اداریہ کالم

سپہ سالار کا دورہ سوات

وزیر اعظم کی عمران خان پر کڑی تنقید

افواج پاکستان کے سپہ سالار اور اس عظیم ادارے میں اس مصیبت کے وقت میں سیلاب سے متاثر ہونے والی قوم کو تنہا نہیں چھوڑا بلکہ انہیں اس پریشانی کے عالم میں ہر لمحہ اپنی موجودگی کا احساس دلایا تھا اور اس نازک لمحے میں اپنے پانچ اعلیٰ ترین افسران کی جانی قربانی دیکر یہ ثابت کردیا کہ ملک و ملت کیلئے یہ ادارہ اپنا سب کچھ نچھاور کردینے کیلئے ہمہ وقت تیار رہتا ہے ، گزشتہ روز سپہ سالار نے سیلاب سے متاثر ہ علاقے سوات کا دورہ کیا اور وہاں جاکر کی جانے والی امدادی سرگرمیوں کا خود چشم دید جائزہ لیا ، اس موقع پر انہوں نے متاثرین سیلاب کی ریسکیو پر مامور اہلکاروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے سیلاب سے متاثرہ افراد کی دل جوئی بھی کی اور انہیں یقین دلایا کہ آزمائش کی اس گھڑی میں افواج پاکستان ان کے ساتھ ہے اور کسی بھی لمحہ انہیں تنہا نہیں چھوڑے گی ، ہمیں افواج پاکستان پر فخر ہے ، یہی ادارہ قوم کا محافظ بھی ہے ، محسن بھی اور مدد گار بھی ، جو دکھ اور آزمائش کی ہر گھڑی میں سب سے پہلے رضاکارانہ طور پر آگے آتا ہے اور اپنی خدمات قوم کو پیش کردیتا ہے ، پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بابر افتخار کی طرف سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر بتایا گیا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سوات کے سیلاب دہ علاقوں کا دورہ کیا۔ سپہ سالار نے آرمی ایوی ایشن کے ہیلی کاپٹروں کے ذریعے کمراٹ، کالام سے ریسکیو کیے جانے والے بچوں، خواتین، بزرگوں اور دیگر لوگوں سے ملاقات کی۔آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ریسکیو کیے لوگوں کے ساتھ وقت گزارا، تمام لوگوں نے پاک فوج کا شکریہ ادا کیا۔شہریوں کا کہنا تھا کہ جب پاک فوج کی سب سے زیادہ ضرورت تھی تو وہ ہمیں ریسکیو کرنے کے لیے پہنچ گئے، ریسکیو کیے جانے کے بعد ہمارے گھر والوں نے اطمینان کا اظہار کیا۔آرمی چیف نے سوات، کالام، بحرین، خوازہ خیلہ ، مٹہ سمیت مختلف مقامات پر پاک فوج کی امدادی کارروائیوں کی خود فضائی نگرانی کی۔جنرل قمر جاوید باجوہ نے آفت کے دوران موثر اور بروقت جواب دینے اور قیمتی جانیں بچانے پر پشاور کور کو سراہا۔آرمی چیف نے کانجو کینٹ ہیلی پیڈ پر میڈیا کے نمائندوں سے بھی مختصر گفتگوکی اور کہاکہ ابھی بہت جلد ہو گا کہ ہم اندازے لگائیں کہ کتنا نقصان ہوا ہے، صوبائی حکومت اور ڈسٹرکٹ مینجمنٹ کے ساتھ مل کر پاک فوج بھی تخمینہ لگائے گی۔ کالام سمیت دیگر جگہوں پر بہت نقصان ہوا ہے، ہوٹلز بہت زیادہ تباہ ہوئے ہیں۔ سب سے زیادہ پریشان کن بات ہے 2010 میں جو سیلاب آیا تھا اسی قسم کے ہوٹلز برباد ہوئے تھے، جنہوں نے دوبارہ اسی جگہ پر ہوٹل بنانے کی اجازت دی ہے ان کے خلاف ایسا ایکشن ہونا چاہیے تاکہ آئندہ ایسے واقعات نہ ہوں۔جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا تھا کہ سب سے اہم کام ہم نے کالام تک روڈ کھول دیئے ہیں، کچھ لوگ کہہ رہے تھے کہ پندرہ دن لگ جائیں گے مجھے امید ہے ہم چھ سے سات دن میں روڈ کھول لیں گے۔ وہاں پر جو لوگ پھنسے ہوئے ہیں، ان تک راشن پہنچا رہے ہیں، ان میں خواتین، بزرگ، بچے شامل ہیں ۔ابھی وہاں پر بحرانی صورتحال نہیں ہے۔ بحرانی صورتحال اس وقت ہو گی جب ہم سڑک کھولنے میں ناکام ہوئے۔ تمام روڈ ہم جلد کھول لیں گے۔ آگے سردیاں آنے والی ہیں وہاں پر مقیم لوگوں نے سردیوں کے لیے اپنا بندوبست کرنا ہوتا ہے۔ تمام کنسٹرکشن کرنے اور تخمینہ لگانے میں وقت لگے گا۔ سیلاب زدگان کی مدد کے لیے عالمی برادری سے بہت اچھا رسپانس مل رہا ہے، جب بھی ملک پر مصیبت آتی ہے تو قوم فورا مدد کے لیے آ کر لبیک کہتی ہے۔ ملک بھر میں فلاحی ادارے، مختلف سیاسی جماعتیں ، نیوی، آرمی ، وفاقی اور صوبائی حکومتیں نے اپنے اپنے سنٹرز کھولے ہوئے ہیں۔ حکومت نے این سی او سی کی طرح ایک ہیڈ کوارٹر بنا دیا ہے۔ تمام امداد کا ڈیٹا وہاں اکٹھا ہو گا۔ اور وہاں سے جو ہمارے پلاننگ کے وزیر ہیں وہ مختلف مقامات پر امداد پہنچائیں گے تاکہ ریکوائرمنٹ کے مطابق وہاں امداد پہنچے، عوام کا ریسپانس بہت اچھا مل رہا ہے، خبریں مل رہی ہیں ٹنوں کے حساب سے راشن اکٹھا ہو رہا ہے۔ اس وقت راشن کا اتنا مسئلہ نہیں ہے، ٹینٹوں کا مسئلہ اس وقت بہت زیادہ ہے، اس وقت ملک میں اتنے ٹینٹ دستیاب نہیں ہیں جتنے درکار ہیں، اسی لیے ہم باہر سے بھی ٹینٹ منگوانے کی کوشش کر رہے ہیں۔پاک فوج اپنے سٹور سے بھی سامان مہیا کر رہی ہے، خیبرپختونخوا کے بجائے بلوچستان اور سندھ میں بہت زیادہ مسائل ہیں،وہاں پر ٹینٹوں کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ دوست ممالک کی طرف سے امداد ملنا شروع ہو گئی ہے، ترکیہ، چین، متحدہ عرب امارات، قطر سمیت باقی ملکوں سے بھی امداد آنا شروع ہو گئی ہے جلد پیسے بھی آنا شروع ہو جائینگے۔ تمام دوست ممالک نے کبھی بھی مصیبت میں پاکستان کو اکیلا چھوڑا نہ آئندہ چھوڑیں گے۔ اوورسیز پاکستانی نے بہت زیادہ اچھا رسپانس دیا ہے اور بہت زیادہ امداد آ رہی ہے، ریلیف اور ریسکیو آپریشن جلد مکمل کر لیں گے، لیکن بحالی میں وقت لگے گا، 2005 میں آنے والے زلزلہ سے بڑا سانحہ نہیں ہے، پھر بھی ہمیں سندھ ا ور بلوچستان میں ہمیں گھر بنا کر دینا پڑیں گے، اس کے لیے وقت لگے گا ، جہاں مسائل ہوں وہاں پر مواقع ہوتے ہیں، اس بار حکومت اچھا پلان کر رہی ہے عوام کو پکے گھر بنا کر دیں گے۔ قانون کی خلاف ورزی کر کے دریاﺅں کے کنارے ہوٹلز بنانے والوں کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے۔پاکستانی قوم کا ایک کلچر بن چکا ہے کہ ہم لوگ سڑکوں کے کنارے اور دریاو¿ں کے کنارے قبضہ کرکے تعمیرات کرلیتے ہیں ، اس قبضہ میں کچھ سرکاری اداروں کے بددیانت اہلکار بھی ساری ملی بھگت میں شامل ہوتے ہیں ، جن کی آشیر باد سے یہ سارا کام ممکن ہوتا ہے ، ان کیخلاف سپہ سالار کی آبزرویشن لمحہ فکریہ ہے ، صوبائی حکومتوں کو ان کے خلاف سخت ترین کارروائی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں ایسا کوئی واقعہ پیش نہ آئے۔
سیلاب کے بعد مصنوعی مہنگائی ، اداروں کیلئے سوالیہ نشان
پاکستانی قوم کا شمار مسلم دنیا میں ان اقوام میں کیا جاتا ہے جو سال میں سب سے زیادہ عمرے کرتی ہیں ، صدقہ و خیرات میں سب سے آگے آگے ہوتی ہے مگر موقع پاتے ہی عوام کا گلہ کاٹنے میں بھی کسی سے پیچھے نہیں رہتی ، حالیہ سیلاب کے بعد پھلوں ، سبزیوں کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے نے ہمار ی قلعی کھول کر رکھ دی ہے ، ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود نہ تو سبزیاں پوری ہورہی ہیں اور نہ ہی پھل ، چنانچہ تاجروں نے اس موقع پر غنیمت جانتے ہوئے من مانے ریٹ وصول کرنا شروع کردیئے جس سے مصنوعی مہنگائی کا سماں پیدا ہوچکا ہے ،ملک کے چاروں صوبوں میں تباہ کن سیلاب کے بعد مہنگائی کے سیلاب نے عوام کو چاروں اطراف سے گھیر لیا۔ مارکیٹ کمیٹی نے پھلوں اور سبزیوں کو اے ،بی اور سی کے3درجات میں تقسیم کر کے معیار کے اعتبار سے3الگ الگ قیمتیں مقرر کردیں جبکہ پرچون فروشوں نے سی کلاس کے لئے اے کلاس کی قیمتیں مقرر کر کے عوام کو لوٹنا شروع کر دیاجبکہ عام شہریوں کا کہنا ہے کہ گرانفروشی کے خلاف کاروائیاں مضافاتی دیہی علاقوں تک محدود رکھنے کے ساتھ بند کمروں میں اجلاسوں اور فوٹو سیشن تک محدود ضلعی انتظامیہ ، کنزیومر کونسل اورمارکیٹ کمیٹی اپنے ہی جاری کردہ نرخوں پر عملدرآمد میں مکمل طور پر ناکام ہو گئی۔پھلوں اور سبزیوں سمیت تمام اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے سے عام آدمی کی قوت خرید جواب دے گئی۔ اس وقت موجودہ سیلابی صورتحال کو جواز بنا کر ٹماٹر280سے300روپے کلو ،آلو80سے100روپے کلو 300روپے کلو ،ادرک 800روپے کلو،، لہسن 450سے500روپے کلو تک فروخت ہورہی ہے ،ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ قیمتیں برقرار رہتی مگر مارکیٹ کمیٹیوں کی ملی بھگت سے من مانے ریٹ مقرر کردیئے گئے ہیں ، گراں فروشوں کیخلاف سخت کارروائی کی ضرورت ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri