کالم

سیاست کا حمام

پاکستان کا جمہوری نظام جہاں عوام کو کوئی ریلیف دینے میں بری طرح ناکام رہا ہے وہاں اس نظام کے تحت اخلاقی اور جمہوری اقدار کا بھی جنازہ نکل گیا ہے۔لعن طعن اور الزام تراشی و بہتان تراشی کے باعث ایک عام آدمی کا جمہوریت سے ہی اعتبار اٹھ چکا ہے،اس کی بنیادی وجہ ہمارے سیاستدانوں کے کردار ہیں جو ہاتھی کے دانتوں کی طرح کھانے کے اور دکھانے کے اور ہوتے ہیں۔پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر نظر دوڑائی جائے تو قائدین تحریک پاکستان اور بانی پاکستان محمد علی جناح کی رحلت کے بعدسیاست کا منہ کالا ہی دکھائی دیتا ہے، جمہوری کھیل تماشہ ہو یا پھر ڈکٹیٹر شپ کی فسوں کاری ہو ،رنگین داستانوں سے بھری پڑی ہے۔کیا کیا قصہ کہانیاں ہیں جو منظر عام نہیں آتی رہیں ہیں،یہ محض زبانی الزام تراشی تک نہیں بلکہ کئی کتب اس کی گواہی دے رہی ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اب تک کسی نے ماضی کے واقعات سے عبرت نہیںپکڑی ہے ۔ماضی میں تو ان واقعات کی گونج سینہ بہ سینہ سنائی دیتی تھی، تب آج کے جدید رسل رسائل نہ تھے مگر آج تو جدید ٹیکنالوجی نے سب کچھ ہی بدل ڈالا ہے،نہ چھپنے کی جگہ نہ بچنے کی کوئی جگہ،وہ جو کہا کرتے تھے کہ دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں،بات اس سے بھی آگے نکل گئی ہے، اب صرف کان ہی نہیں بلکہ ہائی ریزولیشن آنکھیں بھی لگ گئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب پاکستان کے جمہوری تماشے میں رنگین داستانوں کا افشاءبھی تواتر سے ہونے لگا ہے،انسان خطا کا پتلا ہے اس میں کوئی شک نہیں لیکن یہ بات عام آدمی تک تو ٹھیک ہے لیکن جن کے ہاتھ میں قوم کی باگ ڈور ہو،ان سے منسوب رنگین افسانے پوری قوم کا سر جھکا دیتے ہیں۔پھر یہ اخلاقی زوال پذیری محض ایک فرد تک محدود نہیں رہتی بلکہ پوری قوم کو لے ڈوبتی ہے۔پاکستان میں آج کل سیاست دانوں کی آڈیو لیکس کا ایک خطرناک سلسلہ چل پڑا ہے اور اس میں خصوصاً ایک ایسے وقت میں مزید تیزی آگئی ہے جب پہلے ہی سیاست بہتان تراشیوں اور فحش گوئی کی زد میں ہے۔ابھی چند روز قبل سابق وزیراعظم عمران خان کی خواتین کے ساتھ مبینہ گفتگو پر مبنی آڈیوز جاری کی گئی ہیں ،اگرچہ مذکورہ خواتین نے ان آڈیوز کو مسترد کر دیا ہے تاہم آڈیوز کی گفتگو نے ماحول کو مزید پراگندہ کر دیا ہے۔یہ معاملہ صرف عمران خان تک موقوف نہیں ہے ، نواز شریف،یوسف رضاگیلانی وغیرہ کے معاشقوں پر تو کتب موجود ہیں،اس سے آگے دیکھیں تو سابق گورنر سندھ محمد زبیر کی ایک مبینہ ویڈیو،اسی طرح نون لیگ ہی کے رہنما پرویز رشید کی مبینہ ویڈیو اور مریم بی بی کی کئی آڈیوز ،سن اور جان کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ آخر ہماری سیاسی قیادت گراوٹ کی کس حد کو چھونا چاہتی ہے۔ایک عام آدمی سوچتا ہے کہ اگر ان لیکس میں سچائی ہے تو پھر اس قوم کا مستقبل کیا ہو گا،وہ نئی نسل جو اِن کو آئیڈیلائز کرتی ہے ان پراس کے کتنے گہرے اور منفی اثرات پڑیں گے۔ عمران خان پاکستان کی سیاست کا ایک بڑا اور اہم کردار ہیں۔ان کے چاہنے والوں کی تعداد لاکھوں میں نہیں کروڑوں میں ہے، انھوں نے سیاست میں آنے کے بعد ایک اعلیٰ اخلاقی میعار قائم کرنے کے بڑے بڑے دعوے کئے،لیکن جو کچھ اب منظر لایا جا رہا ہے،اس کے بھیانک نتائج سامنے آسکتے ہیں،ان کی ساکھ کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔جو طرز سیاست اور لہجہ انہوں اختیار کیا ہے وہ انھیں کامیاب کرے یا نہ کرے بند گلی کی طرف لے جائے گا۔عمران خان کی اب تک کی طرز سیاست اپنے نتائج کے اعتبار سے گزشتہ حکمرانوں کا ہی ایک تسلسل ہے اسلئے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ مسئلہ شخصیات میں نہیں، رائج نظام میں ہے جو ملک کی ترقی کی راہ میں اصل رکاوٹ ہے۔انسانوں کی اصل پہچان اور قدر و منزلت کا پیمانہ ان کی اخلاقی قدریں اور عادات و اطوار ہوتے ہیں۔ کسی مجلس میں ایک اجنبی شخص آکر بیٹھ جائے تواس کی شناخت کا تجسس ایک فطری عمل ہے۔ اس کی گفتگو اور لب و لہجہ سے ہی اسکی شخصیت کے پہلو اجاگر ہوتے ہیں اور ہمارے ذہن کی پلیٹ پر اس کی شخصیت کا ایک نقش ثبت ہو جاتا ہے۔مذہب ہو، سیاست ہو، معاشرت ہو کہ ثقافت اخلاقی قدریں ہرجگہ اہمیت رکھتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اسلام میں اخلاقی اقدار کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ایمانیات، عبادات اور معاملات کیساتھ ساتھ اخلاقیات بھی ہمارے دین کا اہم اور بنیادی حصہ ہیں۔نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مجھے تو بھیجا ہی اس لیے گیا ہے کہ اچھے اخلاق کی تکمیل کرسکوں۔ وطن عزیز پاکستان کی تخلیق ہی اسلام سے منسوب ہے۔ ہمیں اپنے سیاسی کلچر میں اسلامی اخلاقیات کو فروغ دینا چاہئے تھا ۔ایک دوسرے کی عزت و آبرو کی حفاظت ہمارا قومی شعار ہونا چاہیے تھا۔ انفرادی طور پر بہت سے پارسا لوگ اور شریف النفس گھرانے موجود ہیں لیکن اس کڑوے سچ کو ہمیں ماننا چاہیے کہ بد قسمتی سے بحیثیت مجموعی ایسا معاشرہ تشکیل پاسکا اور نہ ہی ا یسا ماحول بن سکا جہاں ان قدروں کی حفاظت کی پاسداری کا اہم فریضہ بجا لایا جاتا۔اخلاقی فیصلے سیاسی نظریات سے چلتے ہیں،نہ کہ تسبیح رولنے سے، تاہم ہمیں اس حقیقت کو نہیں بھولنا چاہے کہ فیصلے کا بہترین ذریعہ انسان کے عمل سے ہونا چاہئے۔ آج کل کسی بھی سیاسی مسئلے کے بارے میں گفتگو سنیں تو یہ تاثر ابھرتا ہے کہ کسی کو دوسروں پر اخلاقیات نافذ کرنے کا کوئی حق نہیں۔ کیا یہ ستم ظرفی نہیں کہ معاشرے کا ایک طبقہ یہ کہتا رہے کہ کوئی چیز غیر اخلاقی ہے اور دوسرا فریق یہ دعوی کرے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اخلاقیات کے نفاذ کےلئے مختلف تاویلیں بھی شرم ناک ہیں کہ اخلاقی پس ماندگی کا مقابلہ بھی اخلاقی انحطاط پذیری سے کیا جائے۔ ، ریاست کا کردار کھیل کے قوانین کو نافذ کرنا ہے، اسے کسی ایک کھلاڑی کے اہداف اور اقدار کی حمایت یا طرف داری نہیں کرنی چاہے بلکہ صرف اس بات کو یقینی بنانا چاہے کہ ہر کوئی قواعد پر عمل کرے۔
٭٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri