کالم

شیخ افتخار احمد۔۔۔۔۔علم و ادب کا اک چراغ جو بجھ گیا

کچھ دوست ایسے ہوتے ہیں کہ جن سے آپ کا قلبی و روحانی تعلق ہوتا ہے اور وہ آپ کیلئے خاص ہوتے ہیں۔ آپ کے دکھ درد کے ساتھی، مسیحا ہوتے ہیں۔وہ ساری زندگی ہدایت اور سچائی کے راستے پر چلتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس راستے پر چلنے کی تلقین کرتے ہیں۔انسانیت کی بے لوث خدمت ان کا طرہ امتیاز ہوتی ہے۔ہر مقام پر کیسے سرخرو رہنا خوب جانتے تھے۔ممتاز ماہر تعلیم، معروف سکالر محترم شیخ افتخار احمد میرے لئے کچھ ایسے ہی تھے۔ ان کی میں نے جو سب سے بڑی خوبی دیکھی وہ یہ تھی کہ وہ ہر ایک کا بھلا چاہنے والے انتہائی مخلص انسان تھے۔یہ جب میرے حلقہ احباب میں آئے تو میں نے انہیں ایک شریف النفس انسان پایا۔ان کی ہر بات پُر اثر،جامع ہوتی تھی۔دوسرے کی بات کو انتہائی اطمینان سے سنتے تھے اورانتہائی باوقار اور مدلل جواب دیتے تھے کہ لاجواب کردیتے تھے۔میں نے اپنے صحافتی پیریڈ میں جب بھی کسی اہم موضوع پر ان سے رہنمائی چاہی تو انہوں نے میری بھر پور رہنمائی فرمائی، گویا اک الجھن تھی جو سلجھا دی۔ مجھے ان کی شخصیت کے متعلق بیان کرنے کیلئے اپنے پاس سے الفاظ نہیں ملتے،یہی کہوں گا کہ وہ نایاب تھے اور علم و عمل کے چراغ تھے۔ انہوں نے سعودی عرب میں 27سال شعبہ تدریس میں گزارے، علم کی شمعیں روشن کیں اور ایک جگ اس سے فیض یاب ہوا۔ انہوں نے مجھے ایک دو بارلاہورملنے کی دعوت دی مگر میں اپنی کسی نہ کسی نجی مصروفیت کی وجہ سے ان سے مل نہ سکا۔ایک بار کہتے ہیں کہ طارق بیٹا، آجا¶،محترم سعادت صدیقی صاحب کو بھی بلالیتے ہیں،گپ شپ بھی ہو جائے گی۔شیخ افتخارؒ صاحب ایک عظیم انسان تھے،ان کے جنازے پران کے دوست ابو عمیر صدیقی کو ملنے کے بعد پتہ چلا کہ وہ اپنے دوست بھی چنے ہوئے اور باکمال رکھتے تھے۔ان کے دیگردوست بھی انہی کی طرح بلند سوچ کے حامل اور باوقار انسان تھے۔میں اگر یہ کہوں کہ شیخ افتخار احمد ؒ ایک فرشتہ صفت انسان تھے جن کے دم سے انجمن میں بہار تھی تو یہ بے جا نہ ہوگا،جوبھی ان سے ملا ہوگا یقینااس نے یہ ضرورمحسوس کیا ہوگا،گو کہ میں انہیں ان کی زندگی میں چاہ کر بھی مل تو نہیں سکا جس کا مجھے ہمیشہ افسوس رہے گا مگر میں ان کے لئے دعا گو ہوں کہ اللہ انہیں جنت میں خوش رکھے۔انہیں جنت میں اعلیٰ مقام عطاءفرمائے۔ان کے درجات بلند کرے اور اپنی رحمتوں کے سائے میں جگہ دے۔ کہنے تو بہت کچھ ہے مگر ان کی رحلت پریہی کہوں گا کہ اک عہد تھا تمام ہوا۔اپنی زندگی کے آخری ایام میں جب یہ بیمار تھے اور کینسر جیسی بیماری سے لڑ رہے تھے۔ ان کا میری والدہ محترمہ کی وفات پر کیا ایک غمگین اور دردبھرا میسج،مجھے رُلاگیا اوربہت کچھ سمجھاگیا تھامگر میں پھر بھی ان کی زندگی کیلئے مسلسل دعا گو رہا مگر ہوتا وہی ہے جو منظور خدا ہوتا ہے جو دنیا میں آیا ہے اسے آخرجانا ہے بس فرق صرف اتنا ہے کہ وہ اپنے پیچھے اپنے چاہنے والوں کی زندگی میں ایک کرب و تکلیف چھوڑ جاتا ہے جو وہ ساری زندگی محسوس کرتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے