سوشل میڈیا پر ایک بالکل عجیب و غریب ویڈیو کو وائرل دیکھ کر مجھے بہت تشویش ہوئی، ویڈیو میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے مرکزی دروازے کے سامنے سڑک کنارے یونیورسٹی کے پروفیسرز ایک ریڑھی پر مالٹے بیچ رہے تھے۔ایک استاد آوازیں لگا لگا کر فی کلو کے حساب سے مالٹے فروخت کرنے کی آواز لگا رہا تھا۔میں سمجھ سکتا ہوں کہ یہ علامتی احتجاج کا ایک طریقہ تھا۔لیکن اس سے جو پیغام ملا ہے وہ ہماری یونیورسٹیوں میں فروغ پذیر مالی بد نظمی اور کرپشن کی طرف بڑے واضح اشارے کر رہا ہے۔ میں ایک عرصے سے گذارش کر رہا ہوں کہ پاکستانی یونیورسٹیوں میں اشتہاری وائس چانسلرزتعینات کرنے سے پہلے ان کی مالی صورت حال اور اثاثوں کی مکمل چھان بین کر لینی چاہیئے ،اور جب وہ اپنا ٹینیور مکمل کر لیں ،تب ان کے اکانٹس اور اثاثے چیک کر کے موازنہ کر لیا جائے۔بغیر کسی قسم کے الزامات کے ، سارے منظر واضح ہو جایا کریں گے۔لیکن ایسا کسی کو بھی منظور نہیں ہے۔ ہمارے ہاں جو وائس چانسلر پیسہ کھانے اور کھلانے کا رجحان نہ رکھتا ہو ،اسے نااہل تصور کیا جاتا ہے۔اب اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے دیوالیہ ہونے پر بھی سارے اشارے واضح ہیں۔ حالانکہ اس یونیورسٹی کا چانسلر (گورنر) بھی بہاولپور ہی کا رہائشی ہے۔اور اپنے شہر کی تاریخی یونیورسٹی کے دیوالیہ ہونے سے بالکل بے خبر اور قطعا لاتعلق دکھائی دے رہا ہے۔اب تو ستم ظریف کی اس تجویز پر عمل کرنا ضروری معلوم ہو رہا ہے کہ ؛اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کسی کی نظر بد کا شکار ہو چکی ہے ،اور اب اسے کسی کامل بزرگ یا صاحب کرامت پیر سے دم کرانے کی اشد ضرورت ہے۔ وہ جو ستم ظریف نہیں ہیں اور جن کا تعلق اسی یونیورسٹی کےساتھ ہے ،ان کی رائے میں یہ پرامن اور جنوبی پنجاب کے ایک وسیع علاقے کو علمی طور پر سیراب کرنے والی یونیورسٹی انواع و اقسام کے کامل بزرگوںاور صاحبان کرامت پیروںکی حرکات و کرامات ناپسندیدہ کی وجہ سے ہی اس حال تک پہنچی ہے ۔ ابھی کل کی بات ہے کہ اس یونیورسٹی پر سوشل میڈیا مہم کے ذریعے بدترین اخلاقی الزامات لگائے گئے تھے۔جن میں نہ طالبات کو بخشا گیا تھا نہ ہی اساتذہ کو۔ہمارے ہاں بری باتوں کو بغیر تحقیق کے تسلیم کرنے کی قومی عادت کی وجہ سے ایک دو ہفتے خوب تماشا بنا رہا،بالآخر سنجیدہ تفتیش سے یہ راز کھلا کہ یہ سب کسی طرف سے توجہ ہٹانے کی ایک منظم کوشش تھی۔اور اب ؛کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ پنجاب کی اس قدیم یونیورسٹی میں اساتذہ اور عملے کو تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے فنڈز دستیاب نہیں ہیں؟ میرا خیال ہے کہ معاملہ تصورات کی حدود سے نکل کر حقیقت کی خوفناک وادیوں میں اتر چکا ہے۔باخبرذرائع کے مطابق گزشتہ ماہ بعد از خرابی بسیار اساتذہ اور ملازمین کو آدھی تنخواہیں ادا کی گئی تھیں۔جبکہ اس مہینے تمام اساتذہ اور ملازمین کو بتا دیا گیا ہے کہ یونیورسٹی کے پاس فنڈز موجود نہیں ہیں، لہذا اساتذہ و ملازمین تنخواہوں کی امید نہ رکھیں اور بغیر تنخواہ کے زندگی گزارنے کی عادت ڈالیں۔یہ حالات نظر بد کا شکار پنجاب کی باوقار اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے ہیں۔ ذرائع کے مطابق یہ آسودہ حال یونیورسٹی اپنے عہد کمال سے نکل کر موجودہ دور زوال اور حالت کنگال تک اپنے ایک معروف اور معزز وائس چانسلر کے چار سالہ دور میں پہنچی ہے ۔ پنجاب ایچ ای سی کے ایجاد کردہ وائس چانسلرز میں سے موصوف نسبتاً مہذب اور معقول وائس چانسلر خیال کیئے جاتے تھے۔لیکن اقبال کی نظم’ایک مکڑا اور مکھی’ میں مکھی کے اس شعر پر عامل وائس چانسلر نے اپنی کاریگر ٹیم کو یونیورسٹی کے جلی و خفی وسائل پر میلے ہاتھ صاف کرنے سے روکنا کبھی مناسب نہیں سمجھا تھا ،کیونکہ؛
انکار کی عادت کو سمجھتی ہوں برا میں
سچ یہ ہے کہ دل توڑنا اچھا نہیں ہوتا
ذرائع کے مطابق یونیورسٹی کو ہر طرف سے لوٹا گیا، نت نئے ڈیپارٹمنٹ کھول کر اسٹاف اور فیکلٹی بھرتی کر لی گئی، جبکہ اب بھی ان نئے شعبوں میں طالب علموں کی تعداد شمار کے قابل نہیں ہے۔پھر جہاں ایک پوسٹ پر بھرتی کی ضرورت تھی وہاں درخواست جمع کرانےوالے دسیوں امیدواروں کو بیک وقت بھرتی کر لیا گیا، اگرچہ یہ سب کچھ فی سبیل اللہ تو نہیں تھا ،لیکن بنیادی وجہ وہی رہی جو اقبال کی نظم والی مکھی نے بیان کر رکھی ہے ،یعنی؛
انکار کی عادت کو سمجھتی ہوں برا میں
یونیورسٹی میں مختلف پراجیکٹس کے نام پر اور ٹھیکوں کی ذیل میں خوب کھل کھیلا گیا۔یہ ساری کاروائیاں پاکستانی یونیورسٹیوں کے حوالے سے کسی خبر یا انکوائری کا عنوان اس لیے نہیں بن پاتیں کہ ان کارروائیوں کا "حصہ پتی” دستور کے مطابق نیچے سے اوپر تک طے شدہ تناسب کے مطابق تقسیم ہوتا رہتاہے۔ یہ سارے ذی نفس اتنے معصوم اور برگزیدہ لوگ ہوتے ہیں کہ یونیورسٹی کے اربوں روپے ادھر اودھر کر دینے اور خزانہ خالی ہونے کا اعلان کرنے کے باوجود ان کے رخ سیاہ پر ملال یا ملامت کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے ہوتے۔وجہ وہی ہے کہ جن اتھارٹیز نے اس طرح کے معاملات کی تحقیق و تفتیش کرنی ہوتی ہوتی ہے ،ان کی جیبوں میں تناسب کے مطابق حصہ پہنچا دیا گیا ہوتا ہے ۔ اس وقت پنجاب کی تمام یونیورسٹیوں کے چانسلر کا تعلق بہاولپور شہر کےساتھ ہے ۔ لیکن یہ عجیب قسم کا اتفاق ہے کہ جس کےساتھ کبھی بھی کسی برکت کے نزول کی خبر نہیں سنی گئی۔ اب گورنر صاحب کے دور گورنری میں ان کے آبائی شہر کی یونیورسٹی قلاش ہونے کے بعد اب مبینہ کرپشن کی بدولت بہت بڑے مالی بحران کا شکار ہو چکی ہے۔ یونیورسٹی کا خزانہ مکمل طور خالی ہونے کا اعلان بھی کر دیا گیا ہے۔ یونیورسٹی کے اساتذہ تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے خلاف احتجاج کرنے کےلئے سڑکوں پر موجود ہیں ، کلاسز کا بھی مکمل بائیکاٹ کر دیا گیا ہے اور اسلامیہ یونیورسٹی کے مرکزی گیٹ کے سامنے احتجاج کرنےوالوں کا دھرنا جاری ہے، مظاہرین نے احتجاجی بینرز اور پلے کارڈز پر اپنے مطالبات درج کر رکھے ہیں۔ذرائع کے مطابق جب گزشتہ ماہ یونیورسٹی نے گریڈ 1تا گریڈ 17تک کے ملازمین کو تنخواہیں تاخیر سے ادا کر دی تھیں لیکن گریڈ 17تا 21 کے ملازمین اور اساتذہ کو آدمی تنخواہ پر گزارہ کرنا پڑا تھا ،تو اگر ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ اور چانسلر اسی وقت صورت حال پر قابو پانے کے اقدامات کر لیتے ،تو اب یونیورسٹی کے آسودہ حال ارباب اختیار ایک آنکھ کھول کر یہ اعلان نہ کر پاتے کہ اس ماہ کسی ملازم کو تنخواہیں ادا کرنے کےلئے یونیورسٹی کے پاس کوئی پیسے نہیں ہیں۔ ہر یونیورسٹی میں رجسٹرار کی پوسٹ پر انتظامی تجربے اور پوسٹ کے معیار پر پورا اترنے والا رجسٹرار تعینات کیا جاتا ہے ۔مگر سابق وائس چانسلر نے اپنی پسند کے ایک پروفیسر کو مستقل رجسٹرار بنائے رکھا۔باخبر ذرائع کے مطابق یونیورسٹی میں ایک محتاط تخمینے کے مطابق سالانہ تنخواہوں کا بجٹ تقریبا چھ ارب روپے کے قریب ہے ۔جبکہ سال 2023-24کے اخراجات کا تخمینہ اندازا دس ارب روپے سے کچھ زیادہ بنتا ہے۔اب اگر طالب علموں کی فیسوں کے ساتھ ایچ ای سی کی متوقع گرانٹ اور ریجنل کیمپسز سے حاصل ہونےوالی ایفیلی ایشن کے پیسے اور دیگر ذرائع سے حاصل ہونےوالی آمدن کا اندازہ قائم کیا جائے تو بھی یہ سب کچھ ملا کر سات ارب روپے کے قریب بن سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ رواں مالی سال کا خسارہ تقریبا تین ارب روپئے کے قریب ہو سکتا ہے ۔یہ خسارا ہر سال بڑھتا رہے گا ۔ یہ بات تو بعید از قیاس ہے کہ اس یونیورسٹی میں اتنے بڑے پیمانے پر مالیاتی بد نظمی اور کرپشن وقوع پذیر ہوئی۔ ہو اور قصور وار کوئی بھی نہ ہو؟ یونیورسٹی کے معاملات کے بارے میں ہایئر ایجوکیشن کمیشن اور ہایئر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی بعض رپورٹس کا ذکر بھی کیا جا رہا ہے۔شنید ہے کہ ان رپورٹس میں یونیورسٹی کے گزشتہ چار سالوں کا کچا چٹھا مرقوم ہے۔اگر ایسا کچھ موجود اور دستیاب ہے تو ان رپورٹس کو عام کرنے میں کیا رکاوٹ یا مصلحت آڑے آ رہی ہے؟
کالم
عبرت نامہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور
- by web desk
- دسمبر 26, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 1176 Views
- 1 سال ago