کالم

ساڈے مامے

والدہ کے بھائی چاہے وہ سگے ہوں یا سوتیلے انہیں ماموں کہا جاتا ہے ان کی بڑی عزت ہوتی ہے اور وہ بھی اپنے بھانجے بھانجیوں سے بہت شفقت و محبت اور تعلق قائم رکھتے ہیں کیونکہ وہ ننھیال ہوتا ہے ہمارے معاشرے میں یہ محاورہ رائج ہے کہ کسی کو بیوقوف بنا کر ہم کہتے ہیں کہ انہیں ماموں بنا دیا۔ ماموں کتنے ہی چالاک سمجھدار کیوں نہ ہوں لیکن وہ بہن کی اولاد کو ان کی غلطیوں پر شرمندہ نہیں کرتے دل بڑا رکھتے ہیں اور محبت کے اظہار میں بخیل بھی نہیں ہوتے 1947سے ہمارے خواہ مخواہ کے ماموں امریکن بنے ہیں لیاقت علی خان شہید نے اپنا پہلا دورہ امریکہ سے شروع کیا تھا اور وہ لاج ہم آج تک نباہ رہے ہیں انہوں نے ہمیشہ ہمیں ماموں بنایا اور یہ سلسلہ شاید ختم نہ ہو ہم ان کے بغیر رہ نہیں سکتے کیونکہ انہوں نے ہمیں گود میں پالا ہے ہم کو نہ جانے کب بڑے ہونے کا احساس ہوگا ہمیں جب بھی کوئی پریشانی چاہے وہ مالی ہو یا جسمانی ہم اپنے مامووں کے پاس دوڑے چلے جاتے ہیں وہ کبھی ایک کھلونا دے کر بہلا دیتے ہیں کبھی شفقت اور پیار بھری سرزنش سے دل شکنی سے بچاتے ہیں انکے حوصلے کو داد دینی چاہیے کہ پچھتر سالوں سے انہوں نے ہمیں لاڈلا بنایا ہوا ہے اور ہم ان سے کھیلنے کےلئے چاند مانگتے ہیں ہمارے ماموں دور بیٹھ کر بھی ہمیشہ قربت کا احساس اجاگر رکھتے ہیں اور اکثر وہ اپنی بات منواتے ہیں ہم چونکہ چھوٹے ہیں اس لیے انکی ہر بات ماننا پڑتی ہے وہ اکثر ہمارا جیب خرچ ادا کرتے رہتے ہیں ہم کیونکہ اب تک ان سے لے کر کھارہے ہیں اور ہر کام میں ان کی معاونت سے مکمل ہوتا ہے اس لیے چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی ان کے سامنے ادب، احترام سے سرنگوں رکھتے ہیں اب ہماری فطرت میں بھی تبدیلی رونما ہو چکی ہے جب تک وہ ہمیں کسی کام کی اجازت نہیں دیتے ہم کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں ہوتے لائحہ عمل ان کے مشورے سے طے پاتا ہے اس وقت وہ اتنی حد تک ہمارے بہی خواہ ہو چکے ہیں کہ ہمارے گھریلو معاملات کے ہر پہلو پر ان کی گہری نظر ہے حال ہی میں کانگریس کے ساٹھ ممبرز یعنی ہمارے مامووں نے امریکہ کے صدر جو بائیڈن کو خط لکھ ڈالا کہ پاکستان میں تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کروایا جائے اور خصوصا عمران خان کو جو ایک عرصے سے قید و بند کی صعوبتیں سہہ رہے ہیں مامووں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو کر چھلکنے لگا کہ پاکستانی بھانجوں نے اپنے ہی بھائی کو قید میں ڈالا ہوا ہے کیا یہ حضرت یوسف کے بھائیوں کی طرح بن چکے ہیں یا بننے جا رہے ہیں ان کو احساس دلانے کا وقت ہے کہ کچھ حیا کرو کچھ شرم کرو پاکستان سے زیادہ تو دنیا میں اس کی عزت ہے جس نے ہر بخیل کو سخی بنانے کا نہ صرف عہد کیا بلکہ یونیورسٹی اور ہسپتال بنانے کےلئے ان کی جیبوں کو ہلکا بھی کر دیا انہیں سخاوت کے درجے پر فائز کرنے کی عملی جدوجہد بھی کی اب یہ ماموں پہ منحصر ہے کہ وہ اپنے بھانجوں کی حکومت کو خفیہ یا پھر بہ بانگ دہل کیا پیغام دیتے ہیں میں سوچ رہا تھا کہ ان کی نظروں میں ہمارا کیا وقار ہے ہم کیوں نہیں مانتے کہ پچھتر سالہ جوان ہیں زندگی کے شب و روز گزار رہے ہیں اور ان پر تو ہمارا سب کچھ عیاں ہے ہماری رہائش سے لے کر کھانے پینے تک ان سے کیا چھپا ہوا ہے ہمیں گندم نہ دیں تو ہماری روٹی پوری نہیں ہوتی ہمارا خرچہ امریکن مامووں نے اٹھایا ہوا ہے اس لیے انکا ہمارا محاسبہ کرنا اور موقع بہ موقع سرزنش کرنا مشکل نہیں ہمیں جب یہ احساس ہوتا ہے کہ ہم بڑے ہو چکے ہیں اپنے فیصلے خود کرنے کے قابل ہیں تو انہیں یقین ہی نہیں آتا گھوری وٹ دیتے ہیں اور ہم ٹھنڈے ہو جاتے ہیں کیونکہ ہم ان کے پالک ہیں اس لیے ہماری مرضی چلنا مشکل ہے ماموں جو چاہیں گے ویسا ہی ہوگا آپ اندازہ لگائیں مامووں کو کتنی تکلیف ہوئی ہے کہ انکا ایک ہونہار دنیا میں مشہور بھانجا اپنے بھائیوں کی قید میں ہے اسے رہا کروانے کےلئے وہ کسی حد تک بھی جا سکتے ہیں اور ہمیں بھی اس بات پر فخر ہے کہ پریشانی میں اپنی صلاحیتوں پر کم لیکن مامووں کی گود میں بیٹھنے کو زیادہ فوقیت دیتے ہیں نہ ماموں ہم سے دور ہیں نہ ہم ان کی توجہ اور پیار سے محروم ہوتے ہیں ہماری تاریخ گواہ ہے کہ ہم نے کبھی اپنے مامووں کو شرمندہ نہیں ہونے دیا ہم میں تابعداری اس قدر ہے کہ ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ دوسروں کی طرح انسان ہوتے ہوئے بڑے ہو چکے ہیں اپنی مشکلات یا معاملات کے حل میں اپنے خیالات کے مطابقت میں فیصلے بھی کر سکتے ہیں ان کی طرف سے چھڑی اور چاکلیٹ ساتھ ساتھ چلتے ہیں ہمارے گھر کی خودمختاری کہاں ہے کیا ہم کبھی اس منزل پہ پہنچ سکتے ہیں لوٹ مار کرنے میں ہم اس قدر ماہر ہو چکے ہیں کہ کچھ اور ہو نہ ہو ہمیں دولت کے انبار لگانے ہیں صرف یہ مقصد حیات ہے یہ بھی ہمیں اچھی طرح علم ہے کہ جمع پونجی یہیں چھوڑ کر ہمیں خالی ہاتھ جانا ہے لیکن خبیث عادت سے جان چھڑوانا ممکن ہی نہیں رہا مامووں کی شفقت بھری گود میں ہم نے آنکھیں کھولی ہیں اس لیے ان کی طرف سے چھڑی رکھی جائے یا چاکلیٹ ہمیں کچھ فرق نہیں پڑتا جو انہوں نے ہم سے کروانا ہے وہ ہو کر رہے گا ہماری لگام ان کے گورے گورے ہاتھوں میں ہے گھوری وٹیں یا پیار سے دیکھیں ہماری مجال نہیں کہ چوں بھی کر جائے جن کا کھاتے ہیں ان کے سامنے کیا بولنا بس تابعداری میں برکت ہےہم سعادت مند بچے ہیں جو ہمارے بڑے چاہیں گے وہی ہمارے لیے بہتر ہے یہ بات اتھرے بھانجوں کو جتنی جلدی سمجھ آ جائے وہ اتنے ہی فائدے میں رہتے ہیںامریکن ماموں بہت ہوشیار ہیں وہ اتھرے بھانجوں پر نگاہ رکھتے ہیں موقع محل کے مطابق جس کو چاہتے ہیں باقی بھانجوں کو رکھوالی کے لئے اپنی آنکھوں کا تارا بنا لیتے ہیں اس لئے ہم ملکی سیاست میں خود کفیل ہیں بلکہ ذلیل ہیںہر شعبہ حیات میں قیادتیں ہی قیادتیں ہیں ہمارا ملک قیادت کے معاملوں میں ماشااللہ خود کفیل ہے بلکہ کثیر القیادت ہے سچ تو یہ ہے کہ قیادتوں کی کثرت قیادت کی عدم موجودگی کا بڑا ثبوت ہے اگر ماحول اور فرد کے معیار میں فرق ہو تو کامیابی کا تصور ختم ہوجاتا ہے ہم اب تک کتنے کامیاب ہیں اگر اس سوال کا جواب آپ کے ذہن میںہو تو معاشرے کو مستفیض فرمائیں گدھ کی کامیابی یہ ہے کہ اس کی پرواز مردار کا راستہ دکھائے اور ہمارے ہاں یہی کھیل جاری ہے قوم غریب سے غریب تر ہو چکی ہے لیکن امرا ءگدھ کی طرح مردہ قوم کو بھنبھوڑ رہے ہیں جس سماج میں اخلاقی معیار نہ ہو تو وہاں خطرے منڈلاتے رہتے ہیں میں کچھ عرصہ بیمار رہا اور ڈاکٹروں کے ہتھے چڑھ گیا میں نے محسوس کیا کہ ایک کامیاب ڈاکٹر آہستہ آہستہ اپنی کامیابیوں کے تقاضوں سے مجبور ہو کر اتنا بے بس ہو جاتا ہے کہ وہ مریضوں سے فیس وصول کرتا ہے ہمدردی اور نیکی کے بجائے مال کا معاوضہ اور یہ عمل اس قدر بڑھ چکا ہے کہ اب وہ عذاب کی صورت میں ڈھل گیا ہے میڈیکل سینٹروں کی تعداد میں اضافہ خدمت خلق کے بجائے طب انڈسٹری بن چکا ہے مشورہ اور پیسہ چولی دامن بن چکے ہیں جن کے پاس مال دولت کے ذخیرے ہیں وہ بیماری کی صورت میں مامووں کے پاس چلے جاتے ہیں فرعون کامیاب بادشاہ تھا اس کے پاس دولت تھی اسے لوگوں میں عزت کی غلط فہمی بھی تھی صاحب امر تھا اس کا حکم بھی نافذ ہوتا تھا اور حضرت موسیٰ گھر سے بے گھر صحرا بہ صحرا جو بہ جو پھرنے والے اللہ کے رسول تھے کون کامیاب تھااور کون ناکام اسکا فیصلہ ہو چکا ہم غریب قوم ہیں جسے اپنے ہی لوٹ رہے ہیں کوئی غیر نہیں صرف اپنے اپنوں کو ڈسے ہوئے ہیں جو غیروں کی جاری کردہ غلامی کی دستاویز سے ہمارے سروں پر گھونسلے بناتے ہیں نہ انہیں سچی آزادی کا احساس ہوتا ہے نہ ہی عوام کو موبائل کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے والی قوم اب کوئی دوسری آواز سننے کو ترجیح نہیں دے رہی۔ ہمیں اس بات پر ندامت کیوں نہیں کہ امریکن ماموں بے جا مداخلت کو بھی اپنا حق سمجھنے لگے ہیںکانگریس کے ساٹھ ممبران نے ہمیں گھر کی باندی سمجھا انہیں یہ یقین ہے کہ بڑے ماموںہمیں چھڑی ضرور دکھائیں گے اور سیاسی قیدیوں کی جن میں سر فہرست پی ٹی آئی کا چیئرمین ہے اسے رہا کروا لیں گے۔ سیاسی باریکیوں کو حکومت جانے اور ان کا کام لیکن یہ بات سورج کی طرح عیاں ہے کہ امریکن مامووں کو ہماری اس قدر فکر ہے کہ ہمارے فیصلوں اور عمل کو بھی اب ان کے خیال میں ڈرائی کلین کرنے کا وقت ہوچکا۔ کپڑے پر اب گرم استری کے استعمال کی ضرورت ہے سب شکنیں دور ہو جائیں گی وٹ نکل جائیں گے حالات بتا رہے ہیں کہ عنقریب سیاسی میدان میں رونق لگنے والی ہے کچھ لو اور کچھ دو کا بازار گرم ہوگا یہ وقت اب دعا کا ہے کہ اللہ ہمیں اپنی رحمت سے مایوس نہ ہونے دے یہ ملک جو لاکھوں قربانیوں کے بعد دنیا کے نقشے پر ابھرااسے تابناکی حاصل ہو اور وہ کبھی ماند نہ پڑے دعا سے زمانے بدل جاتے ہیں بلائیں ٹل جاتی ہیں امریکن مامووں کے بے جا پیار سے نجات بھی مل سکتی ہے بشرطیکہ قوم باشعور بنے آزادی کا صحیح ادراک ہو اپنے معاملات خود حل کرنے کی خواہش کسی کے احسان کو اپنا حق سمجھنے کے احساس کا خاتمہ ہو کثرت پرست کو تدبر اور فکر مل ہی نہیں سکتے اور ہم اسی کیفیت میں شب و روز گزار رہے ہیں قرض لے کر قرض اتارنے والی قوم کے ماموں امریکن نہیں ہوں گے تو پھر اور کون ہوگا کاسہ گدائی کو توڑنے کا جب تک احساس نہیں ہوگا ہم اسی طرح خوار ہوں گے بھکاری قوم بن کر جو دے اس کا بھی بھلا اور جو نہ دے اسکا بھی بھلا کی صدائیں اب بند ہونی چاہئیںقوم کو باوقار باشعور قوم بننا ہوگا ورنہ مٹھی بھر ماموں ہمیں غلام سمجھ کر اپنی خواہشوں کے کوڑے برساتے رہیں گے آنکھیں کھولنے کا وقت ہے بہت ہو چکی جوش کے بجائے ہوش کرنا چاہئے اگر اعمال یہودیوں جیسے ہوں اور عمل مسلمانوں جیسا تو نتیجہ کیا حاصل ہوگا ہماری دعائیں نتیجے سے کیوں محروم ہیں اس لیئے بھی کہ ہم مخلص نہیں ہم دینے والے مالک سے بھی دو نمبری کر رہے ہیں اللہ سب کچھ جانتا ہے حضورﷺ کی امت پر دست رحمت دراز کیے ہوئے ہے یہ نہ ہو کہ دوسری امتوں کی طرح ہمارا بھی وہی حال ہو اپنی غربت کو اپنی توہین بننے سے روکنا ہوگا قوم با صلاحیت ہے مخلص باشعور ایماندار قیادت کی ضرورت ہے بیج کوتاریکی میں پالنے والا اپنی مخلوق اور اشرف المخلوق کو بھی پال رہا ہے وہ کریم تو قیامت تک انہیں بھی عطا فرماتا رہے گا جو اس پر ایمان نہیں رکھتے وہ رزاق ہے رزق کا مالک اللہ اس ملک کو قائم دائم رکھے اور اسکے حالات آنےوالے وقت میں بہترین ہوں ہم نہ ہوں گے لیکن آنےوالی نسلیں کبھی تو پروقار زندگی گزاریں گی ان شااللہ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے