توانائی کے بحران کے خاتمے کیلئے ہم ان ہی صفحات پر کئی بار حکومت کو یہ مشورہ دے چکے ہیں کہ قیمتی زرمبادلہ بچانے کیلئے متبادل ذرائع اختیار کرے تاکہ قومی خزانے کو بچت ہوسکے ، خدا کا شکر ہے کہ صاحب اقتدار طبقے نے ہماری سفارشات کو لائق اعتماد سمجھا اور اس پر عملدرآمد کے احکامات بھی کئے ، سرکاری اداروں میں سولر پینل نصب کی جانے کی تجویز بھی روزنامہ پاکستان کی تھی جس پر باقاعدہ احکامات جاری کئے گئے ، اب ایک بار پھر وزیر اعظم پاکستان نے بجلی کی تیاری میں استعمال ہونے والے تیل کے بجائے شمسی توانائی سے بجلی تیار کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا ہے جو یقینا ملک و ملت کے مفاد میں ہے ، ہم ان سطور میں پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ اگر حکمران طبقے کی نیت ٹھیک ہے کہ بجلی کی تیاری کیلئے نہ صرف نئے آبی ذخائر بن سکتے ہیں بلکہ ہوا اور شمسی توانائی سے بھی بجلی تیار کی جاسکتی ہے مگر شاید اس میں کچھ مخصوص طبقات کو نقصان اٹھانا پڑے کیونکہ ان کے درآمد کردہ جنریٹر ، یو پی ایس ، بیٹریاں اور سولر پینل کے فروخت میں کمی آجائیگی مگر وزیر اعظم شہباز شریف کا تیل سے بجلی بنانے کی بجائے شمسی توانائی سے بجلی تیار کرنے کا منصوبہ ملک میں ایک نئی تاریخ رقم کرے گا۔ن لیگ کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی سے خطاب میں وزیراعظم شہباز شریف نے 300 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والوں کیلئے فیول سرچارج ختم کرنے کااعلان کیا۔ اس سے قبل 200 یونٹ تک استعمال کرنے والوں کیلئے فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز ختم کیے گئے تھے۔اپنے خطاب میں وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ جب ذمے داری سنبھالی تو صورت حال کا اندازہ تھا، سر منڈاتے ہی اولے پڑے، تیل کی قیمت 120 ڈالر سے اوپر چلی گئی، جانے والوں نے ہمارے لیے گڑھا کھود دیا تھا، نااہل حکومت نے ساڑھے3سال عوام کوایک دھیلے کاریلیف نہیں دیا، جب حکومت جانے کایقین ہوا تو مشورہ دیا کہ تیل کی قیمتیں کم کردیں، تیل کی قیمتیں کم کرکے گڑھا کھودا، عوام کومعاشی تباہی کے دہانے پر دھکیل دیا۔ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہم نے نہیں کیا تھا،ان کا معاہدہ تھا، آئی ایم ایف نے کہاکہ پچھلی حکومتوں کی شرائط پوری کریں، پھر بات کریں گے، 2018 اگست میں چینی 52 روپے فی کلو تھی، پی ٹی آئی حکومت میں چینی 100 روپے کلو سے تجاوز کرگئی۔ عمران خان سے بڑا جھوٹا،مکار، فریبی، دھوکے باز، پاکستان دشمن آج تک پیدا نہیں ہوا، آئی ایم ایف کامعاہدہ ہوگیا، ہمیں پیروں پر کھڑاہونےکاموقع مل گیا، کیا عمران کے جھوٹ، بدتمیزی، ملک دشمنی کو فالو کروں،کس بات پر فالو کروں؟ عمران خان نے توشہ خانہ کی گھڑیاں بیچ دیں، ملک تباہ وبرباد کر کے ہمارے حوالے کردیا۔ 2010کے سیلاب میں پورا جنوبی پنجاب دریائے سندھ لگ رہا تھا، ابھی جو سیلاب آیا ہے اس سے بڑا سیلاب زندگی میں نہیں دیکھا، ہر طرف پانی ہی پانی ہے، سب تباہ ہوگیا ہے، کھجور، گندم، کپاس تباہ ہوگئی ہے، گھر تباہ ہوگئے ہیں، جعفرآباد، نصیرآباد، قلعہ سیف اللہ جہاں جائیں پانی نے تباہی مچادی ہے، کالام ، مدین میں ہوٹل تباہ ہوگئے، دریاکے پیٹ میں ہوٹل بنانے کی اجازت دینے والوں کو قرار واقعی سزا ہونی چاہیے۔25 ہزار روپے سیلاب متاثرین کو دیے جارہے ہیں، اب تک 28 ارب روپے دیے جاچکے ہیں، دوست برادر ممالک نے فون کرکے مدد کی یقین دہانی کرائی، اب تو چھینک بھی مارنا ہو تو آئی ایم ایف سے پوچھنا ہوگا، آپ آزاد نہیں ہیں کہ فیصلے کرسکیں، فیول ایڈجسٹمنٹ پر بھی آئی ایم ایف سے پوچھنا پڑا کہ کہیں حقہ پانی بند نہ کردے، ہمیں اپنے پاں پرکھڑاہوناہے تویہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ہونا چاہیے۔یہ کسی باہر والے کا قصور نہیں، ہمارا قصور ہے، ہم نےدن رات اپنے پاں پر کلہاڑےچلائے، ریکوڈک کا خزانہ کھودنے کے بجائے اربوں ڈالر ضائع کر دیے، ریکوڈک کو دیکھ لیں ایک دھیلے کا تانبا نہیں نکلا، اربوں،کھربوں روپے کے جرمانے دینے پڑے، ابھی بھی ڈر لگ رہا ہے کہ جو معاہدہ ہوا ہے وہ ٹوٹ نہ جائے، اربوں ڈالر ہمارے ضائع ہوئے اور وقت بھی ضائع ہوا۔ وزیراعظم شہبازشریف نے کہا کہ دوست ممالک گیا، قطر گیا، سپہ سالار بھی ساتھ تھے، قطر نے کہا منصوبے لائیں ہم سرمایہ کاری کیلئے تیار ہیں، دوست ممالک نے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کا کہا، آپ سوتے رہے، جو اربوں ڈالر سرمایہ کاری کا کہہ رہے تھے ان کو آپ نے ٹھکرا دیا، آئی ایم ایف کے پروگرام کیلئے ناک سے لکیریں نکالی ہیں، پھونکوں، جادو ٹونے اورتعویز گنڈوں سے کام نہیں چلے گا۔10 ہزار میگاواٹ شمسی توانائی کے منصوبے کا آغاز کروں گا، کامیابی اللہ کے ہاتھ میں ہے، سستی بجلی پیدا ہوگی، سبسڈی نہیں دینا پڑے گی، تیل کی امپورٹ بچے گی۔انہوں نے کہا کہ مجھ پر چینی کی ایکسپورٹ کیلئے بہت پریشر تھا، میں نے اسٹاک چیک کیا، اسٹاک حوصلہ افزا نہیں تھا، جب تک یقین نہیں ہوگاکہ چینی ایکسپورٹ سے قیمت نہیں بڑھے گی،اجازت نہیں دوں گا، اگرچینی برآمد کی اجازت دےدیتا تو فی کلو 20 روپے چینی ملک میں مہنگی ہوجاتی۔سابق حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کرکے معیشت کو تباہ کیا، یہ حکومت پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کی نمائندہ حکومت ہے، سابق حکومت نے ڈالر کمانے کیلئے چینی برآمد کرنے کی اجازت دی سابق حکومت نے چینی برآمد کرنے کے ساتھ اس پر سبسڈی بھی دی، اس طرح سبسڈی سے پاکستان کے اربوں روپے سابق حکومت نے ہڑپ کیے۔وزیراعظم نے کہا کہ سابقہ حکومت نے پہلے گندم برآمد کی اور پھر درآمد کی، کورونا کے دوران ایل این جی کوڑیوں کے بھا بِک رہی تھی لیکن سابق حکومت نے نہیں خریدی، یوکرین کی جنگ چھڑی تو بحران پیدا ہوا اور ہمارے لیے گیس حاصل کرنا دشوار ہوگیا، ہم نے مہنگا ترین تیل خرید کر مہنگی ترین بجلی بنائی، ہم نے مہنگی ترین بجلی عام آدمی کو سستے داموں دی، ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر انہوں نے بھاشن دینے کے سوا کچھ نہیں کیا۔تیل سے بجلی تیار کرنے کو سعودی عرب جیسے ممالک بھی ترجیح نہیں دیتے جہاں دنیا کے بڑے بڑے ذخائر پائے جاتے ہیں ، ملک میں بجلی تیار کرنے کیلئے سب سے سستا طریقہ پن بجلی کا ہے کہ نئے آبی ذخائر بناکر انہیں آبپاشی کیلئے بھی استعمال کا جاسکتا ہے اور سستی ترین بجلی بھی تیار کی جاسکتی ہے گوکہ یہ منصوبے طویل المد ت ہو مگر جلد یا بدیر اس طرف آنا ہوگا ، فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے دور میں تربیلا ، منگلا ، خانپور ، راول ڈیم جیسے منصوبے مکمل کئے گئے جو آج بھی سود مند ثابت ہورہے ہیں ، اس لئے حکومت نے آبی ذخائر بنانے پر پوری توجہ دے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کا موثر خطاب
ایک پرانی کہاوت ہے کہ جس ملک کی عدالتیں جاگ رہی ہوں اور کام کررہی ہوں تو اس ملک کی ترقی کو کوئی نہیں روسکتا مگر بدقسمتی سے ہمارے ملک میں فوری انصاف کا ملنا ایک خواب نظر آتا ہے ، عدالتوں میں سائلین کے رش اور سالہا سال تک چلنے والے مقدمات کو دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے ہم آج بھی پتھر کے دور میں جی رہے ہیں شاید اس کی ایک وجہ ججز کی کمی کا بھی ہے کہ ایک جج روزانہ تقریباً سو سے زیادہ کیس سنتا ہے ، مقدمات کی زیادتی کی وجہ سے ایک انسان کیسے جلد انصاف مہیا کرسکتا ہے ، دیوانی مقدمات بیس بیس سال تک لٹکے رہتے ہیں جبکہ فوجداری مقدمات بھی کسی سے کم نہیں ، اسلام آباد ہائیکورٹ کے موجودہ چیف جسٹس نے بھی انصاف میں تاخیر کے حوالے سے کھل کر اظہار خیال کیا ہے وہ ایک بڑی مسند پر براجمان ہے اور ان کا کہا یقینا درست ہے کہ ہم بیسویں صدیں تو داخل ہوچکے ہیں لیکن اپنے قوانین کو تبدیل نہیں کرسکتے ، گزشتہ روز انصاف کی تیز تر فراہمی سے متعلق بین الااقوامی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ہم اکیسویں صدی میں داخل ہوچکے لیکن قوانین میں تبدیلی نہیں آسکی، آج بھی ہمارے کیسز غیر ضروری تاخیر کا شکار ہوتے ہیں، غیرضروری تاخیر سے عام سائلین کو مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ سائلین کی مشکلات کو دیکھتے ہوئے اصلاحات کی اشد ضرورت ہے، ضلعی عدالتیں 6 دہائیوں سے پراسیکیوشن برانچ کے بغیر کام کر رہی ہے، دارالحکومت میں ضلعی انتظامیہ کے پاس پراسیکیوشن برانچ نہیں ہے، گزشتہ ماہ ایک کیس کا فیصلہ دیا جو 1972میں دائر ہوا تھا، ریاست نے کبھی ڈسٹرکٹ جوڈیشری کو ترجیح نہیں دی۔ جوڈیشل سسٹم غیر معمولی تاخیر کا شکار ہے، ریاست کی ذمہ داری ہے تیز ترین انصاف کی فراہمی کے لیے اقدامات کرے، ہمارا سول اور کریمنل کورٹس سسٹم ایک صدی پرانا ہے، دنیا بدل گئی مگر ہمارے قوانین ابھی بھی وہی پرانے ہیں۔