کالم

طریقت بجز خدمت خلق نیست

انتخابی منشور۔

مولانا عبدالرحمن جامی فرماتے ہیں
زتسبیح و سجادہ و دلق نیست
طریقت بجز خدمت خلق نیست
کہ طریقت یعنی تصوف و سلوک صرف تسبیح پڑھ لینے اور مصلی بچھا دینے سے اور پھٹا پرانا لباس پہننے سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ طریقت بجز خدمت خلق نیست’ طریقت تو مخلوق کی خدمت کا نام ہے ایک بزرگ فرماتے تھے کہ دنیا میں جتنے منصب اور عہدے ہیں لوگ ان کے پیچھے بھاگتے ہیں مثلا میں صدر بن جا¶ں، وزیراعظم بن جا¶ں، کسی جماعت کا صدر بن جا¶ں، رہنما بن جا¶ں، لیکن ان تمام مناصب کا حال یہ ہے کہ اول تو ان کو حاصل کرنا اپنے اختیار میں نہیں کہ جب چاہوں صدر بن جا¶ں، جب چاہوں وزیراعظم بن جا¶ں،اپنے اختیار سے باہر ہے۔ کتنی ہی خواہش کرتے رہو الیکشن لڑتے رہو معلوم ہوا کہ سال بھر کی کوشش کرنے کے بعد الیکشن ہار گئے تو نہ صدر بن پائے نہ وزیراعظم بن پائے- اپنے اختیار میں نہیں۔ اگر فرض کرو مل بھی جائے تو اس کا رہنا اختیار میں نہیں پتہ نہیں کب نیچے سے کرسی کھسک جائے ہم تو پاکستان میں روز یہ مناظر دیکھتے ہیں کہ ایک شخص آج ملک کا وزیراعظم ہے کل جیل میں ہے۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کو کسی نے ایک مرتبہ یہ پیشکش کی تھی کہ آپ ہمارے امیر بن جائیں اور امیر بن کر ہندوستان میں اسلامی حکومت کے قیام کے لئے کام کریں، آپ نے فرمایا تھا کہ بھائی میں ایسا امیر نہیں بن سکتا کہ” آج امیرالمومنین ہوں اور کل اسیر الکافرین ہوں” تو یہ منصب اپنے اختیار میں نہیں، اس کو باقی رکھنا اپنے اختیار میں نہیں،نامعلوم کب کرسی کھسک جائے اور جب تک وہ منصب ہے تو اس وقت کیا ہو گا -اس وقت تک یہ ہوگا کہ بہت سے حسد کرنے والے حسد کریں گے یہ پہنچ گیا میں رہ گیا اور بہت سے کرسی سے اتارنے کی کوشش کریں گے – ہر منصب میں یہ سب خطرات ہیں،حضرت فرماتے تھے کہ میں تم کو ایک ایسا منصب بتاتا ہوں کہ اس کا حاصل کرنا اپنے اختیار میں ہے جب چاہو حاصل کر لو اور رکھنا بھی اپنے اختیار میں ہے کوئی تم سے چھینیں گا نہیں اور تیسرا یہ کہ اس کے اوپر کوئی حسد بھی نہیں کرے گا – وہ عہدہ یہ ہے کہ خادم بن جا¶،خادم بنو،یہ سمجھو کہ تم خادم بنا کر پیدا کیے گئے ہو، اپنے والدین کی خدمت، اپنے بھائی بہنوں کی خدمت، اپنی بیوی بچوں کی خدمت، اپنے استادوں کی خدمت، اپنے شاگردوں کی خدمت،اپنے ملنے جلنے والوں کی خدمت،اپنے ملک والوں کی خدمت، خدمت کے عنوان مختلف ہوتے ہیں- تو یہ خادم کا عہد ہ ایسا ہے کہ اسے خود اختیار کر لو اور کبھی کوئی چھینے گا نہیں کیونکہ خدمت اپنے اختیار میں ہے اور نہ ہی کوئی حسد کرے گا – کسی بزرگ کا بڑا مشہور واقعہ ہے کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ وہ اپنے شہرواپس آ رہے تھے انہوں نے دیکھا کہ ایک بوڑھا سا آدمی اپنا سامان لاد کر لے جارہا ہے اور ایسا لگ رہا تھا کہ اس کو سامان اٹھانے سے دقت ہو رہی ہے اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں سامان اٹھا لوں انہوں نے کہا سبحان اللہ تو سارا بوجھ حضرت نے اپنے کندھے پر اٹھا لیا اور پیدل چلتے رہے راستے میں حضرت نے پوچھا کہ محترم آپ کہاں جا رہے ہیں اس پر اس بوڑھے نے اس بزرگ کے شہر کا نام لیا اور کہا کہ ان سے ملنے جا رہا ہوں- سنا ہے بڑے بزرگ ہیں آپ جانتے ہیں انہیں؟ اس بزرگ نے کہا کہ میں جانتا ہوں اس نے کہا سنا ہے کہ بڑے بزرگ ہیں حضرت نے کہا ہاں نماز پڑھ لیتے ہیں- چلتے گئے یہاں تک کہ ان کا شہر آگیا اور اس بزرگ کو جب لوگوں نے دیکھا تو لوگ ان کوپہچان گئے وہ جلدی سے آگے آئے کہ حضرت نے بوجھ اٹھایا ہوا ہے ان سے سامان لے لیا اب وہ شرمندہ ہوا اور ہاتھ جوڑنے لگا کہ خدا کے لئے مجھے معاف کردو – حضرت نے فرمایا اس میں معافی کی کیا بات ہے آپ کو اٹھانے میں تکلیف ہو رہی تھی میں نے اٹھا لیا اس میں معافی والی کوئی بات نہیں ہے آپ کی خدمت کرنے کا مجھے موقع مل گیا- ہماری اسلامی تاریخ ایسے واقعات سے بھری ہوئی ہے کہ جس میں دوسرے مسلمان کا خیال رکھا جاتا ہے اور اپنی ضرورت پر دوسرے کی ضرورت کو فوقیت دی جاتی ہے- بکری کی سری کا واقعہ تو آپ نے سنا ہوگا کہ کس طرح سات گھروں کا چکر کاٹ کر واپس اسی گھر میں آجاتی ہے کہ میرے ساتھ والا مجھ سے زیادہ ضرورت مند ہے لیکن آج کل ہم نمود و نمائش میں پڑے ہوئے ہیں ہمارے اعمال، ہماری عبادات سب دکھاوے کی ہیں اگر آپ دین کا گہرائی میں مطالعہ کریں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جائے گی کہ دکھاوے کی عبادت اور سخاوت سب بیکار ہیں اس لیے کہ وہ اللہ کی رضا کی خاطر نہیں کی جاتی بلکہ انسانوں کے دکھلاوے کے لیے کی جاتی ہیں- خدمت خلق کے کام میں انسان کی نیت کا خالص ہونا بہت ضروری ہے نیت یہ ہونی چاہیے کہ ہم مخلوق کی خدمت اس لیے نہیں کر رہے ہیں کہ وہ ہم سے راضی ہو جائیں اور وہ ہمارے شکر گزار ہو جائیں اور کہیں کہ یہ انسان بڑا اچھا ہے بلکہ نیت یہ ہونی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ میرے ان مخلوق خدا کے کاموں میں تیری رضا اور قبولیت ہونی چاہیے اگر آپ نے کبھی ریل کی پٹری پرغور کیا ہو تو آپ نے دیکھا ہوگا کہ جہاں ٹرین کی پٹری راستہ بدلتی ہے تو اس جگہ دونوں لائنوں کے درمیان فاصلہ بہت تھوڑا ہوتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri