تاریخِ انسانیت میں اگر کوئی ایسی ہستی ہے جس کی زندگی کے ہر پہلو میں روشنی، توازن، حکمت اور رحمت یکجا نظر آئے تو وہ فقط حضرت محمد مصطفی ۖ کی ذاتِ اقدس ہے۔ سیرتِ مبارکہ محض چند واقعات کا مجموعہ نہیں بلکہ ایسا زندہ اور ہمہ گیر نصاب ہے جو انسان کو اس کے وجود کا مقصد بھی بتاتا ہے اور راستہ بھی دکھاتا ہے۔ نبی کریم ۖ کا اخلاق وہ آئینہ ہے جس میں ہر انسان اپنی کمیوں کو پہچان سکتا ہے۔ آپ ۖ نے فرمایا: میں اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں۔آپ کے قریب بیٹھنے والا خواہ دشمن ہی کیوں نہ ہو دل کی نرمی محسوس کیے بغیر نہیں رہتا تھا۔سیرت النبی ۖ ہمیں سکھاتی ہے کہ حق کا راستہ آسان نہیں ہوتا۔ مکہ کے طوفان ہوں یا مدینہ کے معرکے، رسول اللہ ۖ نے کبھی امید اور یقین کا دامن نہیں چھوڑا۔ آپ ۖ کے ہر قدم میں یہ پیغام پوشیدہ ہے کہ جو دل اللہ سے جڑ جائے، وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہیں ہوتا۔ آج کی بے سمتی اور انتشار میں بھی سیرتِ نبوی کوئی تاریخی یادگار نہیں بلکہ انسانیت کیلئے زندہ مشعلِ راہ ہے۔ اگر دنیا رحمت، انصاف، توازن اور ہمدردی چاہتی ہے تو اسوہ حسنہ کے بغیر کوئی راستہ نہیں۔سیرت النبی ۖ یہ بھی بتاتی ہے کہ بڑائی کی اصل پہچان طاقت نہیں، کردار ہے۔ ریاستِ مدینہ اسی کردار، رحمت اور عدل کی عملی تصویر تھی۔ یہ تاریخ کا وہ پہلا معاشرہ تھا جہاں قانون انسانیت کی خوشبو دیتا تھا؛ کمزور محفوظ تھا، مظلوم باوقار تھا، اور طاقتور جواب دہ۔ رسول اللہ ۖ نے قوم، رنگ، قبیلے یا مال کو معیار نہ بننے دیا؛ وہاں میرٹ، عدل اور انسانی وقار بنیادی اصول تھے۔ آپ ۖ نے کبھی بیت المال کی طرف رغبت نہ کی، نہ کسی حق دار کا حق روکا۔ اگر ضرورت سے زائد کوئی شے میسر آ جاتی تو اسے امانت سمجھ کر فورا ًغربا و مساکین میں تقسیم فرما دیتے تھے۔ سیرت کا سبق یہی ہے کہ معاشرہ تبھی امن کی طرف بڑھتا ہے جب عدل، قناعت اور رحم اس کی بنیاد ہوں۔نبی اکرم ۖ نے تمام غزوات میں کبھی جارحانہ پیش قدمی نہیں کی بلکہ ہمیشہ دفاع کیا۔ مگر جب انسانیت اور دینِ حق کی بقا کا سوال آیا تو آپ ۖ نے استقامت کے ساتھ جہاد کیا، جس کا مقصد ظلم کے مقابلے میں حق کا قیام تھا۔ اسوہ نبوی ۖ واضح کرتا ہے کہ قوت اور نرمی ایک دوسرے کی ضد نہیں؛ ان کا امتزاج ہی صالح معاشرہ بناتا ہے۔ آج کے نوجوان اگر آپ ۖ کی عفو، حلم، برداشت، انصاف اور قناعت کو اپنا لیں تو انتہا پسندی اور تشدد خود بخود ختم ہو سکتے ہیں۔رسولِ اکرم ۖ نے پوری حیاتِ طیبہ میں لالچ، طمع، انتقام یا ذاتی مفاد کو کبھی جگہ نہ دی۔ غلاموں کو آزاد کیا، محتاجوں کی دستگیری کی، اور دوسروں پر بوجھ بننے کے بجائے ہمیشہ خود محنت کی۔ ہمیں یہ سبق دیا کہ حقیقی عظمت خودداری اور خدمت میں ہے۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں: میں وہ شخص ہوں جس نے رسولِ خدا کے نقشِ قدم پر قدم رکھا اور آپ سے علم و حکمت کی پیاس بجھائی۔ آپ چراغِ ہدایت ہیں؛ جو پیروی کرے، وہ منزل پا لیتا ہے، اور جو منہ موڑ لے، وہ بھٹک جاتا ہے۔سیرتِ نبوی ۖ کا بنیادی پیغام یہی ہے کہ ہر انسان کی عزت محفوظ ہو، ہر حق دار کا حق ادا ہو، اور معاشرے میں عدل و رحم ساتھ ساتھ چلیں۔ جہاں عدل قائم ہو جائے وہاں انتہا پسندی دم توڑ دیتی ہے، اور جہاں رحم رواج پائے وہاں دل نرم ہو جاتے ہیں۔ رسول اللہ ۖ نے اپنے لیے کبھی ذخیرہ نہ رکھا، دوسروں کے لیے ہمیشہ دروازے کھلے رکھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ۖ کی سیرت آج بھی ہر دور کے اندھیروں کو چیرنے والی روشنی ہے۔اگر انسانیت واقعی امن، توازن اور خیر چاہتی ہے تو اسے اسی چراغِ نبوی سے روشنی لینا ہوگی۔ اخلاق، انصاف اور رحمت وہ بنیادیں ہیں جن پر پائیدار معاشرہ اور مضبوط ریاست ریاستِ مدینہ کی طرح قائم ہو سکتی ہے۔ جب یہ بنیادیں مضبوط ہوں تو معاشرہ امن، استحکام اور شکر گزاری کا گہوارہ بن جاتا ہے۔ یہی راستہ دنیا کو نئی صبح دکھا سکتا ہے، اور یہی وہ اسوہ ہے جس کے بغیر انسانیت کا سفر ادھورا ہے۔

