کالم

سنگین معاشی حالات

حکمرانوں کی طرف سے پے در پے مہنگائی کرتے ہوئے کہا جارہا ہے کہ یہ آئی ایم ایف کی شرائط ہیں ، اگر ان پر عملدرآمد کرتے ہوئے قیمتوں میں اضافہ نہ کیا گیا تو خدا نخواستہ پاکستان ڈیفالٹ کرجائے گا۔ حکمرانوں کی سوچ اپنی حد تک درست مگر پے درپے مہنگائی اور اشیائے خوردو نوش میں گرانی کے طوفان سے غریب کا چولہا بجھ گیا ہے۔ محنت مزدوری کرنےوالے طبقہ کےلئے دووقت کی روٹی کمانا، جوئے شیر لانے کے مترادف ہوچکا، نفع اور مزدوری کی اجرت وہی مگر اخراجات میں مہنگائی کی وجہ سے کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے، اور سارے سارے دن آٹے کےلئے لائن میں لگنے والے غریب ڈیفالٹ کرچکے ہیں۔ ملک میں معاشی حالات اسقدر سنگین ہیں کہ ہر مکتبہ فکر کے افراد پریشان ہیں اور کہتے نظر آتے ہیں کہ ایسی مایوسی ہم نے اپنی زندگی میں پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ اقتصادی طور پر پاکستان کو خطرناک و پیچیدہ صورت حال کا سامنا ہے ۔ قومی کرنسی ڈالر کے سامنے ایسے عجز کا شکار کبھی نہیں رہی، ایک ڈالر275 روپے کا ہوچکا ہے ۔ زرمبادلہ کے ذخائر ریکارڈ کمی کا شکار ہیں ، ایک ایک دن میں 65 کروڑ ڈالر کم ہورہے ہیں۔ پاکستان بنیادی طور پر زرعی ملک ہے ، ہماری زرخیز اراضی پہلے پورے جنوبی ایشیا کےلئے غلہ پیدا کرتی تھی اب ہم اپنے لئے کیوں نہیں کرسکتے ۔ہماری پاس سونا اگلنے والی دھرتی ہونے کے باوجود ہم گندم ، پیاز، ٹماٹر، سبزیاں اوراناج دوسرے ملکوں سے منگوارہے ہیں۔ ہمارے قدرتی وسائل بے پایاں ہیں مگر بد ترین حکمرانی کی تاریخ نے ہمارے سر شرم سے سر جھکادیے ہیں۔ ملکی غیر ملکی ماہرین کہہ رہے ہیں کہ یہ بگڑے ہوئے حالات ایک سے ڈیڑھ سال مزید جاری رہ سکتے ہیں۔ 13 جماعتی وفاقی حکومت تاحال ملک کے اقتصادی، سیاسی، سماجی مسائل کا کوئی حل تلاش نہیں کرسکی ہے ۔ ایسی پالیسیاں وضع نہیں کرسکی جن سے ڈالر کی پرواز رک سکے ، اور ضروری اشیا کی قیمتیں قابو میں آسکے۔ بعض اوقات تو سنجیدہ حلقے یہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ اقتصادی ، سیاسی، سماجی بحران کو ختم کرنا اس مخلوط حکومت کی ترجیحات میں ہی شامل نہیں ہے بلکہ یہ بحران اسے راس آرہا ہے اور وہ اس سے ٹھیک ٹھیک فائدے اٹھارہی ہے ۔ اس لئے بحران جتنا گہرا اور وسیع ہوتا ہے، اتنا ہی حکومت اپنے مخالفین پر سختیاں زیادہ کردیتی ہے ۔ اس وقت جو انداز حکمرانی ہے وہ ملک کو تباہی اور بربادی کی طرف لے جارہا ہے کسی وقت خانہ جنگی بھی شروع ہوسکتی ہے ۔ ہمارے ملک کے موجودہ سیاسی و معاشی حالات اس نہج پر آگئے ہیں جہاں مکالمہ ہوتا نظر نہیں آرہا ہے جبکہ بڑے سے بڑا مسئلہ ہمیشہ مکالمہ سے ہی حل ہوتا ہے ۔ ظلم و جبر اور انتقام کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتے ، اس سے ہمیشہ معاشرے میں انارکی اور نفرت جنم لیتی ہے ۔ جادو کی چھڑی تو کسی حکمراں کے پاس نہیں۔ آج کے گلوبلائزیشن کے دور میں تنہا کوئی ریاست اپنے مسائل حل نہیں کرسکتی، آئی ایم ایف اور ایسے دوسرے اداروں کی مدد حاصل کرنا پڑتی ہے ۔ لیکن کلی طور پر ان کا محتاج نہیں ہونا چاہئے ۔آئی ایم ایف سے معاہدہ تو جاری رکھنا ہوگا، اس کی شرائط بھی تسلیم کرنا ہوں گی، اس کے نتیجے میں ہی ہمارے دوست ممالک چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات وغیرہ ہماری مدد کرسکیں گے ۔ لیکن آئی ایم ایف کی شرائط کا بوجھ غریب عوام پر براہ راست منتقل کرنا سراسر ظلم ہے ۔ہمارے اقتصادی ماہرین متبادل راستے تجویز کرسکتے ہیں۔ خرچ کرنے کے ہمارے انداز شاہی ہیں، ہمیں وفاقی صوبائی کابینہ کو مختصر کرنا ہوگا۔ آج ہمارے حکمراں تو آسان راستہ یہی خیال کررہے ہیں کہ آئی ایم ایف جتنا بوجھ دیتی ہے وہ براہ راست غریب عوام پر ڈال دیں، خود کوئی احتیاط کریں نہ کفایت شعاری اپنائیں۔ آئی ایم ایف نے بجا طور پر بیورو کریسی کے اثاثے ظاہر کرنے پر زور دیا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کو بدترین معاشی حالات سے نکالنے اور بہتری کی طرف لانے کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے متفقہ طور پر ایک متفقہ لائحہ عمل طے کیا جائے، جس کے نتیجے میں ایک غیرجانبدار، محب وطن معاشی اور قانونی ماہرین پر مشتمل نگران انتظامی ڈھانچہ تشکیل پائے ، اور اس قابل قبول نگران حکومت کی مدت محدود ہو اور اس کی تشکیل کے وقت ہی اگلے عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان بھی کر دیا جائے جو بالکل شفاف اورمنصفانہ ہوں۔ جو جماعت اس سے اتفاق نہ کرے، اس کو عدالت عظمیٰ پاکستان کے ذریعے ہمیشہ کیلئے کالعدم قرار دیا جائے۔ اس سے ایک طرف تو ہم بحران سے نکل سکیں گے، جبکہ دوسری طرف حقیقی جمہوریت کی بدولت حکمرانوں پر عوام کا اعتماد بھی بحال ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri