دکھ نہیں بھولے تھے لیکن مسجدسانحہ پر آنے سے پہلے میری معلومات کے مطابق صوبہ کے مختلف شہروں میں دہشتگردی کے واقعات تسلسل سے ہو رہے تھے اور مجموعی طور پران واقعات کی تعداد سینکڑوں تک پہنچ چکی تھی اورپاک فوج اورپولیس کے متعدد افسر اورجوان دہشتگردوں کا مقابلہ کرتے اپنی قیمتی جانیں وطن پر قربان کرچکے تھے توسوال اگر یہ اٹھتا ہے کہ دہشتگرد مسجد کے اندر پہلی صف میں کیسے پہنچاتو سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ ہمارے حکمران کہاں تھے کیوں دہشت گردی کی پہلی واردات کے بعدہی قومی سلامتی کااجلاس نہیں بلایاگیا۔کیوں ملکی سلامتی واستحکام کی خاطرتمام سیاسی جماعتوں کو اکٹھا کرکے کوئی ایسا فیصلہ نہیں کیا گیاکہ معاملہ کی نزاکت کے تحت اپنے سیاسی اختلافات کو کچھ وقت کے لئے ایک طرف رکھ کر سیسہ پلائی دیواربن کر دہشت گردوں کے خلاف کھڑے ہو کر ملک و قوم کو بچاتے لیکن یہ دیکھ کر تکلیف ہوتی ہے کہ حکمرانوں کو اپنی کرسی بچانے عرصہ اقتدار کو طویل کرنے اوراپنے سیاسی حریفوں کو کھڈے لائین لگانے سے فرصت ہی نہیں تھی جبکہ اپوزیشن کا بھی کچھ ایساہی رویہ تھاکہ وہ اقتدار میں آنے کےلئے ہر جائزوناجائز کام کو کرتے ہوئے جمہوری اقتدار کو ایک طرف رکھ چکے تھے ۔سانحہ پشاورپر جس قدر بھی ماتم کیاجائے کم ہے ہونا یہ چاہئے کہ شہیدوں کی قبروں کی مٹی خشک ہونے سے پہلے ضرب عضب جیساایک مشن شروع کیا جائے اور تمام سیاسی جماعتیں اورسیاستدان یک جان ہو کر اس مشن کیساتھ کھڑے ہوں اوردہشتگردوں اور انکے پس پردہ ہاتھوں کو چاہئے وہ کتنے ہی محفوظ مقام پر بیٹھے ہوئے ہوں کو چن چن کر واصل جہنم کیا جائے اس مشن میں مسلح افواج اور قانون نافذکرنے والے اداروں کا دست وبازو بن کر ساتھ چلے جنازے اٹھاتے اٹھاتے قبریں بناتے بناتے اپنے پیاروں کو کھوتے کھوتے ماتم کرتے کرتے مرثیے لکھتے لکھتے آنسوبہاتے بہاتے اب تو ہم نڈھال ہوچکے ہیں۔پاک وطن کو ہنستا مسکراتا مضبوط اورمستحکم بناناہر پاکستانی کا فرض ہے۔قانون نافذکرنے والے ادارواں اورمسلح افواج اورسپہ سالار سے ہماراوعدہ ہے کہ بہادر عوام ان کا دست وبازو ہیں اوردہشتگردی کے خلاف ہر قربانی دینے کے لئے تیارہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri