معروف عالم دین اور اخوان المسلمین سے وابستہ شیخ یوسف القرضاوی انتقال کرگئے۔ ان کی عمر 96 برس تھی۔ انھیں گزشتہ برس کورونا ہوا تھا اور وہ صحت یاب ہوگئے تھے تاہم چند ماہ سے کافی علیل تھے۔ان کا انتقال قطر میں ہوا۔ ان کا تعلق مصر سے تھا تاہم وہ کئی دہائیوں سے خود ساختہ جلا وطنی اختیار کیے ہوئے تھے۔ انہیں عالم اسلام میں جمہوری نظام کا بڑا حامی سمجھاجاتاتھا۔شیخ یوسف القرضاوی انٹرنیشنل یونین آف مسلم سکالرز کے چیئرمین بھی تھے۔وہ ایک سوسے زائد کتابوں کے مصنف ہیں۔ اکثر کتابوں کے ترجمے دنیا کی مختلف زبانوں میں شائع ہوچکے ہیں۔ اسلامی قانون اور فقہ ان کا خاص موضوع تھا۔وہ عرب دنیا میں انتہائی با اثر مذہبی رہنما تھے۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر بھی آپ کے چاہنے والے لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں۔ علامہ القرضاوی کے معتقدین ومحبین کا ایک بڑا حلقہ ہے جو عرب ممالک سے لے کر یورپ، امریکہ اور برصغیر تک پھیلا ہوا ہے۔ آپ کو دنیا بھر میں مجتہد، مجدد اور مفکر کی حیثیت سے جاناجاتا ہے۔ مجموعی طور پر اس وقت عالم اسلام میں سب سے بڑے اسلامی اسکالر، فقیہ اور عالم دین کی حیثیت آپ کو حاصل ہے۔ علامہ یوسف القرضاوی کی زکواة، اسلامی قوانین کی تشریح اور اسلامی نظام کے نفاذ سے متعلق کتابوں نے عالمی شہرت حاصل کی اور اسلامی جدوجہد کرنے والوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوئیں۔یوسف القرضاوی 9 ستمبر 1926 کو پیدا ہوئے اور مصر میں اپنی تعلیم مکمل کی۔علامہ یوسف القرضاوی دو برس کے تھے تب ان کے والد انتقال کر گئے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے چچا کے ہاں پرورش پائی۔ ان کے خاندان والے انہیں دکاندار یا بڑھئی بننے کو کہتے تھے۔ تاہم وہ اس دوران میں قرآن مجید حفظ کرتے رہے۔ نو برس کی عمر میں حفظ مکمل کر لیا۔حفظ قرآن کے بعد جامع ازہر میں داخل ہوئے اور وہاں سے ثانویہ کی فراغت پر مصری سلطنت میں دوسرا مقام حاصل کیا۔ پھر جامع ازہر کے کلیہ اصول الدین میں داخلہ لیا اور وہاں سے1953ءمیں عالمیت کی سند حاصل کی، جس میں وہ اپنے ایک سو اسی ساتھیوں میں اول درجے سے کامیاب ہوئے۔ 1954ءمیں کلیہ اللغہ سے اجازتِ تدریس کی سند حاصل کی اور اس میں پانچ سو طلبائے ازہر کے درمیان اول درجے سے کامیاب ہوئے۔اس کے بعد 1958ءمیں انھوں نے عرب لیگ کے ملحقہ "معہد دراسات اسلامیہ” سے "تخصص در زبان و ادب” میں ڈپلوما کیا، ساتھ ہی ساتھ 1960ءمیں اعلی تعلیم کے لیے جامع ازہر کے کلیہ اصول الدین سے ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ 1973ءمیں وہیں سے اول مقام و درجے سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی، اس کے مقالہ کا موضوع "زکوٰةاور معاشرتی مشکلات میں اس کا اثر” تھا۔ اخوان المسلمین سے وابستہ ہوئے اور عملی جدوجہد میں حصہ لیا جس کی پاداش میں 1950 کو جمال عبدالناصر کے دور میں گرفتار بھی ہوئے ۔ علامہ یوسف القرضاوی 1960 کی دہائی کے اوائل میں مصر سے قطر کے لیے روانہ ہوئے اور قطر یونیورسٹی میں فیکلٹی آف شریعہ کے ڈین کے طور پر خدمات انجام دیں جس کی بنیاد پر انھیں 1968 قطری شہریت دی گئی۔فروری 2011 کو قاہرہ کے تحریر اسکوائر میں لاکھوں افراد کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے علامہ یوسف القرضاوی نے یہ سنہری ہدایات جاری کہ اس انقلاب کو ان منافقوں کے ہاتھوں چوری نہ ہونے دیں جنھوں نے اپنا مکروہ چہرہ چھپایا ہوا ہے۔ ابھی انقلاب کا سفر ختم نہیں ہوا بلکہ ابھی مصر کی تعمیر کا آغاز ہوا ہے اس لیے اپنے انقلاب کی حفاظت کرو۔ یوسف القرضاوی عالم اسلام اور اکیسویں صدی کے مشہور عالم دین سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اور اخوان المسلمون کے بانی امام حسن البنا کے عقیدت مند تھے۔ مولانا مودودیؒ کا جنازہ بھی علامہ نے لاہور میں پڑھایا تھا۔ ان کا یہ تعلق جوانی میں بھی برقرار رہا۔ اخوان المسلمون کے ساتھ تعلق کی بنیاد پر انہیں پہلی بار 1949 میں جیل بھی جانا پڑا تھا۔ ان کی بعض تصانیف نے مصری حکومت کو ناراض کر دیا تھا چنانچہ ان کی قید و بند کا سلسلہ جاری رہا۔ امیر حلقہ جماعت اسلامی ہند حلقہ مولانا حامد محمدخان نے اپنے تعزیتی بیان میں کہا کہ عالم اسلام کے جید عالم دین‘ عظیم مصنف‘ فقیہ العصرحضرت علامہ یوسف القرضاوی اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔ بحکم اِلٰہی اِنہوں نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ بلا شبہ وہ عالم اسلام کے جلیل القدر عالم و فقیہ‘ مفکر و مفسر اور تحریکاتِ اسلامی کے قائد و رہبر کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھے جائینگے۔ علامہ یوسف القرضاوی کا انتقال عالم اسلام کا نا قابل ِ تلافی نقصان ہے۔علامہ نے اپنی ساری زندگی دین اسلام کی سربلندی کے لئے گزاردی۔وہ بیک وقت کئی ایک صلاحیتوں کے مالک تھے۔ ان کی خوبی یہ بھی تھی کہ وہ تمام مکاتب فکر و مسالک میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے۔ ا±نہوں نے اپنی تحریروں کے ذریعہ لاکھوں نفوس کو متاثر کیا اور دین اسلام سے قریب کیا۔ بلا شبہ علامہ یوسف القرضاوی جیسی شخصیات صدیوں میں کہیں پیدا ہوتی ہے۔ ان کا انتقال ا±مت مسلمہ کے لئے عظیم خسارہ ہے۔اور ایک عہد کا خاتمہ ہے۔ علامہ یوسف القرضاوی نے شہر حیدرآباد کا بھی ایک سے زائد مرتبہ دورہ کیا اوریہاں پر اپنے علم کی روشنیاں بکھیریں۔ آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے،سبزہ نور ستہ اس گھر کی نگہبانی کرے