دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں کے وقوع اور امکانات پر نت نئی تحقیق کے نتائج سامنے آتے رہتے ہیں، موسموں کا مزاج بھی بڑی حد تک بدلا بدلا نظر آرہا ہے۔گرمیوں کا موسم بھی شدید اور سردیاں بھی سخت۔پاکستان میں تو یوں بھی ہوتا ہے کہ باہر کی نسبت گھروں کے اندر سردی زیادہ ہوتی ہے۔بارشوں کا تناسب بھی تبدیل اور سرکش ہوا پڑا ہے ۔اس سب کے باوجود کسی سائنسدان یا ماہر موسمیات نے دنیا میں آنسووں کی بارش کی کوئی پیش گوئی کبھی نہیں کی تھی، فلسطینیوں پر اسرائیلی وحشت اور ”جنونی امریکیئت” کی پھیلائی تباہی نے دنیا کے ہر صحیح الدماغ انسان کو مذہب، قومیت، رنگ ، زبان اور علاقے کے امتیازات سے بلند کرتے ہوئے فلسطین میں ہلاک ہوتے بچوں، بوڑھوں ، عورتوں ، نوجوانوں کی المناک ہلاکتوں پر غمزدہ کر دیا ہے۔مسلمان ممالک کی نسبت غیر مسلم ممالک اور معاشروں میں رہنے والے انسان دوست عوام و خواص کے آنسو¶ں کی برسات نے فلسطینوں پر ہونے والے مظالم کو عالم انسانیت کے مشترکہ غم اور مشترکہ احتجاج کا عنوان بنا دیا ہے۔ امید کی جانی چاہیئے کہ؛ عالم انسانیت کے اجتماعی اشکوں کی یہ برسات اسرائیلی جنون، جرائم اور غارت گری کو ہمیشہ کے لیے بہا لے جائے گی۔فلسطینیوں پر اسرائیلی صیہونیوں کے تباہ کن حملوں نے عصر حاضر کی ایک نئی حقیقت کو بھی آشکار کیا ہے،اور وہ نئی حقیقت یہ ہے کہ اب کرہ ارض پر رہنے والے انسانوں میں مذہب کی بجائے انسانیت کی بنیاد پر فلسطینیوں کی حمایت کرنے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ جہاں تک نام نہاد ”عالم اسلام” کا تعلق ہے تو امر واقعہ یہ ہے کہ فلسطین پر اسرائیلی حملوں کے ردعمل میں مسلم ممالک اپنی اپنی وجوہ کی بنا پر شرمندہ، خجل، اور متردد رہے ہیں، اور ابھی تک ہیں بھی۔اس بار دنیا میں آوازیں لگا لگا کر ”جہاد ” کا چورن بیچنے والے سبھی پیشہ ور اجرتی قاتل خاموش اور بے ہوش ہیں، بچہ سقہ کی باقیات کا مسلح جہاد ڈالر شماری میں مصروف ہے، ایران حزب اللہ کو اپنے عمامے میں چھپائے آنکھیں ادھر اودھر گھما رہا ہے،تہران کے یہودی ایرانی معیشت کی مکمل نگہداری کرتے ہیں۔عالم عرب اسرائیل کا سہولت کار، پاکستان جیسے ممالک عالم عرب کے خواستگار۔تو ایسے میں اس بزدلی اور لاتعلقی کا کفارہ غیر مسلم دنیا کے انسان دوست عوام نے ہی ادا کیا ہے اور انسانی اتحاد، یک جہتی اور یک جائی کی ایک نئی بنیاد کی طرف رہنمائی بھی کی ہے۔ لاطینی امریکہ کے ممالک، سوشلسٹ یا سوشلسٹ خصوصیات کے حامل ممالک اور یورپ کے متعدد ممالک کے عوام نے مذہب کی بنیاد پر نہیں، انسانیت کے نام پر فلسطینیوں کی سلامتی اور زندہ رہنے کے حق کی حمایت کی ہے، اور کر رہے ہیں ۔ پس ثابت ہوا کہ؛ دنیا میں امت مسلمہ اور ملت اسلامیہ جیسے فریب وجود نہیں رکھتے۔ میرا خیال ہے کہ مغربی حکومتیں یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان دشمنی اور انتقام کے سلسلے کی مسلسل کاشتکاری اپنے اسٹرٹیجک مفادات کے تحفظ اور مسلمانوں اور یہودیوں کو آپس میں الجھائے رکھنے کےلئے کر رہی ہیں۔ایک تقریب میں نیتن یاہو بھارتی وزیر اعظم کی اس وجہ سے تعریف کر رہا تھا کہ وہاں طویل مدت سے یہودی امن و امان سے اور بغیر کسی تعصب کے رہتے آ رہے ہیں۔وہ کہہ رہا تھا کہ ہم انڈینز کے احسان مند ہیں کہ تاریخ میں پہلی بار اس ملک کا وزیراعظم اسرائیل آیا ہے ۔ اس نیتن یاہو میں اگر غیرت و حمیت کا ایک قطرہ بھی باقی ہوتا تو اس کو یہ اعلان کرنا بھی چاہیئے تھا کہ صدیوں سے یہودی ترکی، ایران اور دیگر مسلم ممالک میں بھی امن و سکون سے رہ رہے ہیں ۔ لیکن۔ایسا سکون، تحفظ اور آرام یہودیوں کو کسی مسیحی ریاست میں کبھی بھی حاصل نہیں رہا۔بلکہ تاریخ کا سب سے بڑا سچ تو یہ ہے کہ مسیحی سلطنتوں اور ممالک میں یہودیوں کو ہمیشہ تنفر اور ہلاکت کا عنوان بنایا گیا تھا،اور ان تمام ادوار میں یہودیوں کےلئے جائے امن و امان اور پناہ کا سامان مسلمان سلطنتیں اور ممالک بنتے تھے۔سلطنت عثمانیہ کے زوال اور اسرائیل قیام تک یہودیوں پر صیہونی دہشت گردوں کا غلبہ اور اجارہ نہیں ہوا تھا۔اسرائیلی ریاست کا قیام اور اسے فلسطینیوں پر مظالم کےلئے کھلا چھوڑ دینا دراصل صلیبیوں کی طرف سے اپنے اسی ”اینٹی سمیٹک ازم” پر پردہ ڈالنا تھا۔صلیبی ممالک کی طرف سے انتہا پسند صیہونیوں کو مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان خلیج اور تنازعات پیدا کرنے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔اس سارے کھیل میں عملی کردار رائل برٹش آرمی اور سلطنت عثمانیہ کے غدار عرب گورنرز نے ادا کیا، برطانیہ کی طرف سے عرب گورنرز کو بادشاہ کا لقب دے کر اور رائل برٹش آرمی کے اہل کاروں کو وکٹوریہ کراس اور مراعات دے کر نوازا گیا۔ اکیسویں صدی کے نوجوانوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ فلسطینی جدوجہد آزادی سرزمین سے جڑی ہے ۔ صیہونیوں کو صلیبیوں نے ارض فلسطین پر جمع کر کے، ان کے مذہب کی مفروضہ عظمت کو ازسرنو زندہ کرنے کا کاذب خواب دکھا کر ایک ریاست اسرائیل قائم کی۔گویا بیسویں صدی کے وسط میں خالصتاً مذہب کی بنیاد پر اسرائیل نام کی ریاست کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس میں بنیادی نکتہ یہ ہے کہ؛ اسرائیل ”یہودیوں” کی نمائندہ ریاست نہیں ہے۔اسرائیل یہودیوں میں سے ہی بنائے گئے نہایت درجہ انتہاءپسند ، پاگل پن کی حد تک بنیاد پرست اور غیر عقلی اسرائیلی روایات و حکایات پر ایمان رکھنے والے صیہونیوں کی ریاست ہے۔یہ صیہونی اپنے سوا کسی کو انسان کا رتبہ نہیں دیتے۔یہی وجہ ہے کہ فلسطینیوں کے قتل عام پر انہیں ذرا برابر تاسف نہیں ہوتا۔حیرت تو اس بات پر بھی ہے کہ جو بائیڈن اور ان کی پارٹی کس منہ سے امریکہ کے صحیح الدماغ اور انسانیت نواز لوگوں کا سامنا کرسکیں گے ۔ مسلم ممالک کے حکمرانوں کا ذکر بے سود ہے،ان کے اعمال و افعال کی تقدیر سازی بھی امریکہ ہی ذمے ہے، لہٰذا ان کے گناہ ثواب کا بوجھ بھی امریکہ ہی کے سر جائے گا۔رہ گئے فلسطینی عوام، تو انہیں بھی حماس کے رہنما اسماعیل ہانیہ کی طرح قطر یا حزب اللہ کے حسن نصر اللہ کی طرح کسی دیگر محفوظ جگہ پر چھپ کر بیٹھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔تا آنکہ عالم انسانیت کے اشکوں کی برسات طوفان بن کر صیہونیوں کے غیر انسانی ظلم کا ہمیشہ کےلئے خاتمہ کر دے۔