کالم

سوڈان سے نہیں جاپان سے سیکھیں

پاکستان کی سرزمین دنیا کا وہ خطہ ہے جہاں قدرت نے سونا اگلنےوالے پہاڑ سمندر دریا۔چار کے بجائے پانچ موسم میدانی صحرا زمین دے رکھی ہے۔ہر وہ نعمت عطا کر رکھی ہے جو دنیا کے بہت کم ممالک کونصیب ہے۔ دنیا کا سب سے پہلااسلامی ایٹمی ملک پاکستان کہلاتا ہے۔یہ واحداسلامی ملک ہے جہاں اسلام نہیں ہے ۔ یہاں ہر کام دونمبر ہر چییز دو نمبر ۔ حتکہ کہ انصاف کا نظام دو نمبر ادارے دو نمبر سیاست اور سیاسی لیڈر دو نمبر ۔ جس کی وجہ سے یہ ملک سوڈان روانڈا جیسے ملک بنتا جا رہا ہے ۔اس ملک کو چلانے والے غیر ملکی ۔ادارے ان کے سہولت کار بن چکے ہیں ۔ اسلام اور ضمیر نام کی کو چیز نہیں ۔سب پیسے کے پچاری ہیں ۔سیاست کی باگ ڈور غیروں کے پاس ہے ۔اس وقت انڈین یہودی لاپی ملکی سیاست میں ان ہے اور کام کر رہی ہیں۔اب سیاست انڈسٹری بن چکی ہے ۔ ایشو پر بات نہیں کرتے ۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس پر نظام چل رہا ہے۔راحت اندوری نے سیاست کا نقشہ کچھ یوں پیش کیا ہے۔
جدھر سے گزرو دھواں بچھا دو
جہاں بھی پہنچوں دھمال کر دو
تمہیں سیاست نے حق دیا ہے
کہ ہری زمینوں کو لال کر دو
اپیل بھی تم دلیل بھی تم
گواہ بھی تم وکیل بھی تم
جسے بھی چاہو ذ لیل کردو
جسے بھی چاو حلال کر دو
ان حالات میں ہم سوڈان کی طرف کیوں دیکھیں جاپان کی طرف کیوں نہ دیکھیں جہاں امن ہے جہاں اسلام جیسا نظام ہے۔جاپان میں جو کچھ ہے اسی پر عمل کر لیں تو حالات ہمارے بھی بدل سکتے ہیں ۔مجھے خود جاپان جانے کا اتفاق تو نہیں ہوا مگر جانے کی خواہش ضرور ہے۔ اپنے پاکستانیوں کی زبانی کچھ واقعات پیش خدمت ہیں۔ایک پاکستانی کہتا ہے میں جاپانی لوگوں سے متاثر تھا لہزا میں نےجاپانی لڑکی سے شادی کا فیصلہ کیا ۔اپنے ساتھ کام کرنے والی جاپانی سے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا تم مجھے پسند ہو میں تم سے شادی کرنا چاتا ہوں۔ اس نے رضامندی کااظہار کیا کہا کل میں تجھے اپنی فیملی سے ملانے کی دعوت دونگی پھر اس نے مجھے شام کو ایک ریسٹورینٹ میں کھانے کی دعوت پر بلایا۔ میں ان سے ملنے ریسٹورنٹ پہنچا۔سب نے گرم جوشی سے مجھے ویلکم کیا ہم سب ایک ٹیبل پر۔اکھٹے بیٹھے تھے ۔اس دوران مجھے چھینک آ گ ۔میں نے جیب سے رومال نکال کر اچھی طرح ناک صاف کی پھر حسب عادت رومال کی طے کی اور واپس جیب میں رکھ لیا میری اس حرکت کو سب نے برا منایا جس کا مجھے اس کا اندازہ نہ تھا ۔میں نے اپنی ہونے والی منگیتر سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ تم نے رومال سے ناک صاف کی اور پھر اسے جیب میں ڈال لیا۔ تم نے سامنے رکھے ہوے ٹیشو پیپرز کا استعمال نہیں کیا جس پر سب نے برا منایا ہے اور سوری کہہ دیا ہے کہ جس کو یہ شعور نہیں کہ اس میں فلو کے جراثیم ہو سکتے ہیں اور تم نے اس کی پرواہ نہیں کی اور اسے جیب میں رکھ لیا اس پر میں نے رومال جیب سے نکال کر سب کے سامنے ڈسٹ پن میں بڑے بوجھل دل سے پھینک دیا ۔ مگر اب دیر ہو چکی تھی. اب نہ میں جواب وہ دے چکے تھے ۔ اب مجھے افسوس رشتہ ٹوٹنے کا نہ تھا اس رومال کا تھا جسے پھینک چکا تھا یہ رومال مجھےمیری بہن نے اپنے ہاتھوں سے بنا کر مجھےتحفے میں دیا تھا۔۔رومال تو ہم رکھتے ہی ناک صاف کرنے کے لئے ہیں۔لیکن اپنی اس عادت کی وجہ سے جاپانی سے شادی کرنے میں ناکام رہا ۔اب دوسرا واقع ایک نوجوان پاکستانی پہلی بار جاپان گیا ۔ اس نے 5 سٹار ہوٹل میں قیام کیا۔ ہوٹل کے سوئمنگ پول میں اترا ۔بتایا کہ تب میرے علاوہ وہاں کوئی نہیں تھا،۔مجھے پی آیا۔ باہر واش روم میں جانے کے بجائے میں نے سوئمنگ پول میں ہی پی کر دیا ایسا میں اکثر پاکستان میں کر دیا کرتا تھا مگر یہاں کسی کیمیکل کی وجہ سے چند لمحوں میں پورے سوئمنگ پول کے پانی کا رنگ بدل گیا ۔ سکیورٹی پر معمور افراد فوری پہنچ گئے اور مجھے سوئمنگ پول سے باہر نکالا، میری نظروں کے سامنے عملہ آیا اور سوئمنگ پول کے پانی کو تبدیل کر دیا -مجھے ہوٹل کے ریسیپشن میں لے جایا گیا میرا پاسپورٹ اور سامان مجھے پکڑا دیا اور ہوٹل سے مجھے باہر نکال دیا – اب میں شہر کے جس بھی 5 سٹار ہوٹل میں جاتا ریسیپشن پر بیٹھا عملہ میرا پاسپورٹ دیکھ کر کہتا تم وہی ہو جس نے سوئمنگ پول میں پی کیا تھا ۔مجھے کسی فائف سٹار ہوٹل میں ٹھہرنے نہ دیا گیا ، میں اپنے سفارت خانے گیا انہیں اپنی ساری کہانی سنا دی، سفارت خانے سے یہ راہنمائی ملی کہ ایسا ہوٹل تلاش کریں جہاں سوئمنگ پول نہ ہو ۔میں جب جاپان چھوڑنے کیلئے ائیرپورٹ امیگریشن پہنچا میرے پاسپورٹ پر مہر لگاتے ہوئے آفیسر نے کہہ دیا امید ہے آپ کو اچھا سبق ملا ہوگا – مجھے یوں لگا جیسے تین دنوں میں پورا جاپان مجھے جان چکا تھا کہ میں ہی تھا جس نے سوئمنگ پول میں پیشاب کیا تھا، اس واقع کو عرصہ بیت گیا آج بھی کوئی جاپانی مجھے نظر آتا ہے تو لگتا ہے اسے بھی پتہ ہوگا کہ میں وہی ہوں۔ اب میں سمجھا ہوں کہ ایسا میری تربیت کے فقدان کی وجہ سے ہوا ۔ ۔میرے دوست ایڈووکیٹ مرزا عبدللہ بیگ نے کچھ عرصہ جاپان میں گزارا تھا اپ اکثر جاپانیوں کی اچھی باتوں کا ہم سے ذکر کرتے رہتے ہیں ۔بتایا جاپان دنیا کی عالمی طاقتوں میں سے ایک ملک ہے۔ ایک زمانے میں جاپانی دنیا بھر کی تجارت پر اس طرح چھا گئے تھے کہ کہا جاتا تھا کہ امریکی صدر کے الارم کلاک کے نیچے بھی میڈ ان جاپان کی مہر لگی تھی۔کہا جاپانیوں کو ترقی یافتہ ان کی کچھ عادات نے بنایا۔ جاپان میں پہلی جماعت سے چھٹی جماعت تک بچوں کو اخلاقیات کا مضمون پڑھایا جاتا ہے جس میں انہیں روزمرہ کے معاملات اور لوگوں کے ساتھ برتا کی اخلاقیات کے بارے میں سمجھایا اور بتایا جاتا ہے۔ وہاں پہلی سے تیسری جماعت تک کے بچوں کو فیل کرنے کا کوئی تصور نہیں ہے۔ جاپان میں تصور یہ کیا جاتا ہے کہ ان چھوٹے بچوں کی تعلیم کا مقصد ان کی تربیت اور ان کی شخصیت کی تعمیر ہے، ان کو تلقین کرنا اور روایتی تعلیم دینا نہیں۔جاپانی دنیا کی امیر ترین قوموں میں شمار ہوتے ہیں مگر ان کے گھر میں کام کاج کےلئے نوکروں کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا ۔ گھر میں رہنے والے تمام افراد گھر کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ کہا جاپانی بچے روزانہ اپنے اساتذہ کے ساتھ مل کر اپنے اسکول کی جھاڑ پونچھ اور صفائی ستھرائی کرتے ہیں۔ اس مشق کا مقصد انہیں اخلاقی اور عملی طور پر صفائی پسند بنانا ہوتا ہے۔جاپان میں ہر بچہ اپنا دانت صاف کرنے والا برش بھی اسکول ساتھ لے کر جاتا ہے۔ اسکول میں کھانے پینے کے بعد ان سے دانت صاف کروائے جاتے ہیں تاکہ وہ بچپن ہی سے اپنی صحت کا خیال رکھنے والا بنیں۔ جاپان کے اسکولوں میں جگہ جگہ واش بیسن لگے ہوتے ہیں تاکہ بچے کھیلنے کے بعد اپنے آپ کو فورا صاف کرسکی۔اسکولوں میں اساتذہ اور منتظمین کھانے کا معیار جانچنے اور بچوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کےلئے طلبا سے آدھا گھنٹہ پہلے کھانا کھاتے ہیں۔جاپان میں گاڑیوں، ریستوران میں موبائل استعمال نہیں کیا جاتا۔ اگر آپ کسی کھلی دعوت یا بوفے پر جائیں تو وہاں پر بھی یہی دیکھیں گے کہ لوگ اپنی پلیٹوں میں ضرورت کے مطابق کھانا ڈالتے ہیں۔ پلیٹوں میں کھانا بچا چھوڑنا جاپانیوں کی عادت نہیں ہے۔جاپان میں سال بھر گاڑیوں کی اوسط تاخیر 7 سیکنڈ تک ہوتی ہے۔ جاپانی وقت کے قدر دان لوگ ہیں اور منٹوں سیکنڈوں کی بھی قیمت جانتے ہیں ۔ جاپان میں کسی ٹرین یا بس میں سفر کے دوران کوئی معذور، بوڑھا یا حاملہ خاتون ٹرین میں داخل ہو تو ان کے لیے فورا جگہ چھوڑ دی جاتی ہے۔یہ ہے چند خوبیاں جھنیں ہمیں بھی اپنانے کی ضرورت ہے ۔یہ تمام خوبیاں اسلام کا ہی حصہ ہیں مگر ہم ان پر عمل کرنا گناہ سمجھتے ہیں ۔توہین رسالت پر مر مٹتے ہیں مگر ان کی بتائی گئی باتوں پر عمل نہیں کرتے ۔غیروں نے ہمارے اسلام سے سیکھا ہے یہی وجہ ہے اسلام وہاں دکھا دیتا ہے ۔ہم نہ قانون سے ڈرتے ہیں اور نہ خدا سے ۔اب تو شیطان بھی ہم سے پناہ مانگتا ہوا دکھا دیتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri