Site icon Daily Pakistan

عدالتی نظام اور وحشی درندے

پاکستان میں ہمارا عدالتی نظام ایک عام اور غریب آدمی کے لیے امید کی آخری کرن ہے ورنہ تو پولیس سمیت جتنے بھی انتظامی اداروں میں بیٹھے ہوئے وحشی افراد درندے کی طرح انسانوں کو چیر پھاڑ کررکھ دیں اگر کسی کو نہیں یقین تو لاہور میں سابق پولیس انسپکٹرعابد باکسر ابھی زندہ ہے جو خود چشم کشا حقائق کا عینی شاہد ہے اسی طرح کے افراد سے ملک بھر کے ادارے بھرے پڑے ہیں لیکن ظلم کے ان اندھیروں میں روشنی کی اگر کوئی کرن ہے تو وہ ہماری عدالتیں ہی ہیں اور ان میں بھی سستا اور فوری انصاف اگر کہیں غریب انسان کو ملتا ہے تو وہ وفاقی محتسب کی عدالت ہے جہاں پھوٹی کوڑی سے بھی محتاج انپڑھ شخص کسی نہ کسی طرح اپنی آواز وفاقی محتسب تک پہنچا دے بس پھر اسکے بعد یہ ادارہ حرکت میں آتا ہے تو انصاف اس غریب انسان کے دروزاے پر ہاتھ باندھے پہنچ جاتا ہے اس ادارے کو اعجاز قریشی اور ڈاکٹر انعام الحق جاوید کی محنت نے جتنا عوامی بنا دیا ہے شائد ہی کوئی اور ادارہ انکے مقابل آنے کی جرات کرسکتا ہو اسی طرح پنجاب میں صوبائی محتسب کا ادارہ بھی دن رات عوام کی خدمت میں مصروف ہے خاص کر اس ادارے کے سیکریٹری طاہر رضا ہمدانی نے عام انسان کی سہولت اور انصاف کے حصول میں آسان رسائی کے لیے جو اقدامات کردیے ہیں وہ بھی قابل تعریف ہیں جس طرح محتسب کے یہ دو ادارے عام انسان کو انصاف پہنچانے میں لگے ہوئے ہیں اسی طرح مرکزی سطح پر ایک اور ادارہ بھی کام کرتا ہے لیکن اسکے کام میں درخواست دہندہ کو وہ سکون حاصل نہیں ہوتا تھا جو وفاقی محتسب میں ایک عام انسان درخواست دینے کے بعد محسوس کرتا ہے کہ اب اسکا کام کنارے لگ جائیگا لیکن جب سے حکومت نے پشاور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اور سُپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس (ر)مظہر عالم میاں خیل کوتین سال کی مُدت کے لئے کمپٹیشن اپیلٹ ٹریبیونل کا چئیرمین مُقرر کیا ہے تب سے متاثرین کو امید ہو چکی ہے کہ اب انکے کام بھی اسی طرح ہونگے وفاقی محتسب کررہے ہیں اِس وقت ٹریبیونل میں 212 اپیلیں زیرِاِلتوا ہیں پچھلے دس سال میں سے ساڑھے سات سال ٹریبیونل غیر فعال رہا ہے جِس کی وجہ سے کاروباری ادارے ہائی کورٹ میں سی سی پی آرڈرز کے خلاف رِٹ پٹیشنز دائر کرتے رہے جنکی تعداد 140 کے قریب ہے فیصلوں میں تاخیر سے چینی ، سیمنٹ ، کھاد،ٹیلی کام، بینکوں اوراشیائے صرف سمیت اہم شعبوں میں ضروری سی سی پی آرڈرز کے نفاذ پر منفی اثر ہواہے جبکہ ٹریبیونل شوگر کارٹل کیس کی سماعت بھی کر رہا ہے جس میں سی سی پی نے پاکستان شوگر مِلز ایسوسی ایشن اور اُس کی ممبر شوگر مِلز پر 44 ارب رُوپے جُرمانہ بھی عائدکررکھا ہے اور یہ تمام کے تمام پیسے ان غریب محنت کش کسانوں کے ہیں جو سارا سال محنت کرتے ہیں مٹی میںمٹی ہو جاتے ہیں اور پھر سال کے بعد جب انہیں انکی محنت کا پھل ملنا ہوتا ہے تو تب یہ شوگر مافیا انکے پیسوں پر سانپ بن کر بیٹھ جاتا ہے انہیںتڑپاتا ہے انکے بچوں کے مستقبل سے کھیلتا ہے اور پھر انہیں عدالتوں میں گھسیٹتا ہے لیکن انہیں انکے پیسے نہیںدیتا اب اس اداے کے سربراہ کے طور پر ایسے شخص جسٹس (ر)مظہر عالم میاں خیل کو لگایا گیا ہے جسکا ماضی بے داغ ہے اور عوامی دکھ درد انکے اندرکوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے اس ادارے کی سربراہی بلا شبہ ایسے ہی شخص کو سونپی جانی چاہیے تھی جو فیصلوں کو تیزی سے انکے انجام تک پہنچائے گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان سے 1982 میں قانون کی ڈگری حاصل کرنےوالے مظہر عالم میاں خیل نے ہر عہدے کےساتھ خوب انصاف کیا اور انکا پیشہ ورانہ کیریئراس بات کی گواہی دیتا ہے کہ ایسے چند اور افراد اگر پاکستان کو مل جاتے تو آج پاکستان بھی دنیا کے سر فہرست ممالک میں ہوتا 1982 میں اپنی وکالت کا آغاز کرنےوالے اس نوجوان وکیل نے انصاف غریب کی دہلیز پر پہنچانے کا جو سلسلہ شروع کیا وہ اب تک جاری ہے انکی زندگی میں بہت سی بہاریں بھی آئی اور خزاں کا موسم بھی انہوں نے دیکھا آپ نائب صدر اور سیکرٹری ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن ڈی آئی خان کے عہدے پر فائز رہے نائب صدر اور سیکرٹری ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن ڈی آئی خان بنچ کے عہدے پر فائز رہے سیشن 1999 سے 2003 اور 2004 سے 2009 تک N.W.F.P بار کونسل کے ممبر بھی رہے سال 1998 سے 2000 تک لاء کالج، گومل یونیورسٹی ڈی آئی خان میں بطور وزٹنگ پارٹ ٹائم لیکچرار رہے 7-9-2009 کو ایڈیشنل جج کے طور پر بنچ میں شامل ہوئے اور 5-9-2011 کو پشاور ہائی کورٹ کے مستقل جج کے عہدے پر فائز ہوئے سرحد یونیورسٹی کے ممبر سنڈیکیٹ کے طور پربھی رہے اورچیئرمین الیکشن ٹربیونل اینڈ کمپنیز جج کے طور پربھی کام کیا مینگورہ بنچ میں پراونشل بار کونسل خیبرپختونخوا کی انرولمنٹ کمیٹی کے چیئرمین بھی رہے پشاور ہائی کورٹ کی ایڈمنسٹریشن کمیٹی کے ممبر کے طور پربھی کام کیا 8 اپریل 2014 کو پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اٹھایا اپنے پورے کیرئیر میں معزز جج نے انصاف اور قانون کی حکمرانی میں گہری دلچسپی لی امید ہے کہ اب کمپٹیشن اپیلٹ ٹریبیونل میں عرصہ دراز سے سے زیرالتوا کیس جلد اپنے منتقی انجام تک پہنچیں گے یہ ادارہ صرف پاکستان میںہی کام نہیںکرتا بلکہ دنیا کے بیشتر ممالک میں اس ادارے کا نیٹ ورک ہے ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں اس ادارے کا بہت اچھا کام جارہا ہے اور اگر ہم یونائیٹڈ کنگڈم کمپیٹیشن اپیل ٹربیونل کی بات کریں تو وہاں بھی یہ ایک ماہر عدالتی ادارہ ہے جس میں قانون، معاشیات، کاروبار اور اکاو¿نٹنسی میں بین الضابطہ مہارت ہے جس کا کام مسابقت یا اقتصادی ضابطہ کار کے مسائل سے متعلق مقدمات کی سماعت اور فیصلہ کرنا ہے مسابقتی اپیل ٹربیونل ("ٹربیونل”) انٹرپرائز ایکٹ 2002 کے سیکشن 12 اور شیڈول 2 کے ذریعہ بنایا گیا تھا جو 1 اپریل 2003 کو نافذ ہوا تھا ٹریبونل کا دائرہ اختیار پورے برطانیہ تک پھیلا ہوا ہے جہاںمقدمات کی سماعت تین ممبران پر مشتمل ٹریبونل کے سامنے کی جاتی ہے جن میں صدر یا چیئرمین اور دو عام ممبران ہوتے ہیں چیئر مین انگلینڈ اور ویلز کی ہائیکورٹ ( اسکاٹ لینڈ اور شمالی آئرلینڈ میں مساوی عدالتیں) کے جج ہوتے ہیں اور عام اراکین قانون، کاروبار، اکاو¿نٹنسی، معاشیات اور دیگر متعلقہ شعبوں میں مہارت رکھتے ہیںہم انکے نظام انصاف سے اپنا مقابلہ تو نہیںکرسکتے لیکن عوام کو انصاف دینے میں اپنا حصہ تو ڈال سکتے ہیں کیونکہ عدالتیں ہی پاکستان کی پسماندہ ترین عوام کی امید کی آخری کرن ہیں ۔

Exit mobile version