کالم

صدر زرداری مضبوط وفاق کی علامت

ہماری سیاست و صحافت کے سر بلند اور دل پسند اساتذہ میاں برادران کے حوالے سے مدتوں سے یہ بتلاتے بلکہ پڑھاتے چلے آ رہے ہیں کہ میاں نواز شریف ، میاں شہباز شریف ، میاں حمزہ شہباز ، میںم مریم نواز ، بس یہی پھول کھلیں گے تو خوشبو ہو گی ، یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی لیکن کوئی صورت نظر نہیں آتی اور کوئی امید نظر نہیں آتی کے مصداق کوئی روشنی نظر نہیں آتی کوئی شمع نظر نہیں آتی اور بے چارے ، غم کے مارے پروانے تاریکیوں میں ہی دیواروں کو ٹکریں مار رہے ہیں کہ کب ہوگا ایک نئی سحر کا طلوح جب کوئل کوکے گی ، پھول کھلیں گے ، بلبلیں گائیں گی پیار کے نغمے ، ہر سو ہریالی ہو گی اور خوشحالی ہوگی آخر کب۔؟ مہنگائی ، غربت ، بھو ک و بےروزگاری نے ایک عام پاکستانی کی زندگی ہی اجیرن کر دی ہے ، اس کسان کا اور اس مزدور کا چولہا نہیں جلتا جس کے خون پسینے سے ان کی انڈسٹریاں چلتی ہیں ۔ بڑے بڑے محلات بنگلوں میں امیروں کے گھوڑے اور کتے تو سونے کے نوالے لیتے ہیں جبکہ غریب عوام پینے کے لیے صاف پانی کو ترستے ہیں ، کھانے کے لیے دو وقت کی روٹی کو روتے ہیں اور برادرم و محترم اعظم احساس جی کے الفاظ میں کب سے پکار رہے ہیں کہ :
سانس باقی سانس میں ہے
نہ ہی جان باقی تن میں ہے
جیسے زندگی ایک اجڑا ہوا
لاغر پنچھی نشیمن میں ہے
پیپلز پارٹی اس حکومت کی سب سے بڑی اتحادی جماعت ہے اس لیے سرکاری ملازمین نون سے تو نہیں لیکن پیپلز پارٹی سے اور بالخصوص صدر مملکت پاکستان سے ضرور یہ امید باندھے بیٹھے تھے کہ اب کی بار ہمیں محض اعلان نہیں بلکہ خوشخبری سننے کو ملے گی ، سکیل ایک سے سکیل پندرہ تک کے یہ غلام ابن غلام اپنے صدر سردار آصف علی زرداری جی سے یہ آس لگائے بیٹھے تھے کہ اگر کم سے کم بھی ہوا تو ہماری تنخواں میں ساٹھ یا ستر فی صد اضافہ تو ضرور ہی ہو گا لیکن بعد از اعلان ان بے چاروں کے تو دانت ہی کھٹے ہو گئے ۔ جیسے روتے ہیں دل ٹوٹ کر ایسے ساون برستے نہیں ۔ چھوٹے سکیل کے یہ سرکاری ملازمین اپنی اپنی قسمت کو کوستے اور ہاتھ ملتے ماتم کناں ہیں کہ :
شریفوں کا شرف نرالا ہوتا ہے
جلتے ہیں ارماں میرا دل روتا ہے
ایوان زریں و ایوان بالا میں بیٹھے بڑے سیاستدان و ممبران پارلیمان بڑے ہی نالاں ہیں کہ مہنگی مہنگی امپورٹڈ گاڑیوں پر ٹیکسز زیادہ لگے ہیں جبکہ عام شہری اس لیے پریشان حال اور فکر مند ہیں کہ بجٹ میں ہمارے لیے کوئی خوشخبری ہے نہ کوئی آس و امید ، صد افسوس کہ ہمارے ہاں بجٹ بھی الفاظ و ہندسوں کی ہیرا پھیری کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتے ، اور تو اور ان کے اس نونی و خونی بجٹ سے ان کی اتحادی پیپلز پارٹی بھی ناراض ہے اور نہ صرف ناراض ہے بلکہ اس حوالے سے پیپلز پارٹی کی صفوں میں شدید غم و غصہ دیکھنے میں آیا ہے اور وہ اس پر بول بھی رہے ہیں جبکہ جوابا ن لیگ بھی پیپلز پارٹی کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے جو بالاخر اس اتحادی حکومت کو ہی لے ڈوبے گی ، بہتر یہی ہے کہ یہ بھانت بھانت کی بولیاں بند کر دی جایں کیونکہ یہاں کھچڑیاں نہیں ایسے ایسے کھجڑے پک رہے ہیں کہ ان کا ابال و وبال آپ کبھی بھی برداشت نہیں کر پائیں گے
نون کی مانند اگر پپلیے بھی بول پڑے تو یہ حکومت جمعہ اور جمعہ آٹھ دن بھی نہیں چل پائے گی اور نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری لہذا اس ضمن میں نون لیگ کا نہ بولنا بے جا بولنے سے بہتر ہے ۔ حنیف عباسی ، محسن شاہنواز رانجھا سمیت متعدد نون لیگی لوگوں کی حرکات و بیانات کسی طور پر بھی مناسب نہیں ہیں نہ صرف اس حکومت کے لیے بلکہ نون لیگ کے لیے بھی ۔
زلفیں ہیں بکھری بکھری ٹیڑھا کان کا بالا ہے
پہلے ہی ہم جان گئے کچھ دال میں کالا کالا ہے
وزیراعلی بلوچستان میر سرفراز احمد بگٹی نے کس قدر مثبت بات کی ہے کہ صدر کے دورے سے بلوچستان کے عوام کو اپنائیت کا احساس ملے گا۔ ضروری نہیں ہے کہ آپ اس بات سے اتفاق کریں مگر میری یہ ذاتی رائے ہے کہ سردار آصف علی زرداری کا صدر مملکت کے عہدے پر فائز ہونا سب صوبوں کے لیے خوش آئند بات ہے اور ایک مضبوط و متفقہ وفاق کی علامت ہے ۔ خبر چھپی ہے کہ صدر مملکت آصف علی زرداری نے بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی استعداد کار بڑھانے،بلوچستان میں اہل افسران تعینات کرنے اور دہشت گرد عناصر کا مقابلہ کرنے کے لیے پراسیکیوشن میکنزم کو بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ایوان صدر کے مطابق صدر مملکت نے گزشتہ روز گوادر میں بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال کے حوالے سے اجلاس کی صدارت کی۔اجلاس میں وزیر داخلہ محسن نقوی ،وزیراعلی بلوچستان میر سرفراز احمد بگٹی سمیت اعلی سول و عسکری حکام نے شرکت کی۔صدر مملکت کو صوبے کی مجموعی سکیورٹی صورتحال پر بریفنگ دی گئی۔ صدر مملکت نے صوبائی حکومت کی کوششوں اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے اداروں کی قربانیوں کو سراہا اور کہاکہ دہشت گرد عناصر کو سزا دلانے کے لیے استغاثہ کے نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
زارین کی حفاظت یقینی بنائی جائے،بلوچستان کے لوگوں کو ہنر سکھائے جائیں، انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں شہدا کے لواحقین کے معاوضے میں اضافہ کر کے باقی صوبوں کے برابر لایا جائے اور سیاسی مذاکرات سے بلوچستان میں خوشحالی، ترقی اور امن آئے گا ۔ اجلاس میں صوبے کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے کچھی کینال منصوبے کو مکمل کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا۔ بلاشبہ صدر آصف علی زرداری نے دیگر سب سے بڑھ کر اور ہمیشہ سے ہی بلوچستان اور اہل بلوچستان کی محرومیوں و مایوسیوں کا احساس کیا ہے ، انہوں نے وہاں کے حالات و مشکلات کو سمجھا ہے ، انہیں ان کے مسائل کا بخوبی ادراک ہے ، یہ ماضی میں بھی ان مسال کے تدارک و بہتری کے لیے اقدامات اٹھاتے رہے ہیں اور یقینا بلوچستان میں دہشت گردی کے خاتمے ، امن و ترقی اور اتحاد و یکجہتی کے لیے مزید بھی کام کریں گے انشا اللہ ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri