کالم

صنعتی ومعاشی انقلاب کے بانی

تیز رفتاری سے بدلتے ہوئے عالمی حالات وواقعات میں جہاں اور بہت کچھ بدلا ہے وہاں انقلاب کے معنی اور مطلب کو بھی بہت وسعت ملی ہے انقلاب اب محض جنگ وجدل اور خون خرابے سے تبدیلی تک ہی محدود نہیں رہا انقلاب کو اس کے بغیر بھی لایا جا سکتا ہے سوال اٹھتا ہے کہ انقلاب ہے کیا تو انقلاب کا مطلب ہے کہ کسی ایسی تبدیلی کا لایا جانا جو معاشروں کو متاثر کردے یا پھر کسی خاص طبقہ یا گرو ہ یا آبادی میں حیرت انگیز تبدیلیا ں لے آئے تو اسے بھی انقلاب ہی کہا جا سکتا ہے ایسے اقدام جو قوموں اور ملکوں کی تقدیر بدل دیں بھی انقلاب کہلاتا ہے تاریخ بتاتی ہے کے بعض دفعہ مشہو ر و معروف لوگوں کے علاوہ عام اور گمنام آدمی بھی انقلاب لے آتے ہیں ایسا ہی ایک انقلاب کی بنیاد ماسٹر محمد یوسف مغل نے جو وزیرآباد کے ایک دیہی علاقے کے ہنر مند اور تعلیم یا فتہ خاندان میں پیداہوئے اور نامساعد حلات کے باوجود تعلیم بھی حاصل کی اور خا ندا نی ہنر کو بھی آگے بڑھایا اور محکمہ تعلیم میں ٹیچر بن کر سرکاری سکولوں میں ہزاروں طالبعلموں کو تعلیم کیساتھ ہنر کی طرف بھی راغب کیا تاکہ وہ تعلیم اور ہنر کے امتزاج سے نہ صرف اپنی زندگیوں کو بہتربنا سکیں بلکہ اپنے ہنر سے نئی ایجادات اور کوششوں سے ذرائع آمدن کیساتھ ساتھ ملک کی بھی خدمت کرسکیں پچاس کی دہائی میں رکھی تھی جب میں یہاں تک پہنچا ہوں تو مجھے فیس بک پر دہلی کے وزیراعلیٰ کی ایک ویڈیوکلپ دیکھنے کو ملی ہے جس میں وہ بڑے فخر کیساتھ بتا رہے ہیں کہ دہلی سرکار کی انتھک کوششوں سے دہلی کے سینکڑوں سرکاری سکولوں میں تعلیمی معیار اور امتخانی نتائج حیرت انگیز حد تک بہت اعلی ہو گئے ہیں سرکاری سکولوں میں تعلیم وتربیت کا اعلی معیار دیکھ کر ہزاروں والدین اپنے بچوں کو پرائیوٹ سکولوں سے اٹھا کر ان سرکاری سکولوں میں داخل کرارہے ہیں انکی تقریر کا وہ حصہ جس سے مجھے ماسٹر محمد مغل یاد آئے ہیں یہ تھا کہ دہلی سرکار نے اپنے سکولوں میںزیرتعلیم نویں اور دسویں جماعت کے طلبا میں تین تین ہزار روپے فی طالبعلم تقسیم کر کے انہیں راغب کیا کہ وہ تعلیم کیساتھ ساتھ کوئی نہ کوئی کاروبار کرکے اپنی پراگرس رپورٹ سکول میں جمع کرائیں کہ انہیں کاروبار میں آگے بڑھنے کیلئے کن مسائل کا سامنا کرنا پرا اور میں یہ جان کر حیران ہو گیا کہ ان طلبا نے سرکاری طور پر ملنے والے تین تین ہزارروپے کو گروپ بنا کر کاروبار میں لگانے کے علاوہ ضروریات زندگی کی مختلف اشیا تیا رکرکے فروخت کر نے میں لاکھو روپے منافع کمایا وزیراعلی کا کہنا تھا کہ نویں اور دسویں جماعت کے ان طالب علموں میں دوران تعلیم جب کاروبار کارجحان ابھرے گاتو تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہیں سرکاریوں نوکریوں کیلئے دربدر نہیں ہونا پڑے گا بلکہ وہ اپنے تعلیم اور ہنر سے کامیاب شہری بن کر اپنی اور ملک کی خدمت میں آگے آئیںگے اور حکومت پر نئی نوکریوں کا بوجھ بھی ک ہو گا میرے نزدیک دوران تعلیم کاروبا ر کا یہ آئیڈیا بھی انقلاب ہے جو ماسٹر محمد یوسف مغل نے بھی پچاس کی دہائی میں تعارف کروایاتھا اگر مثال کے طور پر ماسٹر صاحب کے اس انقلابی ایئدیا کو اس وقت کے حکمران اورپالیسی ساز ادارے آگے بڑھاتے اور پھلاتے تو شاید آج ہماری نو جوان نسل اعلی تعلیم اور ڈگریاں لیکر معمولی معمولی سی سرکاری نوکریوں کیلئے دربدر نظر نہ آتی کمال کی بات یہ ہے کہ ماسٹر صاحب نے یہی نسخہ اپنے فرزند خالد مغل کو بھی دیا تھا جو آج نہ صرف ایک کامیاب صنعتکار ہیں بلکہ ایک مشہور سیاسی سماجی رہنما ہونے کے علاوہ مقامی انڈسٹری کو بھی لیڈ کررہے ہیں اور یہی نہیں بلکہ اپنے والد کے اس تعلیم کیساتھ ہنر کے فارمولے کو کٹلری انڈسٹری میں لاکر ایک ایسا صنعتی اور معاشی انقلاب برپا کرنے جارہے ہیں کہ جس کی گو نج ابھی سے ملکی ایونوں میں سنی جا رہی ہے خالد مغل کے اس انقلابی اقدام سے وزیرباد کی کٹلری چاقو چھری تلوار اور ٹیبل کٹلری کی گھریلوصنعت گھروں سے نکل کر فیکٹریوں تک پہنچ رہی ہے اور کٹلری اینڈ کرافٹ وولیج بن رہی ہے جس میں مقامی صنعتکاروں صنعتی تنظیموں اور حکومتی امداد سے اربو ں روپے کے پروجیکٹ شروع ہو رہے ہیں جس سے اعلی معیار بلکہ بین القوامی معیار کی کٹلری مصنو عات گلوبل مارکیٹ میں متعارف ہو کر کروڑو اربوں ڈالر کا زرمبادلہ لے گی کوئی شک نہیں کہ چھری چاقو کٹلری تلوار اور ٹیبل کٹلری میں دنیا وزیرآباد کے ہنر مندوں کو تسلیم کرتی ہے خالد مغل ا ن ہزاروں ہنر مندوں کو گھروں سے فیکٹریوں تک لارہے ہیں انہیں پچاس ساٹھ ایکڑ سے بھی زیادہ رقبہ پر بنی سمال انڈسٹریز سٹیٹ میں نہ صرف سات سات مرلے کی تیار جدید ورکشاپ بھی دلوائیں گے بلکہ بیس سالہ آسان اقساط کے قرضے اور جدید مشینری اور تربیت کا بندو بست بھی فراہم ہو گا بلکہ عالمی معیار کی مصنوعات کی تیاری نگرانی اور کوالٹی کنٹرول کابھی اہتمام ہو گا جس کیلئے ایک سو ملین کے فنڈز مختص کردیے گے ہیں جس سے کاٹج انڈسٹری باقاعدہ سمال انٹرپرائززمیں تبدیل ہو کر مقامی ایکسپورٹ کو 143ملین ڈالر سے بڑھاکر ایک ہزار ملین ڈالر سالانہ پر لے جائے گی جس سے نہ صرف وزیرآباد اشیا کا سب سے بڑا کٹلری اینڈ کرافٹ وولیج بنے گا بلکہ اس سے ہزاروں ہنر مندو ں اور دیگر پڑھے لکھے مردوں خواتین کیلئے نوکریوں کا انتظام ہوگا جو حکومت کی غربت مکاو پالیسی میں مددگار ہونے کے علاوہ ڈالرز کی کمی کو بھی پورا کرے گا اس انقلاب میں خالد مغل کیساتھ حمید چڈھا مہر شکیل اعظم حافظ محمد سلیم قیصر نذیر محمد عثمان محمد نواز اور دیگر انقلابی لوگ شامل ہیں سوال یہ ہے کہ انقلا ب اگر تہہ وبالا کرنے کانام ہے یا پھر سینکڑوں سال کی روایت و رواج کو تبدیل کرکے اندھیروں سے اجالوں میں انے کا نا م ہے تو یہ انقلاب خالد مغل لا رہے ہیں اور یہ صنعتی اور معاشی انقلاب بھی ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri