کالم

عام انتخابات مئی اور اکتوبر کے درمیان ہونے چاہئیں

riaz chu

امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق نے قومی انتخابات کے لیے اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوششوں کے سلسلے میں وزیراعظم شہباز شریف اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سے الگ الگ ملاقاتیں کیں تھیں۔ تینوں رہنماو¿ں کے درمیان اس امر پر اتفاق پایا گیا کہ ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کےلئے سیاست دانوں کے درمیان بات چیت ضروری ہے۔وزیراعظم اور تحریک انصاف کے چیئرمین نے سراج الحق کو ان کی کوششوں میں مکمل تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی۔ عام انتخابات کے حوالے سے ایک تاریخ پر اتفاق رائے پیدا کرنے کےلئے جماعت اسلامی نے عیدالفطر کے بعد آل پارٹیز کانفرنس بلانے کی تجویز پیش کی ہے۔ آل پارٹیز کانفرنس میں پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کو مدعوکیا جائے گا جس میں اس ایجنڈے پر اتفاق پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ ملک میں ایک تاریخ پر عام انتخابات کروائے جائیں کیونکہ ملک اس کا متحمل نہیں ہوسکتا کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات الگ الگ تاریخ میں کروائے جائیں۔ جماعت اسلامی آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا حتمی فیصلہ اس لئے نہیں کرسکی کیونکہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی طرف سے مزید مثبت ردعمل کا انتظار ہے۔آل پارٹیز کانفرنس جماعت اسلامی کی قیادت میں ہونے کا امکان ہے۔اے پی سی کا ایک نکاتی ایجنڈا عام انتخابات کی تاریخ طے کرنا ہو گا۔ جماعت اسلامی چاہتی ہے حکومت اور اپوزیشن الیکشن کے لیے ایک تاریخ پر اتفاق کریں۔ اے پی سی میں حکومت کو اکتوبر سے قبل پی ٹی آئی کو مئی کے بعد الیکشن کے لیے رضا مند کرنے کی کوشش ہو گی۔جماعت اسلامی سے مذاکرات کے معاملے پر چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی ہدایات پر تین رکنی کمیٹی قائم کردی گئی۔ تین رکنی کمیٹی میں پرویز خٹک، سینیٹر اعجاز احمد چودھری اور میاں محمود الرشید شامل ہیں۔ تحریک انصاف کی تین رکنی کمیٹی ملک میں جاری سیاسی بحران کے حوالے سے جماعت اسلامی پاکستان سے مذاکرات کریگی۔مسلم لیگ ن سے سعد رفیق اور ایاز صادق کو جماعت اسلامی سے معاملات بڑھانے کے لیے گرین سگنل مل گیا ہے جس کے بعد جماعت اسلامی کے پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن کے نامزد وفود سے مزید مذاکرات ہونے کا امکان ہے۔محترم سراج الحق کا کہنا ہے کہ قومی اسمبلی بے توقیر ہو چکی ہے۔ مرکز و صوبوں میں نگران حکومت قائم ہو جانی چاہئے اور ملک میں فی الفور عام انتخاب ہونے چاہئیں۔شفاف الیکشن ملک کی ضرورت ہیں ۔ پورے ملک میں ایک ہی روز انتخابات ہوں گے تو استحکام آئے گا۔ منصفانہ انتخابات کے سلسلے میں الیکشن کمیشن کا مالی وانتظامی لحاظ سے خودمختار ہونا وقت کی ضرورت ہے۔ فوج کی جانب سے آئندہ مارشل لاءنہ لگانے کے اعلان سے شکوک وشبہات ختم ہوگئے۔ہم چاہتے ہیں عدلیہ، الیکشن کمیشن اور سٹیبلشمنٹ مکمل طور نیوٹرل ہوجائے۔اس وقت حالات یہ ہیں کہ ملک میں سیاسی اختلافات دشمنیوں میں بدل گئے۔ انتقام کے نعرے ملک کےلئے تباہ کن ہیں اور پولرائزیشن خطرناک حدیں چھو رہی ہے۔ اب نئی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ قوم میں اتفاق پیدا کرنے کےلئے کردار ادا کرے۔ سیاست گالم گلوچ کا نہیں، دلیل سے بات کرنے کا نام ہے۔ اگر پاکستان کی تمام پارٹیاں لوٹا کریسی الیکٹیبلز کی بلیک میلنگ سے تنگ ہیں اور ان سے واقعی نجات چاہتی ہیں تو آج ہی متناسب نمائندگی کے طرز پر الیکشن اصلاحات کی طرف آئیں اور یہ اصلاحات کروائیں۔ جماعت اسلامی چاہتی ہے کہ مافیا اور الیکٹبلز سے نجات کا ایک ہی راستہ ہے کہ ملک میں متناسب نمائندگی کی بنیاد پر الیکشن ہوں۔ متناسب نمائندگی نظام میں لوگ کسی اپنے علاقے کے کسی جاگیردار یا الیکٹبلز کو نہیں بلکہ سیاسی جماعت کے منشور کو ووٹ دیتے ہیں۔ لوگ کسی بھی جماعت کے رہنما کو براہ راست ووٹ دیتے ہیں اور جتنے ووٹ اس رہنما کے صندوق میں جمع ہو جاتے ہیں وہ ایک کروڑ ہوں یا 2کروڑ ہوں، ووٹوں کے لحاظ سے ان کو اپنے ممبران اسمبلی میں لانے کی اجازت ملتی ہے پھر رہنما کا کام ہے کہ معاشرے کے کرپٹ جاگیر داروں وڈیروں اور جاہلوں کی بجائے باصلاحیت لوگوں کو اسمبلی میں بٹھائے۔ایسے لوگ جو معیشت کے ماہر ہوں، جوزراعت کے ماہر ہوں، جو تعلیم کے ماہر ہوں ، دیانتدار اور پاکباز ہوں۔ اس لئے ہمارے ملک کے مسائل کا حل متناسب نمائندگی ہی ہے۔ عدالتیں، اسٹیبلشمنٹ اور الیکشن کمیشن مکمل غیر جانبدار ہوجائیں، سیاسی جماعتیں قومی انتخابات کےلئے راضی ہو جائیں۔ملک میں عام انتخابات کا اعلان کیا جائے یہی مسائل کا حل ہے، مرکز اور چاروں صوبوں میں ایک دن الیکشن کا اعلان ہونا چاہیے۔ گزشتہ ایک سال سے نشوونما پانے والے سیاسی انتشار کا نقصان ہمیں پہلے ہی ملکی معیشت کے کمزور ہونے کی صورت میں اٹھانا پڑ رہا ہے۔ آئی ایم ایف ہمیں اپنی ناروا شرائط کے ساتھ مزید جکڑنے کی کوششوں میں ہے اور ہمارے ایٹمی پروگرام کے بدخواہ عناصر بھی ہماری اندرونی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کیلئے صف بندی کرتے نظر آرہے ہیں۔ اس لئے آج ہمیں قومی سیاست میں ذاتی سیاسی مفادات اور اپنی اپنی اناﺅں سے ہٹ کر قومی اتحاد و یکجہتی کی جانب توجہ دینا ہوگی۔ اس کیلئے بہرصورت تمام قومی سیاسی اور ادارہ جاتی قیادتوں کو ملکی سلامتی کے تقاضوں اور قومی مفادات کے تناظر میں اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri