سعودی وفد کی حال ہی میں پاکستان آمد کئی اعتبار سے اہمیت کی حامل رہی ، سعودی وزیر برائے سرمایہ کاری خالد بن عبدالعزیز الفالح کے علاوہ نائب وزرا کے اہم برنس مین پاکستان کے دورے پر آئے ، بظاہر اس سے قبل اتنے بڑے سعودی وفد کی اسلام آباد تشریف آوری کی نظیرنہیں ملتی ، درحقیقت معزز وفد کی آمد سے قبل وزیر اعظم پاکستان نے دورہ سعودی عرب کیا جس میں سعودی ولی عہد سے میاں شبہازشریف کی نتیجہ خیز بات چیت رہی جس کے بعد سعودی وزیر برائے سرمایہ کاری اور دیگر اہم تجارتی شخصیات اسلام آباد تشریف لائیں ، حکام کے مطابق حالیہ دورے میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان 9ارب ڈالر کے معاہدے طے پائے ہیں، معاہرین کے بعقول پاکستان میں اگر فوری طور پر سعودی سرمایہ کاری ہوجاتی ہے تو ملک سالوں میں نہیں مہینوں میں اپنی معاشی مشکلات پر باآسانی قابو پالے گا،اس حقیقت سے بھی صرف نظر نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان میں سعودی سرمایہ کاری کا معاملہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے دور سے چلا آرہا مگر پی ٹی آئی حکومت کے بعض غیر سنجیدہ اقدمات کے نتیجے میں مذکورہ منصوبے کو عملی جامہ نہ پہنایا جاسکا، پی ٹی آئی کی حکومت پر جو بڑا اعتراض کیا جاتا ہے وہ یہ کہ اس نے اپنی اندرونی سیاست کےلئے خارجہ امور کے بعض ایسے معاملات کو بھی استعمال کیا جس پر حد درجہ احتیاط برتنے کی ضرورت تھی اس ضمن میں بڑی مثال سابق وزیر اعظم کا جلسہ میں سائفرلہرانا تھا جو بعدازاں پاک امریکہ تعلقات میں خرابیوں اور پیچیدگیوں کا باعث بنا، گزرے ماہ وسال میں پی ٹی آئی دور میں سعودی ولی عہد پاکستان کے دورے پر آئے تو سعودی آئل ریفائنری کی بازگشت سنائی دی مگر مذکورہ منصوبے میں ٹھوس پیشرفت سامنے نہ آسکی، اس ضمن میں سعودی عرب کی جانب سے گودار میں بھی آئل ریفائنری لگانے کی خواہش کا اظہار کیا گیا مگراس پر بھی بات آگے نہ بڑھ سکی ،بتایا جارہا ہے کہ سابق وزیر اعظم کی جانب سے عرب ممالک کی بجائے ترکی اور ملائیشیا سے تعلقات بڑھانے کی خواہش نے سعودی عرب ہی نہیں دیگر عرب ممالک کو بھی ناراض و نالاں کیا، اب وزیر اعظم شہبازشریف اور ان کی معاشی ٹیم اس چیلنج پر قابو پانے کےلئے پوری سنجیدگی سے کوشاں ہے کہ بھارت میں سعودی عرب سمیت دیگر عرب ممالک کی بھاری سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ اسلام آباد میں بھی دوست ممالک کی کاروباری سرگرمیوں کو فروغ ملے ، یقینا اس سچائی کو جھٹلایا نہیں جاسکتا ہے کہ آبادی اور حجم کے اعتبار سے بھارت پاکستان سے بڑا ملک ہے مگر زمینی حقائق یہ بھی ہیں کہ پاکستان اور عرب ممالک کے کروڈوں عوام ایک ہی دین کے ماننے والے ہیں، تاریخی طور پر ایسا کم ہی ہوا کہ اسلام آباد نے عرب دنیا کی خواہشات کو نظر انداز کرتے ہوئے ایسی پالیسوں پر عمل درآمد کیا جس کا سعودی عرب اور اس کے ہم خیال ممالک کو بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر سیاسی یا مالی نقصان ہوا، اب مسلم لیگ ن کی حکومت آگاہ ہے کہ ملک میں سیاسی عدم استحام معاشی استحکام کےلئے بنیادی شرط ہے یہی سبب ہے کہ وزیر اعظم سمیت سب ہی حکومتی زمہ دار اپوزیشن کو بات چیت کے زریعے مسائل حل کرنے کی پیشکش کرچکے ہیں ، اس حقیقت کو بھی جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ جب تک اپنے داخلی مسائل پر قابو نہیں پائیں گے خارجہ محاذ پر غیر معمولی کامیابیوں کا حصول ممکن نہیں، افسوس کہ اس سوال کا جواب یقین سے دینا مشکل ہے کہ حزب اختلاف کب اور کیسے اپنے سیاسی تنازعات اور قومی مسائل میں فرق کرے گی ، یہ کھلا راز ہے کہ پاکستان کے معاشی مسائل ہنگامی بنیادوں پر اتفاق واتحاد کے فروغ کا تقاضا کرتے ہیں، مثلا کتنا اچھا ہوتا اگر اپوزیشن ملک میں سرمایہ کاری کے فروغ کےلئے تمام تر اختلافات کو پس پشت ڈالتے ہوئے حکومت کے شانہ بشانہ موجود ہوتی ، افسوس ازحد افسوس کہ ہمارے ہاں سیاست میں ایسے افراد بدستور موجود ہیں جو اپنی قومی زمہ داریوں کی ادائیگی میں پس وپیش سے کام لیتے ہیں، یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ملک کو بحرانوں سے نکالنے کی تمام تر ذمہ داری محض حکومت کے سر ہے ، دوسری جانب جمہوری نظام سے شناسائی رکھنے والے کسی بھی فرد کےلئے یہ ممکن نہیں کہ وہ حزب اختلاف کو کلین چیٹ دے کر اسے سات خون معاف قرار دے، حوصلہ افزا یہ ہے کہ پاکستان کا عام آدمی تیزی سے شعور کی منازل طے کررہا ، وہ باخوبی جانتا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کا معاملہ ہو یا پھر عام آدمی کو کسی نہ کسی حد تک ریلیف دینے کی کوشش مسلم لیگ ن کی اتحادی حکومت پورے اخلاص اور یقین کے ساتھ مصروف عمل ہے ، ہر باخبر پاکستانی جانتا ہے کہ قومی مسائل پر قابو پانا دنوں اور مہینوں نہیں بلکہ سالوں پر محیط منصوبہ ہے ، یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہونی چاہے کہ ملک کو حقیقی منزل مقصود تک پہنچانےکے لیے ہم جتنی جلدی ہم اتفاق واتحاد کی منزل طے کرلیں گے اتنا ہی ہمارے لیے بہتر ہوگا، اس پس منظر میں آج جس چیز کی ضرورت وہ یہ کہ ہم سعودی عرب سمیت سب ہی دوست ممالک کے سرمایہ کاروں کو ملک وقوم کی خاطر دل وجان سے خوش آمدید کہا جائے تاکہ محفوظ اور خوشحال پاکستان کا خواب عملًا شرمندہ تعبیر ہوسکے۔