وزارت قانون نے پاکستان کے اگلے قاضی القضاء جناب چیف جسٹس آف پاکستان کے منصب پر فائز ہونے والی شخصیت کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا ہے۔ اس کے مطابق جناب جسٹس گلزار احمد خان پاکستان کے آئندہ چیف جسٹس ہوں گے جو 21 دسمبر کو اپنے نئے منصب پر فائز ہو جائیں گے۔ جسٹس گلزار احمد خان جیسی نجیب ، نستعلیق اور صاحب علم شخصیت یقینا اس منصب کی توقیر میں مزید اضافہ کرے گی۔ میں جناب جسٹس گلزار احمد کے شخصی اوصاف سے آگہی کے ساتھ ان کے خاندانی پس منظر سے بھی آ گاہ ہوں کہ ایک قرابت کا رشتہ بھی ہے اور میں خوب جانتا ہوں وہ ایک نجیب پس منظر کے آدمی ہیں۔یہ منصب کوئی معمولی منصب نہیں۔ اس کے تقاضے اتنے نازک ہیں کہ ذمہ داری کا تصور ہی کیا جائے تو گویا کندھوں پر ایک کوہ گراں سا محسوس ہوتا ہے ۔ یہ اس دنیا میں انصاف کی فراہمی کا آخری منصب ہے۔اس کے بعد پھر خدا ئے کریم کی ذات مبارکہ ہے۔ میں جناب جسٹس گلزار احمد خان کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارک دیتا ہوں اور خانہ دل سے ہر دم یہ دعا نکلتی ہے وہ اس منصب کی ذمہ داریوں سے سرخرو ہوں اور اس کی توقیر اور قدرومنزلت میں اضافے کا باعث بنیں۔
جسٹس گلزار احمد خان اور قانون کی دنیا میں عشروں کا ایک تعلق ہے۔جیسے غالب نے کہا تھا : برسوں سے ہے پیشہ اپنا سپہ گری۔ایسے ہی جناب جسٹس گلزار احمد خان کے لیے قانون کی دنیا نئی نہیں ہے۔ یہ ذوق انہیں وراثت میں آیاہے۔ان کے والد گرامی جناب نور محمد صاحب پاکستان کے عالی قدر قانون دانوں میں سے ایک تھے۔جوعلم اور ذوق میراث میں آتا ہے وہ تو انسان کے لاشعور میں گویا ثبت ہو جاتا ہے۔علم کی جو میراث بیٹے کو باپ سے آئی ہو وہ تو آفتاب کی اس کرن کی مانند ہوتی ہے جو سیپ کے دل میں اترتی ہے تو اسے گوہر نایاب بنا دیتی ہے۔ یہی میراث ان سے ان کے داماد بیرسٹر ابوذر خان نیازی کو بھی منتقل ہوئی ہے۔ جو جواں سال مگر کہنہ مشق قانون دان ہیں۔
جن حالات میں جناب جسٹس گلزار احمد خان صاحب یہ منصب سنبھال رہے ہیں ان حالات کی معنویت نے اس منصب کی اہمیت کو دو چند کر دیا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اس قو م کو درپیش مسائل میں معیشت سر فہرست ہے۔ قانون کی دنیا میں بھی معیشت جس طرح اب زیر بحث ہے اور اشکالات اور سوالات پیدا ہو رہے ہیں ایسا شاید پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔معاشی سمت درست کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس میں بہت سی چیزیں نئی سامنے آئیں گی جن کے لیے ہو سکتا ہے ‘ جورسپروڈنس ‘ کی ضرورت پڑے۔ حسن اتفاق دیکھیے کہ پاکستان کے نئے چیف جسٹس ان معاملات پر ید طولیٰ رکھتے ہیں۔
سپریم کورٹ کا کوئی بھی جج ہو وہ غیر معمولی قابلیت اور صلاحیت کا حامل ہوتا ہے تبھی اس منصب عالی تک پہنچتا ہے۔تاہم ڈھیروں معاملات میں مہارت کے باوجود کوئی ایک ایسا شعبہ ہوتا ہے جو فاضل جج صاحبان کا پسندیدہ شعبہ ہوتا ہے اور اس میں مہارت انتہائی غیر معمولی ہوتی ہے۔
ایسے ہی جناب جسٹس گلزار احمد خان صاحب نے بھی اپنی وکالت کے زمانے میں سول اور کارپوریٹ میں قابلیت کے جوہر دکھائے۔مالیاتی اداروں ، بنکوں اور کمپنیوں کے معاملات کو وہ دیکھتے رہے۔ بلاشبہ وہ قانون کے دیگر پہلووں پر بھی غیر معمولی مہارت رکھتے ہیں لیکن ہماری خوش قسمتی یہ ہے کہ مالی معاملات کی پیچیدگیوں کے ابھر کے سامنے آنے کے اس دور میں چیف جسٹس آف پاکستان کا منصب ایک ایسی شخصیت کے پاس ہو گا جس کی ان مالیاتی معاملات میں قابلیت غیر معمولی حد تک مسلمہ ہے۔اس قابلیت سے بلاشبہ حکومت اور ہمارے مالیاتی اداروں کو بھی بہت رہنمائی ملے گی۔
جناب چیف جسٹس جسٹس آصف سعید خان کھوسہ صاحب نے بھر پور دور گزارا۔ ایک صاحب علم کے طور پر ان کی وسعت مطالعہ کا میں مداح ہوں۔وہ پانچ کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ میرے کالموں کی کتا ب حلقہ احباب جب میں نے ان تک پہنچائی تو انہوں نے اسے پڑھا اور مجھے اپنے ہاتھ سے لکھا ایک مکتوب بھی بھیجا۔
یہ وقت ہے جو گزر جاتا ہے۔ تاریخ کی لوح پر صرف گواہی رہ جاتی ہے کہ جسے امانت سونپی گئی اس نے کیا کیا۔ یہ امانت اب جناب جسٹس گلزار احمد خان صاحب کو سونپی جارہی ہے۔ جناب جسٹس گلزار احمد خان صاحب اس منصب پر فائز ہونے والے ہیں۔ میں ، قانون کی حکمرانی کا تیقن لیے ، دعا گو ہوں۔ تہہ دل سے اور پورے خلوص کے ساتھ۔
]]>